دینی مدارس کے نظمِ تعلیم اور مسائل کا تاریخی جائزہ

پاکستان کے اندر مدارس کا نظام ایک مستحکم پہچان رکھتا ہے۔اس کی اپنی ساخت اور فکری منہج ہے جو ملک میں ہمیشہ زیربحث رہتے ہیں۔حکومت ایک عرصہ سے مدارس کے نظام ونصاب میں تبدیلی لانے کی خواہاں ہے اور مذہبی حلقے کے ساتھ اس پر بات چیت کرتی رہتی ہے،لیکن اب تک فریقین کے مابین اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا۔رواں سال بیرونی دباؤ اور داخلی سطح پر پالیسی کی تبدیلی کے باعث مدارس کے اُمور ایک بار پھر سامنے آئے ہیں اور کچھ پیش رفت ہوتی دکھائی دی ہے۔زیرنظرمضمون میں مدارس کے نظام اور ان کے مسائل کا تاریخی احاطہ کیاگیا ہے اور اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان مسائل کو کسی ممکنہ قابل قبول حل تک کس طرح پہنچایاجاسکتا ہے۔ ڈاکٹر عامر طاسین پاکستان مدرسہ بورڈ کے چیئرمین رہے ہیں اور مدارس کے حوالے سے حکومت سے مذاکرت کرنے والے وفد کا حصہ ہیں۔

پاکستان کے نظامِ تعلیم میں جہاں مروجہ عصری نصاب اہمیت کا حامل ہے وہیں مدارس کا ”درس نظامی“ بھی ایک مستحکم پہچان رکھتا ہے۔مدارس کا نظمِ تعلیم اپنی فکری وتربیتی ساخت کے اعتبار سے قدیم ہے جس میں حکومت اور نجی سماجی تنظیموں کی طرف سے تغیر کے ہر قسم کے مطالبے کی ہمیشہ مخالفت کی جاتی رہی ہے۔تاہم وقت کے ساتھ اس حلقے کے اندر سے اپنی مرضی وضرورت کے مطابق بعض تبدیلیاں رُونما ہوتی رہی ہیں،جس کی مختلف شکلیں ہیں۔ان سب میں البتہ ایک قدر مشترک ہے کہ وہ روایتی فکری ساخت سے رُوگردانی نہیں کرتیں۔یہ تمام مختلف شکلیں مدرسہ ہی کہلاتی ہیں۔

پاکستان میں موجود تصوف کی خانقاہیں بھی مدارس کا تسلسل ہیں۔ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو صرف لوگوں کی اخلاقی ورُوحانی تربیت کرنے تک محدود ہیں لیکن ان کی اکثریت اِس عمل کی انجام دہی کے ساتھ درسِ نظامی کاکورس بھی کراتی ہے۔1980 ء کے بعدسے مذہبی طبقے کے اندر ایک تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ انہوں نے جدید طرز کے دینی سکول متعارف کرائے جہاں دینی اور عصری،دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ان اداروں کی سرپرستی اگرچہ علما کرتے ہیں لیکن معلمین صرف مدارس کے فضلا نہیں ہوتے بلکہ عصری اداروں کے پڑھے ہوئے اساتذہ بھی ان کا حصہ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ پچھلے پندرہ برسوں میں ملکی وبین الاقوامی سطح پر آن لائن قرآن پڑھانے کارواج بھی عام ہوا ہے۔حتمی اعدادوشمار تو موجود نہیں ہیں تاہم ایسی ویب سائٹس کی بہتات ہے جہاں بچوں کو ناظرہ قرآن اور حفظ کی تعلیم دینے کے ساتھ ان کی دینی تربیت بھی کی جاتی ہے جس کے لیے کوئی مخصوص کورس مرتب نہیں ہے،بلکہ اپنے انفرادی واجتماعی مذہبی رجحانات کے مطابق معلمین وعظ وتربیت کی آن لائن مجالس قائم کرتے ہیں۔

روایتی مدارس کے ساتھ حکومت ِپاکستان نے بھی اپنی صوابدبد کے مطابق مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے ایک بورڈ قائم کررکھا ہے جو ”مدرسہ ایجوکیشن بورڈ“ کے نام سے معروف ہے۔لیکن حکومتی سرپرستی اور عصری تعلیم کو خاطرخواہ جگہ دینے کی وجہ سے یہ روایتی حلقے میں خاص جگہ نہیں بناسکا،نہ یہ اس کا حصہ تصور کیاجاتا ہے۔

اگر پانچوں وفاقات کے ماتحت مدارس اور دیگر سرکاری وغیرسرکاری دینی اداروں کی کُل تعداد کااندازہ لگایا جائے تو 2018ء کی تحقیق کے مطابق یہ کم وبیش 37،517 بنتی ہے، اور ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کی تعداد تقریباََ 41 لاکھ 59 ہزار ہے۔

مدارس کانصاب متنوع ہے۔اس میں عربی وفارسی متون کوسمجھنے اور قرآن وحدیث کے احکامات کی تفہیم کے لیے متعلقہ کئی علوم وفنون زیرِتدریس ہوتے ہیں۔بعض مکاتبِ فکر نے اپنے نصاب میں سیاسیات واقتصادیات کی چند کتب بھی شامل کررکھی ہیں،جبکہ بڑے شہروں کے کچھ مدارس نے یونیورسٹیز کے ساتھ الحاق کیا ہے جس کے تحت چنیدہ فارغ التحصیل طلبہ کوفلکیات،معاشیات،بینکنگ اور صحافت کے کورسز کرائے جاتے ہیں۔حکومت کی طرف سے شہادۃ العالمیہ کی بنیاد پر ایم اے کی معادلہ سند جاری کی جاتی ہے، ہر سال بہت سارے طلبہ وطالبات اس کی بنیاد پر یونیورسٹیز میں عربی واسلامیات کے شعبوں میں M.Phil. کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔اس کے بعد روایتی مذہبی پس منظر کے حامل افراد بطور اساتذہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

حکومت کے ماتحت چلنے والے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ میں عصری تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔اس کے نصاب میں درجہ عالیہ / گریجویشن تک مذہبی وعصری تعلیم کا تناسب یکساں ہے،جبکہ آخری سال درجہ عالمیہ میں طلبہ 9 مختلف شعبہ جات میں سے کسی ایک کاانتخاب کرسکتے ہیں،جن کی ترتیب یہ ہے:شعبہ مطالعہ قرآن،حدیث، فقہ و قانون،سیرت، معاشیات، سیاسیات، فلسفہ، تاریخ ِاسلامی، تقابل ِادیان۔

مدارس اور مذہبی طبقات چاہے اپنی تعلیم اور فکری ساخت کی تشکیل کے عمل میں مکمل خودمختار ہوں اورہمیشہ حکومت کی دخل اندازی کو مسترد کرتے آئے ہوں لیکن یہ اپنے اثرورسوخ کے اعتبار سے وسیع دائرہ رکھتے ہیں۔آزادی کی تحریک کے دوران چونکہ مذہب کے نام کا استعمال کیاگیا تھا اس لیے پاکستان بننے کے بعد سے دینی طبقہ ملک کے سیاسی عمل پر بھی اثراندازہوتا رہاہے اور مختلف حوالوں سے اب بھی علما کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔تاہم عالمی اور قومی سطح پر حالات بدل رہے ہیں اور تقاضے بھی، اس لیے حکومتوں کی جانب سے مسلسل یہ مطالبہ سامنے آتاہے کہ مدار س کے نظم و نصاب میں اصلاحات لائی جائیں۔ جدید اصلاحاتی ڈھانچے کی تشکیل پہلے مدارس کی صوابدید پر چھوڑی گئی تھی لیکن اب حکومت وزارتِ تعلیم کے توسط سے براہ راست کردار ادا کرنا چاہتی

ہے۔اس کے لیے پچھلے چند سالوں میں کئی اصلاحاتی کمیشن اور کمیٹیاں وجود میں آئیں، اگرچہ کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ ذیل میں پاکستان کے اندر مذہبی طبقے کی خدمات اور سیاسی دائرے میں ان کی شراکت ونفوذ کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتاہے۔ اس میں یہ بھی واضح کیا جائے گا کہ دینی حلقہ کس طرح اصلاحات کے عمل سے متواتر گزرتا آیا ہے۔

پاکستان کے قیام کے فوری بعد 1947ء میں ہی قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے علامہ اسد کی سربراہی میں Department of Islamic Reconstruction کے عنوان سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کا مقصد اسلامی فکر کی روشنی میں قانون سازی، تعلیمی نظم کی ترتیب اور گورننس کا ڈھانچہ تشکیل دینا تھا۔

1949 ء میں حکومت ِپاکستان نے موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل طرزکے ایک بورڈ کے قیام کی منظوری دی جس کانام’تعلیمات اسلامیہ‘ رکھاگیا تھا۔ڈاکٹرفضل الرحمن جیسے اصلاح پسند اور شبیراحمدعثمانی جیسے روایتی علما بھی اس کا حصہ تھے۔لیکن ان دومختلف طبقہ ہائے فکر کے حامل اہل علم کے مابین فکری کشمکش کی وجہ سے بورڈ زیادہ دیر چل نہیں سکا۔

29نومبرتا یکم دسمبر1947ء قائد اعظم محمد علی جناح کے ایما پر منعقد ہونے والی پاکستان کی پہلی قومی تعلیمی کانفرنس کی سفارشات سے لے کر حکومت کی ہر نئی تعلیمی پالیسی میں تعلیمی اداروں کے اندر اسلامی اخلاقی اقدار کی ترویج کی فکر نمایاں رہی۔ساتھ ساتھ مدارس کوبھی قومی دھارے میں لانے کی خواہش حکومتوں میں موجود رہی۔ 1970ء میں جنرل یحیٰ کے دورمیں ائیر مارشل نور خان کی نگرانی میں ایک تعلیمی کمیشن قائم کیا گیا جس کی سفارشات علما کے سامنے جائزے کے لیے پیش کی گئیں تو انہوں نے اِس حقیقت کو تسلیم کیا کہ دینی مدارس کے موجودہ نصاب میں تبدیلی ناگزیر ہے۔اس ضرورت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے قیام کی تجویز بھی پیش کی گئی لیکن اس پہ عملدرآمد نہ ہو سکا۔

1979 ء میں وزارتِ تعلیم کی طرف سے ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتا کی سربراہی میں جائزہ دینی مدارس کے عنوان سے ایک کمیٹی بنائی گئی، اس میں ماہرینِ تعلیم کے علاوہ علماکوبھی شامل کیا گیا تھا۔ رپورٹ کی تجاویز میں سفارش کی گئی کہ دینی مدارس میں عصری علوم کی تدریس کا اہتمام کیاجائے اور تمام مدارس کا امتحانی نظام ایک مرکزی بورڈ یا وفاق کے سپرد کیا جائے۔یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظررہا۔

اسی طرح 1988 ء میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی (مرحوم) کی زیرصدارت تعلیم کی اسلامائزیشن کے لیے مستقل کمیشن (Permanent Commission for Islamization of Education) قائم کیا گیا جو عارضی ثابت ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں مدارس کے پانچوں وفاقات الگ الگ بورڈ زکی حیثیت سے متعارف ہو چکے تھے۔ ایک پیشکش کے ساتھ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (جس کی تجدید 1974ء میں ہو چکی تھی) سے ان کا الحاق کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ تب مدارس کے تمام تعلیمی درجات کوعصری تعلیم کے درجات کے مساوی قرار دینے کی پیشکش کی گئی تھی جسے علما کی جانب سے متفقہ طور پر رد کر دیا گیا تھااور یہ طے پایا گیا کہ وہ صرف آخری سند شہادۃ العالیہ کا معادلہ (MA)قبول کریں گے۔ان کے پیش نظر یہ اشکال تھا کہ اگر مدارس کے طلبہ شہادۃ العالمیہ سے نچلے درجات کامساوی معادلہ (میٹرک، انٹر) حاصل کرلیں گے توایسا نہ ہوکہ وہ مدرسہ کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر عصری تعلیمی اداروں میں داخلہ لے لیں۔

1988 ء کے آخر میں وزیر اعظم پاکستان شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعدتعلیم کی اسلامائزیشن کے لیے قائم کیا جانے والا ادارہ (Permanent Commission for Islamization of Education) کالعدم قرار دے دیا گیا۔1991 ء میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں نفاذِ شریعت ایکٹ پاس ہونے کے بعد اس کی دفعہ7 کے تحت تعلیم کی اسلامائزیشن کے لیے نیا کمیشن رکن قومی اسمبلی سجاد حیدر (جونیجو دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم رہے تھے)کی سربراہی میں قائم ہوا۔

1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹوصاحبہ کے دوسرے دورِ حکومت میں کمیشن کودوبارہ ختم تو نہیں کیاگیالیکن اِس کے کام میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت بھی نہیں ہوئی۔ 1997ء کے آغاز میں حکومت پھر تبدیل ہوئی تو ڈاکٹرظفر اسحاق انصاری کمیشن کے سربراہ مقرر کیے گئے مگر حکومت کی طرف سے گرمجوشی کے فقدان کے باعث یہ شعبہ عملاًمعطل ہی رہا۔

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکومتِ پاکستان شروع سے اس کوشش میں رہی ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام کی مکمل طور پہ اسلامائزیشن کردی جائے۔مدارس میں عصری تعلیم کی ضرورت اور عصری اداروں میں دینی تعلیم کی ترویج کا مقصد جہاں یکساں تعلیمی نظم کے فروغ کے رجحان کا پتہ دیتا ہے وہیں اس سے اس امر کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست مذہبی تعلیم کو نمایاں اہمیت دیتی ہے۔

1999 ء میں جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے، 2001 میں ”پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ“کاقیام عمل میں لایا گیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کی جانب سے اب بھی تعلیمی پالیسی میں کسی تبدیلی کا امکان ظاہر نہیں کیاگیا۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ماضی کی حکومتوں کی کمیٹیوں اور سفارشات کا تسلسل تھا۔

2005ء میں مدارس کے وفاقات نے حکومتی ’مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘کے خلاف (ITMP) ’اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان‘ کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا اور بعض اختلافات کی بنا پر سرکاری تعلیمی نظم سے الحاق کوختم کرتے ہوئے رجسٹریشن سے انکار کردیا۔

دوسری جانب 2005ء ہی میں وفاقی وزارتِ تعلیم کے زیر نگرانی ایک تعلیمی پروجیکٹ شروع کیا گیا جس کا نام ”مدرسہ ایجوکیشن ریفارم” رکھا گیا۔اس منصوبے کا مقصدیہ تھاکہ دینی مدارس میں عصری علوم پڑھانے کے لیے ابتدائی سطح پر اساتذہ مقرر کیے جائیں۔ اس کے لیے سرکاری گرانٹ کے علاوہ کثیر تعداد میں غیر ملکی فنڈز بھی آئے،جن کا صحیح طور پر استعمال نہ کیا جا سکا۔اُس وقت ابتدائی طور پہ کم وبیش 500 دینی مدارس میں 2000 اساتذہ کاتقررہوا جو زیادہ تر سرکاری اسکولوں کے معلمین تھے۔ مگر اس پروجیکٹ کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2010ء کی 18 ویں ترمیم کے باعث جب تعلیم کوصوبائی حکومتوں کے سپردکیاگیا تواصولی طورپہ اِس منصوبے کو بھی صوبائی وزارتِ تعلیم کے ماتحت دیدینا چاہیے تھا، مگر اسے وفاقی وزارتِ مذہبی امور کو دے دیا گیا۔اگراسے ”پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ”کے ساتھ ضم کر دیا جاتا تویہ فیصلہ بھی ثمرآور ہوتا۔ لیکن یہ بھی نہ ہوسکا اور فنڈز کی کمی کے سبب یہ پروجیکٹ ناکام ہوگیا۔

2010 ء میں حکومت نے پانچوں دینی وفاقات کو باقاعدہ سرکاری بورڈ کی شکل دینے کی حامی بھری۔معاہدے کے مطابق مدارس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ میٹرک اور ایف اے کے امتحان پاس کریں گے۔لیکن 18 ویں ترمیم کے بعدیہ معاملہ بھی کھٹائی میں پڑگیا۔

16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا،اس کے بعد مسلسل ایک برس تک دہشت گردانہ کاروائیوں میں تیزی آئی۔ان حالات میں حکومت اور سکیورٹی اداروں نے مذہبی رہنماؤں اور دینی مدارس سے رابطہ کیا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل مرتب کیاگیا۔نیشنل ایکشن پلان کی سفارشات پرعمل یقینی بنانے کے لیے حکومت کے مذہبی حلقوں سے متعدد اجلاس ہوئے اور انہیں بہت ساری کڑی شرائط کاپابندبنایاگیا۔اس دوران مدارس کی رجسٹریشن اور ان کی چھان بین کے لیے بھی کئی اقدامات سامنے آئے۔جنوری 2017ء میں ”پیغامِ پاکستان” کے نام سے نیا مذہبی بیانیہ تحریری دستاویز کی صورت میں تشکیل دیا گیا۔جوکہ ریاست کے بیانیے کی ترجمانی ہے۔

2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت آئی۔ رواں برس کی ابتدا میں عالمی برادری کی تشویش اور قومی سطح پردرپیش بعض مشکلات کی وجہ سے مخصوص دینی مدارس اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ پنجاب اور سندھ میں کالعدم تنظیموں کی مساجد، مدارس اور اسپتالوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا۔ مارچ میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ اور فلاح ِانسانیت فاؤنڈیشن کے 160 مدرسے، 32 اسکول، 153 ڈسپنسریز تحویل میں لی گئیں۔ 2 کالجز، 4 اسپتال اور 178 ایمبولیسنز کوبھی حکومت نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔دوسری جانب نیشنل ایکشن پلان کے تحت سندھ حکومت نے بھی صوبے میں دینی مدارس کو خود چلانے کے فیصلے پر عملدرآمد شروع کردیا ہے جس کے تحت کالعدم تنظیموں کے 56 مدارس، مراکزِ صحت سمیت دیگر املاک کو کنٹرول میں لیا گیا ہے۔

اس دوران وفاقی حکومت کی جانب سے ایک بارپھر مدارس کی رجسٹریشن کے مسئلہ اٹھایاگیا۔ وزارت تعلیم و فنی امور کے وزیر شفقت محمود نے اسلامی نظریاتی کونسل کو مدارس رجسٹریشن، نصاب میں بہتری اور دیگر معاملات پر تجاویز جمع کرنے کے لیے تعاون مانگا۔اسلامی نظریاتی کونسل نے دینی مدارس کے اساتذہ اور کچھ مقامی ذمہ داران کے ساتھ ورکشاپ کاانعقادکرکے تجاویزمرتب کیں اور وزارت تعلیم کو بھجوادیں۔

اسی طرح علما کے ایک وفد نے مورخہ 2 اپریل 2019ء کووزیر اعظم عمران خان،آرمی چیف اور دیگر وزراء سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آرمی چیف نے دینی مدارس کے تمام معاملات حل کرانے اوردینی مدارس کوکسی صورت ختم نہ کرنے کی یقین دہائی کروائی،جنرل قمرباجوہ نے دینی مدارس کوبینک اکاؤنٹ کھولنے، نصاب میں کچھ تبدیلیاں کرنے اورمدارس کے فضلا کودیگرقومی شعبوں میں بھی کھپانے کی امیدظاہرکی۔ مولانازاہدالراشدی اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ آرمی چیف اور ان کے رفقا کی ٹیم مدارس کے نظام و نصاب سے براہِ راست واقفیت رکھتی ہے اور وہ اس کو چند ناگزیر تبدیلیوں کے ساتھ موجودہ صورت میں ہی باقی رکھنے کے حق میں ہیں۔ان کامطالبہ ہے کہ دینی نصاب کو فرقہ وارانہ اور تکفیر کے مبینہ عنصر سے پاک کیا جائے۔ مسلح جدوجہد کی ہر صورت کی نفی ہونی چاہیے اور نجی عسکریت پسندی کے ہر امکان کو ختم ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے اس پر بھی زور دیا کہ مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے فضلا کو مسجد و مدرسہ کے شعبے کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر قومی شعبوں اور اداروں میں کھپانے کے لیے ایک نظم کے قیام کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے علماسے مطالبہ کیا کہ مدارس کے آمد ن و خرچ کا حساب باقاعدہ بینکوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔

حکام سے حالیہ ملاقاتوں کے دوران مذہبی ذمہ داران نے واضح کیا کہ پانچوں وفاقوں سے ملحقہ مدارس کسی قسم کی دہشت گردی،فرقہ واریت اور تشددوانتہاپسندی میں ملوث نہیں،اگر کسی بھی ادارے کے اس قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت پیش کیے جائیں توحکومت سے پہلے ہم اس کے خلاف ازخودتادیبی کارروائی کریں گے۔ہم تشدد کے خلاف کھلا موقف رکھتے ہیں۔ہم نے پیغام ِپاکستان دستاویز جاری کی۔ دہشت گردی کے خلاف فتاویٰ دیے۔خودکش حملوں اور بے گناہ لوگوں کے قتل کے خلاف فکری اور نظریاتی جدوجہدکی۔ علما نے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں لیکن ان کا اعتراف نہیں کیاگیا۔

علما کا اس بات پر بھی اصرار ہے کہ کالعدم تنظیموں اور مدارس کے مسائل کو الگ الگ رکھا جائے۔ تاہم کالعدم تنظیموں کا معاملہ بھی چونکہ ہماراقومی مسئلہ ہے اور اس میں بھی دو طرح کی تنظیمیں ہیں:ایک وہ جوریاست کے خلاف کھڑی ہوئیں اوردوسری وہ جوریاست کے لیے لڑتی رہی ہیں۔مجموعی اسباب اور پس منظر کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس سب کا ذمہ دار کون تھا،تاہم اب اگر اس حوالے سے پالیسی اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی لائی جارہی ہے تو اس بات کا خیال رکھاجائے کہ (1)کاروائی کے عمل میں جانبداری سے کام نہ لیاجائے اورکسی فرد سے زیادتی نہ ہو۔ (2)بے قصور اور غیر متعلق افراد کو نشانہ نہ بنایاجائے (3)کالعدم تنظیموں کاحصہ رہنے والے عناصر کے لیے حکمت عملی مرتب کی جائے جس سے وہ قومی دھارے میں شامل ہوسکیں۔

نصابِ تعلیم کی یکسانیت کے حوالے سے ان کا موقف یہ ہے کہ ”ون نیشن ون ایجوکیشن“ کی بات خوش آئندہے جس کاوہ خیرمقدم کرتے ہیں۔ان کے مطابق وہ یکساں نصاب کے نفاذکے آگے رکاوٹ نہیں ہیں۔وہ یہ چاہتے ہیں کہ عصری اداروں میں دینی اوردینی اداروں میں عصری نصاب شامل کیاجائے اور کم از کم میٹرک کی سطح تک سرکاری ومذہبی اداروں میں ایک ہی نصاب پڑھایاجائے۔اس کے بعد طلبہ کو کسی بھی شعبے کے انتخاب کی آزادی ہونی چاہیے۔

مدارس کے ذمہ داران کو یہ شکایت ہے کہ حکومت ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل نہیں کرتی۔دینی اداروں کی رجسٹریشن میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ کوائف طلبی کے نام پر مدارس کو پریشان کیا جاتا ہے۔ اسناد کوتسلیم کیے جانے کے معاملے میں فضلاسے اجنبیوں والا سلوک برتا جاتا ہے۔بینکوں نے دینی مدارس کے اکاؤنٹ کھولنے پر غیراعلانیہ پابندی عائدکررکھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ دوعشروں سے مدارس کے مسائل پر مذاکرات کررہے ہیں،کئی معاہدے بھی کیے جاچکے،بہت سے فورمزپرعہدوپیمان کیے گئے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے مدارس کی آزادی سلب کرنے کی خواہش رکھی جاتی ہے۔ان شکایات پر جنرل قمرجاوید باجوہ نے کہا کہ ہم مدارس کے نظم کو ختم نہیں کرناچاہتے۔ معاشرے میں ان کے کردار اور خدمات کے قائل ہیں لیکن باہمی مشاورت سے اصلاحِ احوال کی کوشش لازم ہے۔

تاریخی جائزہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مدارس کے مسائل نئے نہیں ہیں۔اصلاحات کی سعی کا ایک طویل سلسلہ ہے۔البتہ نتائج پر نظرڈالی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ وقت اور صلاحیتیں ضائع ہوئی ہیں۔کوئی ایک پالیسی وجود ہی نہیں رکھتی۔ ہر حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق مسائل کو دیکھتی ہے۔سیاسی عدم استحکام بھی معاملات کے الجھنے اور تسلسل کے ٹوٹنے کی ایک وجہ ہے۔راقم کے خیال میں مدارس کے اُمور میں اصلاحات کے قضیے کو وزارت ِتعلیم کے ماتحت دینے کا فیصلہ دانشمندانہ ہے اور اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔وزیراعظم عمران خان نے فیصلے کی سمری منظور کرلی ہے۔ لائحہ عمل تیارکیاجارہا ہے اور اس دوران رجسٹریشن ودیگر امور پہ بات چیت کے لیے علما سے مشاورت بھی کی جارہی ہے۔

مذاکرات کے تناظر میں فی الوقت پاکستان میں مدارس کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ ان کی رجسٹریشن اور ان کے داخلی نظام کے متعلق معلومات جمع کرنا ہے۔اس حوالے سے ماضی میں فریقین کو ایک دوسرے کی جانب سے جن مشکلات کاسامنا رہا ہے اس کا مختصر تذکرہ کیا جاچکا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب کی زیر صدارت اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان کے سربراہان کے ساتھ اجلاس میں اتفاقِ رائے سے اب تک جو اہم فیصلے ہوئے وہ درج ذیل ہیں:

1: تمام دینی مدارس ”اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان“ کے ساتھ طے شدہ رجسٹریشن فارم کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے پاس اپنی رجسٹریشن کرانے کے پابند ہوں گے۔

2: اس مقصد کے لیے وفاقی وزارتِ تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت پورے ملک میں 10 ریجنل دفاتر کھولے گی۔

3: وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت مدارس وجامعات کے اعداد وشمار اکٹھے کرنے کی واحد مجاز اتھارٹی ہوگی۔

4: وہ مدارس وجامعات جو وفاقی وزارتِ تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے پاس رجسٹرڈنہ ہو ں گے،وفاقی حکومت انہیں بند کرنے کی مجاز ہوگی۔

5: جو مدارس وجامعات رجسٹریشن کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کریں گے ان کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے گی۔

6: بڑے شہروں کے بعض دینی اداروں میں غیرملکی طلبہ بھی زیرتعلیم ہیں،اس لیے ان کی موجودگی اور ان کے ویزوں کا معاملہ بھی ہمیشہ متنازعہ وپیچیدہ رہا ہے۔اس حوالے سے حکومت نے یہ اجازت فراہم کی کہ وفاقی وزارت ِتعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے پاس رجسٹر ڈ مدارس غیرملکی طلبہ کو تعلیم کی سہولت مہیا کرسکیں گے۔ مخصوص کردہ مدتِ تعلیم (جوزیادہ سے زیادہ 9سال ہے) کے دورانیے میں قواعد وضوابط کے مطابق ان کے لیے ویزا اجراء میں معاونت کی جائے گی۔

7: ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے حصول کے لیے وزارت کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس میڑک اور ایف اے کی تعلیم فراہم کرکے اپنا الحاق سرکاری فنی تعلیمی بورڈ کے ساتھ کرسکیں گے۔

8: مذاکرات میں یہ بھی طے پایا کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات وفاقی تعلیمی بورڈ کے زیر انتظام ہوں گے جس میں عصری مضامین کی مارکنگ وفاقی تعلیمی بورڈ کرے گا جبکہ دینی مضامین کی مارکنگ مدارس خود کریں گے اور وفاقی تعلیمی بورڈ دونوں اقسام کے مضامین کی مجموعی رپورٹ کے حساب سے نتائج اور اسناد کا اجراء کرے گا۔ یہ اسناد ملک کے تمام شعبوں میں تسلیم کی جائیں گی۔

آئندہ چند ماہ میں مدارس کے ذمہ داران اور حکومت کے درمیان مشاورت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگاجس میں مزید کئی امور پہ پیش رفت ممکن بنائی جاسکے گی۔ان میں سب سے اہم مرحلہ نصاب سازی کا ہے۔یہ مرحلہ مشکل تر ضرور ہے مگر وقت کا اہم تقاضا بھی ہے۔اس کے لیے ماہرین تعلیم اور علما کے علاوہ ان افراد واداروں سے بھی مشاورت ہونی چاہیے جو مختلف شعبوں میں درپیش چیلنجز کا علمی اساسات پربخوبی ادراک رکھتے ہوں۔ ساتھ ہی باقی اسلامی ممالک کے تعلیمی نظام و نصاب کاجائزہ لیاجانا چاہیے۔

اُمید ہے پاکستان کے دینی مدارس اور ان کے ذمہ داران حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ملک کی نوجوان نسل کے مستقبل اور ملکی فلاح وبہبود کے لیے بہتر فیصلے کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے