جسٹس آفتاب علوی کی برطرفی، کچھ قابل توجہ نکات!

سپریم کورٹ آزاد کشمیر نے سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ ، جناب آفتاب علوی کی برطرفی کے خلاف اپیل خارج کر کے عدالت العالیہ کا فیصلہ بحال رکھا – موصوف کی تقرری کو عدالت العالیہ نے ان کی ریٹائر منٹ کے تین ماہ قبل کالعدم اور سپریم کورٹ نے اپیل دو دن قبل مسترد کی-

قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا

یہ عدالتی عمل ہے ، اس پر قانونی اور عدالتی روایات کی روشنی میں اختلاف تو ضرور کیا جا سکتا ہے ، لیکن انکار نہیں – آئینی عدالتوں کی تشریح کے بعد اس کا مقصد وہی ہوتا ہے جو اعلی عدالتیں کہتی ہیں ، جو قانون کے الفاظ میں درج ہے ، وہ نہیں – یہ فیصلے قانونی نظام کا حصہ اور حوالہ بن جاتے – اسی لئے اعلیٰ عدلیہ کو روایات کا امین اور پاسدار کہا جاتا ہے-

جب قانونی تشریح کی ایک روایت قائم ہوتی ہے تویہ عدالتیں خود بھی اس جیسے ہر معاملہ میں ان روایات کو بحال رکھنے کی پاسدار ہوتی ہے – اسی لیے ان کو Legal precedent کہا جاتا ہے – تاہم بدلے ہوئے حالات کے تحت ان کو بدلنے کا اختیار بھی ان ہی عدالتوں کو حاصل ہوتا ہے ، کیونکہ حالات کے بدلنے کے ساتھ قانون کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں ، لیکن ایک جیسے حالات میں فیصلے بھی ایک جیسے ہی ہونے چاہییں ، کیس ٹو کیس نہیں-

اس کیس کے فیصلہ پر تبصرہ علوی صاحب کو کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا نہ ہی عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہے – عدالت العالیہ کے فیصلے کے بعد میں نے ایک مدلل کالم لکھا تھا ، جس کی صحت پر میں اب بھی قائم ہوں – سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کے بعد ان ہی جیسے حالات ، قانون اور آئین کی روشنی میں اعلی عدالتوں کے اس سے پہلے قائم کیے ہوئے اصولوں کی روشنی میں علمی اور قانونی بحث کے لئے چند دلائل ریکارڈ پر رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ عدالتوں کی روایات کی پاسداری ، قانون کی بالا دستی اور عدالتوں کے اپنے وقار اور اعتماد کا سوال ہے ، جس کی تقدیس کو بحال رکھنا مجھ جیسے باقی لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے – اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے قومی تاریخ اور قانون کا حصہ بن جاتے ہیں ، اس لیے ان پر علمی بحث اتنی ہی ضروری ہے جتنی قانون سازی اور حکومتی پالیسیوں پر ہوتی ہے-

گوکہ بطور جج علوی صاحب کی تقرری کے لئے ایڈوائس موصول ہونے کے بعد چیف جسٹس سے مشاورت خلاف روایت عمل ہے، لیکن آئین کے خلاف نہیں ، جس کی متعلقہ دفعہ 43 (2-A)كے الفاظ یوں ہیں :

‏ A judge of the high court shall be appointed
‏by the President on the advice of the council and after consultation with the Chief Justice

سلیس الفاظ کے مطابق کونسل کی ایڈوائس کے بعد ، چیف جسٹس سے مشاورت ہوگی جس پر صدر منظوری دیں گے – عملی طور تقرری حکومتی نوٹیفکیشن کے تحت ہی ہوتی ہے -الفاظ کی ترتیب یہی ہے ، لیکن اس کی تشریح اور پریکٹس کی رو سے ایڈوائس سے پہلے مشاورت ہی مشاورت کہلا سکتی ہے ، لیکن یہ عمل آئین کے الفاظ کے خلاف نہیں تھی –

اس پس منظر میں جواب طلب سوال یہ ہے کہ “ کیا محض ایڈوائس ہی تقرری ہوتی ہے اور کیا بغیر ایڈوائس کے نوٹیفکیشن آئینی ہو سکتا ہے ؟ “ دونوں کا جواب نفی میں ہے – اگر معاملہ مبہم پایا جائے تو اس صورت حال کا ایک عدالتی اصول ہی جواب دیتا ہے کہ فیصلہ اس کے حق میں ہونا ہے جس کی طرف،Preponderance of probability “( کسی امر کے ہونے کا غالب امکان )ہو-

بہ الفاظ دیگر جس شخص کے قصور کے بغیر کسی اور کے غیر معروف یا غیر روایتی عمل سے اس کا نقصان زیادہ اور واقعات کے ترازو کا پلڑا اس کے حق میں ہو، وہی داد رسی کا مستحق ہوتا ہے – جیورس پرو ڈنس کا اصول ہے کہ ریاست اور شہری کا تنازعہ ہو تو ریاست کے تقدس کا خیال رکھا جائے گا، شہری اور حکومت کا تنازعہ ہو تو شہری کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا ، شہریوں کے مابین تنازعہ میں جس کا ریکارڈ، قانون ، روایات اور انصاف کی روشنی میں پلڑا بھاری اور نقصان زیادہ ہونے کا امکان ہو ، اس کا خیال رکھا جائے گا –

فاضل عدلیہ نے چیف جسٹس کی تقرری کو بھی جسٹس عدالت العالیہ کا تسلسل قرار دیا ہے جبکہ جج عدالت العالیہ اور چیف جسٹس عدالت العالیہ کی تقرری دو الگ الگ عمل ہیں اور ان کا طریقہ کار بھی باہم مختلف ہے – اس سے متعلقہ دفعہ آئینی – 43( 2A) (b ) بہت ہی واضح ہے – چیف جسٹس کی تقرری کو جج عدالت العالیہ کا تسلسل نہیں کہا جا سکتا – گو کہ آئینی روایات کے تحت ہائی کورٹ کے سینئر موسٹ جج کو ہی چیف جسٹس تعینات کیا جاسکتا ہے ، لیکن آئین کے تحت کسی بھی ایسے شخص کو چیف جسٹس مقرر کیا جا سکتا ہے جو جج بننے کی اہلیت رکھتا ہو اور اس کے لیے صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ کی ہی مشاورت درکار ہوتی ہے ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی نہیں – عام سروس کی زبان میں یہ پروموشن نہیں، بلکہ نئی تقرری ہے ، صرف پنشن کے مقا صد کے لیے اس کی سروس بطور جج کو ، سروس میں شمار کیا جاتا ہے – اس لیے علوی صاحب کی بطور چیف جسٹس تقرری کو کسی طور غیر آئینی نہیں کہا جا سکتا –

سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک حوالے۔— 2016 SCR 960 — سے ظاہر ہے کہ سابق چیف جسٹس کے خلاف اس سے پہلے ایک رٹ میں ان کے تقرری کو جائز قرار دیا گیا تھا جس کے بعد عدالتوں کے ہی وضع کردہ اصول کے تحت یہ معاملہ past & closed عمل ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا تھا اور یہ قانونی اصول Resjudicata ( امر فیصلہ شدہ) کی تعریف میں آتا ہے ، لیکن اس اصول کا اطلاق اس کیس میں نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ اس کو زیر بحث ہی نہیں لایا گیا –

‎ بے خبری ، توقف بے جا ،جس کو آئینی زبان میں Laches کہا جاتا ہے جس کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں نے ہمیشہ ایسی رٹ پٹشنز کو خارج کیا ہے جو بے جا توقف سے دائر کی جاتی ہیں اور اس عمل کو بدنیتی پر قرار دیا جاتا ہے – اسی اصول کی بناء پر محولہ بالا کیس میں ایک وکیل کی جانب سے ان ہی جج صاحب کے خلاف رٹ کو خارج کیا گیا تھا – اس کیس میں چار سال کے لیچز کو بد نیتی قرار دیا گیا، جبکہ ایک دوسرے وکیل کی جانب سے تقرری کے آٹھ سال بعد دائر رٹ پر اس اصول کا اطلاق نہیں کیا گیا – یہ تواتر سے چلنے والی روایات کا عدم تسلسل ہے – ہماری عدالتوں نے تو تین ماہ کی تاخیر کو بھی لیچز قرار دیا ہے ، آٹھ سال تو بدنیتی کی انتہا ہے وہ بھی ایک وکیل کی جانب سے رٹ پر ، جو اس عدالت اور اس جج کے پاس پیش ہوتا رہا ہو –

اسی طرح اسی عدالت کے وضع کردہ اصول فوقیت (Primacy) جس کے تحت یہ قرار دیا گیا ہے کہ ججوں کی تقرری میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے رائے کو فوقیت دی جائے گی (جس صورت میں جسٹس علوی کی تقرری کو غیر آئینی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے Recommend کیا تھا ) اس اصول کو بھی ، اس دلیل کے ساتھ رد کیا گیا ہے کہ صدر آزاد کشمیر نے اس اصول کو نہیں مانا-

یہ اصول صدر گرامی کا تابع تسلیم یا منظوری نہیں ، آئین کے تحت ریاست کے سارے ادارے اس کے پابند ہیں- عدالت خود اس کو بدل سکتی ہے کوئی اور نہیں -گوکہ میں ذاتی طور اس اصول کو صحیح نہیں سمجھتا کیونکہ ججوں کی تقرری میں آئین کی رو سے دونوں چیف جسٹس صاحبان کی رائے کو ایک جیسی حیثیت حاصل ہے ، لیکن جب تک اس اصول کو خود سپریم کورٹ نہ بدلے ، اس پر عمل کرنا آئینی تقاضا ہے یہ صدر کی صوابدید نہیں ہے-

عدالت العالیہ نے محترم سابق جج کی بر طرفی کے حکم میں ان کے فرائض منصبی کے دوران صادر کیے گئے اقدامات اور احکامات کو ، عدالتی وضع کردہ اصول Defacto Doctrine ، جس کا اردو زبان میں ہم پلہ لفظ ” امر واقع” ہو سکتا ہے ، کے تحت ہی جائز طور پر درست قرار دیا ہے- سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو بحال رکھ کر اس اصول کی توثیق کی ہے ، وگرنہ سسٹم انتشار کا شکار ہو سکتا ہے –

اس کے ساتھ ہی یہ بھی امر واقع ہے کہ موصوف تاریخ تقرری سے تاریخ بر طرفی تک بطور جج اور چیف جسٹس کام کرتے رہے ، ان کا اس عرصہ کے دوران اور کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا اور بطور جج ہائی کورٹ وہ پنشن حاصل کرنے کی مدت پوری کر چکے تھے ، دو حرف اس کے بارے میں بھی لکھ دینے چاہیے تھے کہ “ اس عرصہ کے دوران صادر کیے گئے اقدامات اور احکامات درست تصور ہوں گے اور قانون کے تحت جمع شدہ حقوق ( Accrued rights) کے حصول کا استحقاق حاصل ہو گا “-

اس سے کسی ابہام کی گنجائش نہ رہتی – اگر ان حروف کا اعادہ اور اضافہ بھی کیا جاتا ، وہ مروت ،احسان اور مکمل انصاف کے تقاضے بھی پورے کرتا جو قرآنی آیت “ یامر کم بالعدل والاحسان “ یعنی احسان کے ساتھ عدل کرو – اس کیس میں عدل “ قانون کے تحت بر طرفی” اور احسان “ ان فوائد کی ترسیل ہے جو اس سروس کے مکمل ہونے کی صورت میں لیے جا سکتے ہیں-“ اگر ان حروف کا اعادہ اور اضافہ بھی کیا جاتا ، وہ مروت ،احسان اور مکمل انصاف کے تقاضے بھی پورے کرتا – ہمارے آئین کی دفعہ 42 A ، سپریم کورٹ رولز اور ضابطہ دیوانی کے تحت خصوصی اختیارات بھی اسی کے غماز ہیں –

میری اطلاع کے مطابق تادم تحریر ان کی پنشن وغیرہ کے معاملہ پر اس وقت تک رجسٹرار عدالت العالیہ ، سیکریٹریٹ قانون یا محکمہ حسابات میں اس ابہام کی وجہ کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے کہ ان کی بر طرفی کے حکم میں سروس کے دوران کیے گئے اقدامات کو تحفظ دیا گیا ہے ، لیکن پنشن کا حقدار قرار نہیں دیا گیا ہے ، جبکہ پنشن قواعد میں لفظ REMOVAL واضع طور لکھا گیا ہے ، یہ موصوف کے ساتھ شدید نا انصافی ہے – ججوں کے پنشن قواعد 1997 کا قاعدہ 14 بہت ہی واضح ہے:

14. CONDITIONS OR ADMISSIBILITY OF PENSION.-
A Judge shall, on his retirement, resignation or removal, be paid a pension in accordance with the provisions of this Order ————-“

ہماری عدالتوں نے کئی کئی سال قبل ملازمت سے بر طرف کیے گئے ملازمین کو بغیر کوئی سرکاری ڈیوٹی انجام دینے کے پوری تنخواہ اور مراعات کے ساتھ بحال کیے جانے کے اصول قائم کیے ہیں – یہ فی الواقع اصول Defacto Doctrine کی تو سیع ہے – کچھ فیصلوں میں اس اصول کی مزید تو سیع اس طرح کی گئی کہ سروس سے برطرفی کے دوران اگر کوئی دیگر منافع بخش کام سے آمدن حاصل کی گئی ہے وہ قابل ادائیگی واجبات سے وضع کی جائے گی –

کتنے اچھے تھے دن ، میرے بچپن کے دن

مجھے اس کا ادراک ہے کہ فیصلہ میں ریٹائرمنٹ کی مراعات کا حوالہ دیے بغیر بھی ، ججز کے پنشن کے قواعد کے تحت ہر وہ جج جو جس نے پانچ سال کی سروس مکمل کرلی ہو ، وہ ریٹائرمنٹ، استعفا یا بر طرفی کی صورت میں قواعد کے تحت پنشن اور دیگر مراعات حاصل کرنے کا حق دار ہوتا ہے – اسی لئے بد دیانتی کے الزام میں بر طرف کیے جانے والے جج کو بھی پنشن کا حق حاصل ہوتا ہے –

میری اطلاع کے مطابق ماضی قریب میں عرف عام میں جن کو PCO ججز کہا جاتا ہے ، کو بھی بر طرفی کے بعد پنشن وغیرہ دی جا رہی ہے ، جو عدالتی حکم کے تحت ہی بر طرف ہوئے تھے – حالانکہ کئ ججوں کی پنشن حاصل کرنے کی مدت ملازمت بھی پوری نہیں ہوئی تھی –

ہمارے معاشرے ، بالخصوص بیورو کریسی کے لوگ عدالتی فیصلوں پر یہ قیاس کرتے ہیں کہ فیصلے دشمنی کی وجہ سے ہوتے ہیں ، اس لیے قانون کے مطابق عمل کر نے سے “ باس “ کی دشمنی کیوں مول لی جائے – اس کیس کی اہمیت کے پس منظر میں کسی بھی اشکال کو دور کرنے کے لئے پنشن وغیرہ کے الفاظ لکھ دیے جاتے تو اپنے ساتھی ججوں کا قانون کے تحت بر طرف کیے جانے والے ساتھی جج کے لیے خیر سگالی کا بہترین پیغام ہوتا – انگریزی کا ایک بہترین مقولہ ہے:

When you depart , depart like good friends .

انصاف پر بنیاد قرآنی حکم “ یامربالعدل والا حسان “ یعنی احسان کے ساتھ عدل کرو – اس کیس میں عدل “ قانون کے تحت بر طرفی” اور احسان “ ان فوائد کی ترسیل ہے جو اس سروس کے مکمل ہونے کی صورت میں لیے جا سکتے ہیں-“ اگر ان حروف کا اعادہ اور اضافہ بھی کیا جاتا ، وہ مروت ،احسان اور مکمل انصاف کے تقاضے بھی پورے کرتا اور متعلقہ جج کی پوزیشن کا ازالہ بھی ہوجاتا ، جو کونسل ، صدر ریاست اور حکومت کی غلطی کی وجہ سے مجروح ہوئی ہے ، اس میں جج کا کوئی قصور نہیں تھا کیونکہ اس تقرری کا سارا معاملہ دو چیف جسٹس، کونسل، صدر اور حکومت کے درمیان تھا ، نہ جج کی درخواست تھی نہ تقرری جج کی مرضی، رضا مندی یا شمولیت سے ہوئی تھی یا ہوتی ہے – اس کا اس میں کیا قصور جبکہ ہر سطح پر ریاستی مشینری ہی غلط کاری میں شامل تھی اور چیف جسٹس نے مشاورت کے بعد اس کی تقرری سے اتفاق بھی کیا تھا ؟

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گنہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں

مناسب تھا کہ اس سنگین غلطی پر پوری ریاست کے عہدے داروں کے شامل ہونے پر ان کی سرزنش بھی کی جاتی اور چیف جسٹسز کو ہدایت بھی جاری کی جاتی کہ جس شخص کا نام انہوں نے تجویز نہ کیا ہو ، اس کو حلف نہ دیا جائے – اس سرزنش اور ہدایت کے بغیر یہ سلسلہ چلتا رہے گا ، عدلیہ عدم استحکام کا شکار ، ساتھی ججز ایک دوسرے سے خوفزدہ اور دباؤ میں رہیں گے – اس معاملے میں انتظامی سطح پر ذمہ دار اداروں کو سزا وار ٹھہرائے بغیر عدلیہ کی خود مختاری قائم نہیں رہ سکتی – اس کا ادراک کیا جانا چاہیے تھا –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے