سارے دنوں سے اچھا، کتاب کا دن

آپ بھی محسوس کرتے ہوں گے، دنیا میں سال کے ہر روز کوئی نہ کوئی دن منایا جاتا ہے، کبھی بوڑھوں کا دن تو کبھی جوانوں کا، کبھی گانے کا دن اور کبھی ہنسنے ہنسانے کا دن مگر مجھے ان سارے دنوں میں تین دن دل سے پسند ہیں، پہلا ماں کا دن، دوسرا مسکراہٹ کا دن اور آخری مگر قابلِ قدر، کتاب کا دن۔ ماں کا مدرز ڈے تو ایسا ہے کہ جی چاہتا ہے اس روز کے سارے لمحے ماں کے قدموں میں گزریں۔ اس کے بعد آتا ہے مسکراہٹ کا دن۔ مسکراہٹ کا وہ دن تو مجھے ہمیشہ یاد رہے گا جب لندن کی صبح کی چمکتی دھوپ میں، ماں کی پُش چیئر میں بیٹھا ہوا ایک چھوٹا سا بچہ مجھے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ ایسی سچی، کھری، درخشاں مسکراہٹ جس میں نہ کچھ لگی تھی نہ لپٹی۔ انسان ذرا سا بھی دردمند ہو تو واری واری جائے۔

میرا تیسرا پسندیدہ دن کتاب کا عالمی دن ہے جو ابھی کچھ روز پہلے منایا گیا۔ مجھے یاد ہے پچھلے سال کتاب کے دن شمالی افریقہ کے ملک تیونس میں کالج یونیورسٹی کے سارے طالب علم سڑکو ں اور فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر کتابیں پڑھتے رہے۔ وہ عجب منظر تھا جب تاحدِ نگاہ، نوجوان ہی نوجوان بیٹھے کتابوں پر جھکے ہوئے تھے اور دنیا کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ اوراق سے نور بن کر پھوٹنے والا علم کسی دولت اور کسی نعمت سے کم نہیں۔

کتاب کا عالمی دن جس کسی کے ذہن کی اختراع ہے اس کو سلام کہ اس نے شعور کی شمع کی لو ذرا سی اونچی کرکے فضا کو کیسا منوّر کردیا۔ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ پاکستان میں بھی اس روز سارے نوجوان سڑکوں کے آس پاس بنے سبزہ زاروں میں بیٹھ کر کتاب پڑھیں اور مخیر حضرات اور ادارے لڑکوں لڑکیوں میں کتابیں تقسیم کریں، جگہ جگہ کتاب میلے لگائے جائیں اور نادر اور نایاب کتابوں کی نمائشیں سجائی جائیں۔ کتابیں لکھنے، چھاپنے، شائع کرنے اور فروخت کرنے والے افراد اور اداروں کو انعامات دیے جائیں، اعزازات دیے جائیں اور میڈیا کے ہونے کا اس روز خوب خوب فائدہ اٹھایا جائے اور کتب بینی اور کتب سازی کے بارے میں پروگرام پیش کئے جائیں۔ اس کے علاوہ پڑھے لکھے افراد کو مدعو کرکے اُن ہی دنوں دنیا کے بازاروں میں دھوم مچانے والی کتابوں پر خوب خوب گفتگو کی جائے، کیوں نہ دانشور مشہور کتاب The Sapiensانسان کی تاریخ کے د ل چسپ اقتباس پیش کریں یا اسی طرح ہندوستان کے بڑے اسکالر اور سابق فوجی افسر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کی کتاب ’سرکاری مسلمان‘ کو کھنگالا جائے۔ کچھ بات چلے کچھ چھیڑ چھاڑ ہو، ذرا کتاب کی خوبیوں کو اجاگر کیا جائے، کبھی تحفظات کی بات ہو کبھی اختلاف موضوع بنے۔ کیوں نہیں؟ اسی دھج سے مکالمے سنوارے جاتے ہیں۔

کتاب کا اور ہمارے بزرگوں کا صدیوں کا ساتھ رہا ہے۔ جب چھاپہ خانہ نہیں تھا، کتنے ہی لوگ گھروں میں بیٹھ کر قلمی کتابوں کی نقلیں تیار کرتے تھے اور بازاروں میں فروخت کرتے تھے۔ مجھے ایک کتاب یاد ہے ’حال جنگ کابل‘ جو کسی نے افغانستان کے محاذ سے واپس آکر لکھی تھی۔ اس کی نقل بازار میں بکنے آئی ہو گی۔ اس پر قیمت آٹھ آنہ درج تھی لیکن کسی یورپی خاتون نے خریدی تھی اور شاید خوش حال گاہک کو دیکھ کر وہ قیمت مٹا کر بارہ آنے بنادی گئی تھی۔

اس زمانے میں کتب سازی کی دنیا میں دھوکہ اور فریب بھی ہوتا ہوگا۔ میں نے کتنی ہی قدیم کتابیں دیکھیں جن پر لکھا ہوتا تھا’’جس کتاب پر مصنف کے دستخط نہ ہوں اسے جعلی تصور کیا جائے‘‘۔ اس زمانے میں بھی ہر کتاب کے ایک ایک ہزار نسخے چھپا کرتے تھے (آج بھی تعداد اشاعت اتنی ہی ہوتی ہے)۔ اب سوچئے کہ غریب مصنف جس نے پہلے ہی راتوں کو جاگ جاگ کر کتاب لکھی ہوگی، اشاعت کے بعد بیٹھ کر ہزار بار اپنے دستخط کر تا رہا ہوگا۔اور جب چھاپہ خانہ ایجاد ہوکر عام ہوگیا، کتابوں کی دنیا میں جعل سازی جاری رہی۔ اس کی بڑی مثال سر سیداحمد خاں کی لا جواب کتاب ’آثارالصنادید‘ ہے جو سنہ 1847میں شائع ہوئی۔ کچھ عرصے بعد کسی نے کسی فرضی نام سے اس کا چربہ شائع کردیا، اور فرضی نام بھی کسی یورپین کا۔ اس ناشر نے بھی خوب پیسہ کمایا ہوگا۔

ایک او ردل چسپ صورتحال سنئے۔ ہمارے باپ دادا کے زمانے کی بعض کتابوں پر یقین کیجئے، کتابوں کو کھا جانے والے جھینگروں کے بادشاہ کے نام درخواست لکھی ہوتی تھی کہ براہِ کرم اس کتاب کو نہ چاٹیں۔(کتابیں چاٹنے والی مخلوق کے بادشاہ کانام ذہن سے نکل رہا ہے، کچھ کبکیچ جیسا نام تھا۔(خیر نام میں کیا رکھا ہے وار وہ بھی کسی جھینگر کا)۔

آج بھی کتابوں کی دنیا میں جعل سازی بہت عام ہے۔ کتاب بازار میں آتے ہی راتوںرات اس کا چربہ چھپ جاتا ہے اور آدھی قیمت پر دستیاب ہوتا ہے۔ اُس دیوانِ غالب کا قصہ یاد ہوگا جو بظاہرخودغالب کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور کوئی صاحب بھوپال کے کسی کباڑی سے کوڑیوں کے دام خرید کر لائے تھے۔ اس کی بڑی دھوم مچی اور اس کا عکس بڑی شان و شوکت سے شائع ہوا۔ ابھی اس کے خریدار بھاری رقم ادا کر ہی رہے تھے کہ کسی نے اس عکس کا بھی عکس چھاپ کر چوتھائی قیمت پر بیچنا شروع کردیا۔ ابھی معاملہ عدالتوں میں پہنچا ہی تھا کہ ایک بڑا انکشاف ہوا۔ دیوانِ غالب کے جس نسخے کے بارے میں خیال تھا کہ خود مرزا صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے، پتا چلا کہ وہ جعلی تھا اور کسی خوش نویس نے عین غالب کے ہاتھ کی لکھائی کی ہو بہونقل کی تھی۔

ایک جانب یہ دھندے ہو رہے ہیں، دوسری طرف یوں ہے کہ کسی کتاب کا مقبول ہونا غضب ہے۔ ناشر اس کے ایڈیشن پر ایڈیشن چھاپ کر بیچتا رہتا ہے اور مصنف کویہی بتاتا ہے کہ یہ پہلا ایڈیشن فروخت ہورہا ہے۔ مصنف کو رائلٹی نہیں ملتی اور پبلشر کی زبان پر ایک ہی رٹ لگی رہتی ہے’ لوگ کتاب نہیں پڑھتے‘۔

اس سارے قصے میں کون مظلوم ہے، کیا مصنف؟ پبلشر؟ یا قاری؟ جی نہیں۔ وہ ہے ہماری دکھیا کتاب۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے