کرونا وائرس ‘ پولن الرجی اور ہماری ڈھیٹ ہڈی

اس ہفتے کے آغاز میں ڈونلڈٹرمپ کے دورئہ بھارت کو نظر انداز کرتے ہوئے میں نے اس کالم کے ذریعے ایران میں کورونا وائرس سے متعلق آئی خبروں پر توجہ دلانے کی کوشش کی۔ یاد دلانا ضروری سمجھا کہ ایرانی سرحد سے ملحق ہمارے بلوچستان کے چند اضلاع کی انتظامیہ کا اس ضمن میں چوکس ہوجانا کافی نہیں ہے۔پاکستان کے تقریباََ ہر بڑے شہر سے روزانہ کی تعداد میں سینکڑوں افراد زیارتوں کے لئے ایران جاتے ہیں۔وہاں سے عراق اور شام پہنچنے کے بعد ان ہی ممالک سے ہوتے ہوئے وطن لوٹتے ہیں۔ایران میں اگر کورونا وائرس پھیلا تو پاکستان اس سے محفوظ نہیں رہ پائے گا۔

مذکورہ کالم کا مقصد سراسیمگی پھیلانا نہیں تھا۔حکومت سے فقط التجا کرنا تھی کہ وہ ایران کے ساتھ سفارتی روابط کو متحرک کرتے ہوئے ایسے بندوبست کی تیاری کرے جس کی بدولت ایران میں کورونا وائرس سے متعلق ٹھوس Dataاکٹھا ہوسکے۔دونوں ممالک اس کی زد میں لوگوں کی فوری شناخت کا بندوبست کریں۔قرنطینہ میں ان کی نگہبانی کے ذریعے حاصل شدہ معلومات کا ہنگامی بنیادوں پر جائزہ لیتے ہوئے حفاظتی تدابیر کا ایک Packageتیار ہو۔جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے انہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی آگہی کے لئے استعمال کیا جائے۔

اپنی دانست میں مذکورہ کالم لکھ کر ’’جو میرا فرض تھا میں نے پورا کیا‘‘۔ ہمارے مقبول عام میڈیا میں لیکن کورونا وائرس کوکماحقہ اہمیت نہ مل پائی۔ ٹرمپ کی بھارت میں ہوئی تقریر اور پریس کانفرنس کا ذکر حاوی رہا۔اس کے تناظر میں جی کو خوش کرنے کے لئے Spinیہ پھیلائی گئی کہ ہمارے وزیر اعظم کی کرشماتی کشش سے مرعوب ہوا امریکی صدر احمد آباد اور دلی میں بھارتی وزیر اعظم کی توقع کے مطابق پاکستان کے خلاف بدکلامی سے بازرہا۔پاکستان کی ’’تعریف‘‘ نے بلکہ اس کے میزبانوں کو بوکھلادیا۔

ٹرمپ کے دورئہ بھارت کے علاوہ توجہ کا مرکز یہ خبر رہی کہ پنجاب حکومت نے نواز شریف صاحب کو ’’مریض‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اپنے قیام لندن کے دوران وہ ’’پراسرار‘‘ ملاقاتیں کررہے ہیں ۔کسی ہسپتال میں ایک دن کے لئے بھی داخل نہیں ہوئے۔ان کی مصروفیات بلکہ پاکستان کے خلاف کسی ’’لندن پلان‘‘ کا عندیہ دے رہی ہیں۔پنجاب کے ایک بہت ہی متحرک اور بلندآہنگ وزیر جناب فیاض الحسن چوہان صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں بالآخر یہ دعویٰ بھی کردیا کہ مفلر میں منہ چھپاکر ان سے حال ہی ملاقات کرنے والا شخص بھارت کی بدنام زمانہ Rawکا ایک بہت ہی سینئر افسر وکرم سود تھا۔

سوشل میڈیا کو یہ کہانی بہت پسند آئی۔یوٹیوب کے ذریعے شریف خاندان کے مبینہ طورپر ’’رچائے ڈراموں‘‘ کو بے نقاب کرنے والے حق گو صحافی عمران حکومت پر دبائو بڑھانا شروع ہوگئے۔ ’’بہت ہوگئی‘‘ والے پیغام کے ساتھ حکومت کو یاد دلایا گیا کہ قانونی اعتبا ر سے ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ یعنی نواز شریف اب ’’بھگوڑا‘‘ بن چکے ہیں۔انہیں انٹرپول وغیرہ کے ذریعے وطن واپس لانے کا بندوبست کیا جائے۔یہ کالم لکھنے تک نواز شریف کی وطن واپسی کے امکانات تو روشن نظر نہیں آئے۔بدھ کے دن مگر پاکستان میں دو افراد کے ذریعے کورونا وائرس آجانے کی تصدیق ہوگئی۔میڈیا اس وائرس کی آمد کو ’’اچانک‘‘ ثابت کرنے میں مصروف ہوگیا۔حکومت کی جانب سے ’’گھبرانے کی ضرورت نہیں‘‘ والے پیغامات شروع ہوگئے۔فکر مندی کے ساتھ مگر اس ہفتے کا آخری کالم میں کورونا وائرس کی نذر کرنے کو مجبور ہوگیا ہوں۔

کورونا کی نشان دہی چین کے شہرووہان میں ہوئی تھی۔ابتداء میں یہ فرض کرلیا گیا کہ ’’مخصوص‘‘ ثقافتی وجوہات کی بناء پر یہ وائرس چین تک ہی محدود رہے گا۔ایسی ’’وبائ‘‘ کی صورت اختیار نہیں کر پائے گا جو ’’عالمی‘‘ پریشانی کا باعث ہو۔ وبائوں کے پھیلائو سے متعلق علم کے بارے میں قطعی نابلد ہوتے ہوئے بھی اگرچہ مجھے یہ خدشہ لاحق رہا کہ کورونا وائرس کا چین تک محدود رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی والا چین عالمی معیشت اور تجارت کا ان دنوں کلیدی کردار ہے۔اس ملک کے ہزاروں شہری کاروباری وجوہات کے سبب یا چھٹیاں منانے کے لئے دُنیا کے تقریباََ ہر ملک میں موجودہوتے ہیں۔

ابھی تک جو معلومات اکٹھی ہوئی ہیں ان کے مطابق کورونا وائرس سے ہلاکت یقینی نہیں۔زیادہ تر کیسوں میں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اس مرض کا شکار ہوا شخص قرنطینہ میں کچھ دن گزارنے کے بعد نظر بظاہر ’’شفایاب‘‘ ہوجاتا ہے۔اس کی ’’شفایابی‘‘ مگر اس بات کو یقینی نہیں بناتی کہ وہ اب اس مرض کا Carrierنہیں رہا۔ کورونا وائرس کے جراثیم بیشتر کے اندر موجود رہتے ہیں۔’’شفایاب‘‘ ہوئے شخص سے لہذا یہ مرض دیگر لوگوں کو منتقل ہوسکتا ہے۔

کورونا وائرس پر نگاہ رکھتے ہوئے اس اہم ترین پہلو کو ہمہ وقت ذہن میں رکھنا بھی ضروری ہے۔سراسیمگی ہرگز مقصود نہیں۔اہم ترین بات ٹھوس معلومات کا حصول اور ان کے ذریعے عوام کی مسلسل آگاہی ہے۔ایسی حفاظتی تدابیر کا سادہ ترین الفاظ میں بیان جن کی بدولت اس وائرس کو ’’وبائ‘‘ کی صورت اختیار کرنے سے روکا جاسکتا ہے اس ضمن میں فی الوقت صرف دوباتوں پر زور دیا جارہا ہے۔بارہا ہاتھ دھونے کے علاوہ مشورہ یہ بھی دیا جارہا ہے کہ اپنے منہ کو ہمیشہ ماسک سے ڈھانپ کر سڑک پر نکلیں۔

میری ناقص رائے میں فقط ان دو باتوں پراصرار ہی کافی نہیں۔ ہم بنیادی طورپر مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کے عادی ہیں۔ہماری آبادی کی اکثریت ایک یادو کمروں والے ان مکانوں میں رہتی ہے جہاں ایک کنبہ کم از کم 5افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ ’’نزلہ زکام‘‘ ہمارے ہاں معمول تصور ہوتا ہے۔کورونا وائرس کی ابتدائی علامات بھی ’’نزلہ زکام‘‘ جیسی ہوتی ہیں۔ WHOوغیرہ کی معلومات سے غالباََ اب چند ایسی علامات کی نشان دہی ممکن ہے جو کورونا وائرس کو ہمارے ہاں معمول کا حصہ تصور ہوتے ’’نزلہ زکام‘‘ سے الگ کرکے دکھاسکیں۔

امریکی صدر کو اس کے مشیروں نے بتایا ہے کہ سردیوں کا اختتام کورونا وائرس کے فروغ کو روکنے میں قدرتی طورپر مدد گار ہوگا۔ہمارے ہاں اتفاق یا خوش قسمتی سے موسم بہار کا آغاز ہوچکا ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے کم از کم اسلام آباد میں لیکن سینکڑوں افراد اس موسم کے شرو ع ہوتے ہی پولن الرجی کا شکار ہوجاتے ہیں۔انہیں سانس لینے میں بھی بہت دِقت محسوس ہوتی ہے۔کورونا وائرس کی بنیاد پر پھیلے خوف کے باعث عین ممکن ہے کہ اس برس روایتی پولن الرجی کا شکار ہوئے لوگ بھی مذکورہ وائرس کی زد میں آئے محسوس کریں۔حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ پولن الرجی کی وجہ سے نازل ہوئے ’’نزلہ زکام‘‘ اور سانس لینے میں دِقت کو کورونا وائرس سے واضح انداز میں جدا دکھانے والی علامات کی مناسب تشہیر کرے۔اس بات کی مزید تصدیق بھی ضروری ہے کہ ہمارا موسم گرما کورونا وائرس کو پھیلنے نہیں دے گا۔اس دعویٰ کی سائنسی بنیادوں پر تصدیق ہوجائے تو وسیع پیمانے پر اطمینان کی کیفیت اجاگر کرنے میں آسانی ہوگی۔اگرچہ اس امر پر غور کرتے ہوئے ذہن میں یہ حقیقت بھی رکھنا پڑتی ہے کہ گرمیوں کے موسم میں ہمارے ہاں ڈینگی کا مرض بھی مچھروں کی بدولت پھیلتا ہے اور اسی موسم میں ہیضے کے جراثیم بھی توانا تر ہوجاتے ہیں۔

وبائوں پر نگاہ رکھنے والے ایک صاحب علم بزرگ سے بدھ کی رات میری تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بیشتر برس عالمی ادارئہ صحت کے لئے افریقہ کے کئی ممالک میں وبائوں کے تدارک والے بندوبست کے قیام میں گزارے ہیں۔مجھ سے گفتگو کرنے والے بزرگ کو یقین تھا کہ ہمارے لوگوں میں وبائوں کی مزاحمت کرنے والا Immune Systemکافی توانا ہے۔سادہ لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ ہماری ’’ہڈی‘‘ کافی ڈھیٹ ہے۔ بنیادی طورپر ایک امید پرست ہوتے ہوئے مجھے صاحب علم بزرگ سے گفتگو کے بعد بہت اطمینان محسوس ہوا۔اس کے باوجود یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ کورونا وائرس کے بارے میں معلومات کے حصول اور حفاظتی تدابیر پر توجہ مرکوز رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے