فلسفۂ اخلاق

اخلاق کی ضرورت، اہمیت اور افادیت ہر زمان اور ہر مکان میں مسلَّم رہی ہے،انسان کی صحیح انسانیت کا ادراک بھی اُس کے اخلاق ہی سے ممکن ہے،اسی لئے تمام ادیان اور مہذب معاشروں میں حُسنِ اخلاق پر زور دیا گیا ہے،یوں ہمیشہ کے لئے انسانی سوسائٹی میں اخلاق کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے،انبیأ،اولیأ،حکمأ،مصلحین،مفکرین اور انسانی حقوق کے عَلمبرداروں نے اپنے کردار اور گفتار سے اخلاقِ کریمانہ کی دعوت دی ہے،بالخصوص آپﷺ کو اللہ تعالی نے خُلُقِ عظیم کی سند عطا فرمائی ہے،جب انسان یا کوئی قوم ومعاشرہ اخلاقی قدروں سے عاری ہوجاتاہے،تو اس کا بنیادی وجود ہی خطرے میں پڑجاتا ہے،

احمد شوقی کہتاہے:
وإنِّما الأُمَمُ الأخلاقُ ما بَقِيَتْ
فَإنْ هُمُو ذَهَبَتْ أَخلاقُهُمْ ؛ ذَهَبُوا

قومیں تو اخلاقیات کا نام ہیں اپنی بقأ میں،جب اُن میں اخلاقی زوال آجاتاہے تو وہ بھی ختم ہوجاتی ہیں۔
اخلاق ایک مستقل اور منفرد موضوع ہے،یہ ایک فلسفہ ہے،اسے بطورِ فلسفہ تعلیم گاہوں،دانش گاہوں ،مدارس ومکاتب اور تمام تربیتی اداروں میں ایک علیٰحدہ مضمون کے طور پر اپنانے کی ضرورت ہے،میڈیا اور عسکری اداروں میں اہمیت کے ساتھ اسے اپنانے کی زیادہ ضرورت اس لئے ہے کہ یہ ادارے جتنے مفید ہیں اُتنے ہی خطرناک بھی ہیں،ان کا اثر ورسوخ سب سے بڑھ کر ہوتاہے،یہاں اخلاق کی افادیت جتنی ہےاُتنی ہی بد اخلاقی مضر ہے،یہ دونوں ادارے اگر اخلاقیات کو مد نظر نہ رکھیں تو صرف انسانی معاشرہ اور تہذیب ہی نہیں، اپنی بد اخلاقی کے زہریلے اثرات سے پوری انسانیت ہی کو داؤ پر لگادیں گے۔

اخلاقی قدروں کی ضرورت ماضی میں بہت تھی، اس سے انکار نہیں، مگر آج کے زمانے میں اس کی ضرورت ماضی سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے،ماضی میں محدودیت تھی، حدیں تھیں،چند کلو میٹر کے فاصلے پر آپ کسی کے ضرر سے اپنے کو بڑی آسانی سے بچاسکتے تھے،لیکن لا محدودیت کے اس دور میں آپ کے لئے اب یہ ممکن نہیں رہا،موبائل اور انٹر نیٹ ٹیکنالوجی نے دنیا کو کچھ زیادہ ہی مختصر کردیا ہے،پرنٹ میڈیا ہویا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا،اس کی وجہ سےمشرق ومغرب پَل پَل میں ایک دوسرے کے اثرات وخطرات سے متأثر ہوجاتے ہیں،دنیا کے کسی بھی کونے کا کوئی بھی واقعہ کہیں بھی اپنے اچھے یا برے نتائج کالمحوں میں اثر دکھا سکتا ہے،بعض اوقات میڈیا کے چند الفاظ یا تصویری جھلکیاں جلتی پر تیل کا کام کر جاتے ہیں۔ فرانس میں پیرس کے حالیہ واقعے کو لے لیجئے،اس کے مہلک اثرات شام میں بے گناہوں پر اندھا دھند بمباری کی صورت میں نظر آرہے ہیں،کتنی جانوں اور املاک کی تباہی ہوگی،شاید اس کا صحیح اندازہ لگانا اس وقت مشکل ہے،البتہ امریکہ میں ٹریڈ ٹاور کی جس تباہی میں دو سے چار ہزار افراد لقمۂ اجل بنے تھے،اس کے انتقام میں لاکھوں افغانوں کی جانیں اور املاک برباد ہوئے،جبکہ یہ سلسلہ تا حال جاری ہے،ضرورت سے زیادہ انتقام کیا ہے، بد اخلاقی ہی تو ہے، یہی بد اخلاقی اب شام میں عروج پر ہے۔

نفاق بھی بداخلاقی کے زمرے میں آتاہے،اب یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے،کہ حکومتیں دیگر ممالک کے معاملات میں دخیل ہوجاتی ہیں،پھر اگر وہاں کوئی اپنی خود مختاری کے لئے کھڑا ہو جاتاہے، تو اسے دہشتگرد ٹہرایا جاتا ہے،بد قسمتی سے عالم اسلام کے ساتھ یہ بد اخلاقی صلیبی جنگوں اور اسپین میں نسلی تطہیر کے ادوار سے چلی آرہی ہے،فلسطین میں خونِ عرب ومسلم امریکی ویٹوز ہی کی وجہ سے بہایا جارہاہے،عراق میں جھوٹ کی بنیاد پر ایسی تباہی ہوئی کہ الامان الحفیظ،اسی تباہی کی وجہ سے آج تک وہاں امن نام کی چیز عنقا ہے،افغانستان میں روس نے مظالم کے ایسے پہاڑ توڑے کہ تاحال وہاں کے زخموں میں مندمل ہونے کے کوئی نشانات نہیں ہیں،شام میں ایران اور روس بضد ہیں کہ شامیوں کو خود اپنے مسائل حل کرنے چاہیئے،اقوامِ متحدہ کی تمام کوششوں کو ان دو ملکوں نے پیروں تلے روندا اور پھررعونت دیکھیئےکہ بذاتِ خود باہر ہی سےان کی افواج وہاں آتش وآہن کا بے رحمانہ کھیلواڑ کھیل رہی ہیں کہ بشار حکومت گرنے نہ پائے،تو یہ دوغلی پالیسی بداخلاقی نہیں تو اسے اور کیا نام دیاجانا ممکن ہے۔

اقوامِ متحدہ اخلاقیات کے پیمانے طے کریں اور رکن ممالک پر لاگو کریں،یہ کیا بات ہوئی کہ آپ نے ایک ہنستے بستے ملک کو تخت وتاراج کردیا اور اب صرف اس پر اکتفا کیا گیا کہ بے بنیادمعلومات تھیں، غلطی ہوئی، ہمیں افسوس ہے،اس بے حساب تباہی کا معاوضہ کون ادا کرے گا،آیندہ ایسی غلطی نہ کرنے کے لئے تو آپ نے جاپان وجرمنی کو غیر مسلح کردیا تھا،انٹر نیشنل سیکورٹی کونسل کے اراکین اپنے ملکی اغراض ومفادات کے وقت ہراجلاس میں ویٹو کا لٹھ اٹھا ئے ہوئے نظرآتے ہیں،امریکہ وبرطانیہ سے بھی کوئی پوچھ گچھ کرسکتا ہے،کہ یہ غلطی نہیں بداخلاقی تھی،حساب دو۔۔۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کی دنیا بڑے ممالک کی بد اخلاقیوں کی زد میں ہے، یہ ممالک خود دہشت گرد بن چکے ہیں،ان کی دہشت گردیوں اوربد اخلاقیوں کا اگر دیرپا اور معقول حل تلاش نہ کیاگیا،تو معلوم ہےکیا ہوگا،یہ خود بھی ڈوبیں گے اور اپنے ساتھ ہم سب کو ڈوبو دیں گے۔ یہ ممالک دہشت گردی کے اسباب کے خالق ہیں،جب تک یہ اسباب پیدا ہوتے رہیں گے، القواعد اور الدواعش کی تخلیق کوروکنا خیال است ومحال است وجنون۔

ہم یہاں یہ بھی عرض کیئے دیتے ہیں، کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی بنیاد بھی بد اخلاقی تھی،چنگیزخان اور ہٹلر بھی جنگی اخلاقیات سے نا بلد تھے،لیکن تباہیاں محدود تھیں،پھر ان تباہیوں کے لئے وقت نکالنااوراسباب مہیأ کرنا آسان کام نہیں تھا، مگر آج ایک کلک پر سے مذکورہ اشخاص وجنگوں کے مقابلے میں سَو گنا زیادہ تباہیاں اور بربادیاں ممکن ہیں،اگر انسانی اخلاق واقدار سے عاری کوئی شخص یہ تباہیاں کرنا چاہیں،تو نہ دیر لگے گی،نہ لاؤ ولشکر کی ضرورت پڑی گی، لہذا
اسی دنیا میں جنات ونعیم میں بسنے والو،فلسفۂ اخلاق کی آج شدید ترین ضرورت ہے۔
شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات!

(‘‘اخلاق اور عالمی قانونِ جنگ’’ کے متعلق منعقدہ سیمینار 17,11,15پی سی ہوٹل کراچی میں پڑھا گیا)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے