سانحہ لال مسجد ․․اصل گیم کیا تھی؟

جامعہ فریدیہ ،لال مسجد اور بالخصوص جامعہ حفصہ نے بہت تھوڑی مدت میں جو عظیم الشان خدمات انجام دیں ،جامعہ کے بانی مولانا عبد اﷲ شہید اور ان کے فرزند کے اخلاص اور انتھک جدوجہد کا ایک نمونہ ہیں، ملک بھربالخصوص اسلام آباد جیسے آسائش پسند ماحول میں انہوں نے بڑی قربانیوں کے ساتھ دینی تعلیم وتربیت، مثالی نظم وضبط اور اخلاص وللّھیت کا ماحول بنایا ،اسلام آباد کے رہنے والوں کو قرآن وسنت کی مبارک تعلیمات کے قریب کیا، ان کو بامقصد زندگی کی تعلیم دی ،لوگوں کو اسلام کا بھولا ہوا سبق پڑھاکر ان میں دینی حمیت ، دوسروں کے لیے درد مند ہونااور اسلام کی سربلندی کے لیے جینا مرنا سکھایا ۔

۸ اکتوبر ۰۰۵ ۲ کو اسلام آباد سمیت ملک کے شمالی حصہ پر جس قیامت خیز زلزلے کی لہر آئی تھی، یہی مولانا عبد العزیز اور جامعہ فریدیہ کے معصوم طلبہ تھے، جو سب سے پہلے اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے کشمیر کے پہاڑوں اورہزارہ کے دیہاتوں میں پہنچے، جس وقت فوج سمیت کسی تنظیم اور این جی اوز نے حرکت بھی نہیں کی تھی ،انہوں نے امدادی کیمپ لگائے اور خیمہ بستیاں قائم کیں،یتیم بچوں اور بچیوں کو غیر ملکی خونخوار، ایمان وغیرت کے مہذب ڈاکوؤں کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی بجائے والدین جیسا سہارا دیا، ان کی عزت وناموس کا خیال رکھا، نا صرف یہ کہ باعزت چادر،محفوظ چاردیواری فراہم کی ؛ بلکہ ان کی تعلیم وتربیت کا بھی معقول انتظام کیا، یہی بہی خواہی ،ہمدردی اور محبت مولانا عبد العزیز اور غازی عبد الرشید شہید کے حصہ میں آئی جو گولیوں کی بوچھاڑ اور توپوں کی گونج گرج سے ذرا بھی متاثر نہ ہوئی ، دنیا نے استاد اور شاگرد کے بے مثال تعلق ومحبت کا مظاہرہ دیکھا، اِس مقدس رشتے کے پاس ولحاظ اور احترام کے عجیب وغریب مناظر دیکھے ۔

جامعہ فریدیہ ،لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اوران کا وسیع نیٹ ورک اسلام دشمن عناصر کے لیے ایک بڑا چیلنج بناہوا تھا ، سازش کار دیکھ رہے تھے کہ یہ خالص دینی آواز اسلام آباد کی بند گلیوں اور خاموش کوٹھیوں میں بڑی تیزی کے ساتھ داخل ہورہی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے اسلام آباد کی سڑکوں پر نورانی ،معصوم چہروں والے طلبہ اورحجاب میں ملبوس حیا دار طالبات کی چہل پہل شروع ہوئی ،جو کسی مثبت تبدیلی کا اشارہ دے رہی تھی ،یہ حکمرانوں کو بھی راست نہیں آرہاتھا ؛چنانچہ 17 اکتوبر 1998 ء کو لال مسجد کے صحن میں دن دیہاڑے فائرنگ کرکے مولانا عبد اﷲ کو شہید کیا گیا ،اور اس کے بعد بھی کئی بار اس مدرسے کو بند کرنے کی کوششیں کی گئیں،راقم السطور کی موجودگی میں مختلف بااثر حکومتی شخصیات نے کئی بار مذاکرات کے دوران جامعہ فریدیہ یہاں سے منتقل کرنے کی بات کی ،جنرل احسان الحق ،شوکت عزیز اور اعجاز الحق سمیت کئی لوگوں کی کوشش یہی تھی، جس کے گواہ صدر وناظم اعلی وفاق، مفتی محمد رفیع عثمانی ،مفتی منیب الرحمان وغیرہ حضرات موجود ہیں ،پولیس ایکشن ،چھاپوں اور لال مسجد انتظامیہ کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرنے سمیت تمام اوچھے ہتھکنڈوں میں ناکامی کے بعد یہ نیا راستہ اختیار کیا گیا ؛ تاکہ پوری قوت کے ساتھ اس تحریک کو دبایا جائے،یہ کوئی فوری فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس کے لیے ایوانِ صدر اور سازشیوں میں پہلے سے رابطے تھے ۔

اس واقعے کے حوالے سے ملکی تاریخ میں نہایت پیچیدہ اور نازک حالات کے اندر رہتے ہوئے بھی وفاق کی قیادت بالخصوص صدر وفاق نے جس مثالی عزم و استقلال کا ثبوت دیا اور نہایت سنجیدگی و متانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لال مسجد کی تحریک کے مقاصد کو پر امن طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کی اور بڑے دور رس فیصلے کیے، ان کو سمجھنے کے لیے تمام واقعات کا پس منظر ،ملکی و غیر ملکی پروپیگنڈو ں سے الجھائے ہوئے تلخی کے ماحول کو سمجھنا اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی تہہ تک پہنچنا بہر حال ضروری ہے ۔

3 جولائی2007 سے 10 جولائی تک دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت ’’ اسلام آباد ‘‘ میں تباہی وبربادی کا جو کھیل کھیلا گیا ۔ او ر اسلامی نظریہ حیات کی آواز بلند کرنے والوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا ۔ و ہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہو چکا ۔

اب رہتی دنیا تک آنی والی نسلیں اس خونی منظر نامہ کوتاریخ کے اوراق میں پڑھتی رہے گی ۔ اس عظیم سانحہ کے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہے گی یہ واقعہ کیوں رونما ہوا ؟ اسکے لیے کیا کیا اسباب پیدا کیے گیے ؟ کون کون لوگ تھے جو بہتے معصوم لہو کی بھاری قیمت وصول کر رہے تھے ۔اور غیر ملکی آقاؤں سے دادِ تحسین پارہے تھے ؟ ہر شخص اپنے ذہنی پس منظر کے مطابق اور وقت و زمانے کی رعایتوں اور تاریخی عوامل کے زیر اثر رہ کر اس خونچکاں داستان کو رقم کرے گا ۔ اور اپنے اپنے مطلب کے نتائج برآمد کرنے کی کوشش کرے گا ،یقینا کچھ لوگ ایسے بھی ہونگے جوان تمام واقعات کا پس منظر عینی شاہد کے طور پربیان کرینگے ، واقعات کو صرف واقعہ کے طور پر لکھنے اور واقعی نتائج فراہم کر نے کا دعوی کرینگے ،مگر ہر تاریخی سانحہ کی طرح یہاں بھی صحیح صورت حال بیان کرنے والے کم ہی ہونگے ۔

لال مسجد کے اس تاریخی واقعہ میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا کیا کر دار رہا، وفاق کی قیادت نے کیا کیا خدمات انجام دیں، کیا کوششیں بروئے کار لائی ،وفاق کا موقف کیا تھا اور کیوں تھا ، یہ سب کچھ بھی زیر بحث آئے گا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جامعہ فریدیہ ، جامعہ حفصہ اور لال مسجد کا وفاق المدارس کے ساتھ جو گہرا روحانی ، تاریخی اور تنظیمی تعلق تھا اور سرپرستی کا رشتہ تھا ۔ اس لحاظ سے اس کی قیادت پر ان حالات کی بھاری ذمہ داریاں تھیں، ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے اور حالات سے نبرد آزما ہونے کاایک بڑا بھاری بوجھ قیادت کے کاندھوں پر تھے ،انہوں نے اپنے ذمہ داریوں کو نباہتے ہوئے جو عظیم کردار ادا کیا، ان حالات میں نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جودرست سمت اختیار کی اور صحافتی دنیا کے بازیگروں کے رات دن بدلنے والے آراء اور چلتے پھرتے تجزیوں سے ایک طرف ہو کر دانشمندانہ فیصلے کئے وہ بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔

وفاق کی قیادت کا موقف اور ان کا کردار سمجھنے کی اہلیت وہ آدمی رکھتا ہے جس کو وفاق کا پس منظر معلوم ہو، اس کا دائرہ کار اس کے سامنے رہے، پھر حالات کی سنگینی ، مغربی دنیا کے پروپیگنڈے،ملک وملت اور دینی جامعات ومدارس کو کنٹرول کرنے والی سب سے بڑی تنظیم کے خلاف ان کی سازشوں اور سازشی عناصر پراس کی گہری نظر ہو ۔

بہر کیف وفاق المدارس کا ملک بھر میں اپنا ایک وسیع نیٹ ورک ہے، جس کے ساتھ ہزاروں مکاتب قرآنیہ،مدارس عربیہ اور جامعات منسلک ہیں ،یہ سب ادارے عظیم قومی امانت ہیں، جو بڑی قربانیوں اورانتھک جدوجہد کے بعد وجود میں آئے ہیں، یہ تمام دینی ادارے اپنی اپنی جگہ پر اسلام اور مسلمانوں کی تعلیمی ،تربیتی اور فلاحی خدمات انجام دے رہے ہیں ،ان اداروں کے ساتھ ہزاروں اساتذہ اور استانیوں کا تعلق ہے ،لاکھوں طلبہ وطالبات یہاں زیر تعلیم وتربیت ہیں، لاکھوں یہا ں سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں، وفاق کی تنظیم بجائے خود وہ عظیم ورثہ ہے جو اکابر کی بہترین تعمیری صلاحیتوں ،تعلیمی تجربات اور اتفاق واتحاد کا مظہر ہے ،پھر اس کے زیر اثر مدارس وجامعات کا حلقہ اثر و ارادت اور دائرہ کا بھی صرف پاکستان تک محدود نہیں ؛بلکہ بیرون ملک افریقہ، امریکہ، یورپ ،آسٹریلیا،روس اور تمام ایشیائی ممالک اس کے اندر شامل ہیں،وفاق کی سند اور وفاق کے بزرگوں کے اعتماد کے بل بوتے پر ہی دنیا بھر میں وفاق سے وابستگان اور فضلاء مختلف فورمز پر اسلام اور مسلمانوں کی خدمات انجام دے رہے ہیں، جو اسلامی نظام حیات ہی کاحصہ ہیں، آج جو کچھ دینی بہار نظر آرہی ہے وہ انہی کے کوششوں کا ثمرہ ہے ،مدارس ومساجد کے ذریعے جو دینی خدمات جس طور وطریقہ سے بھی انجام دیے جارہے ہیں ان کو اسلامی نظام معاشرت سے الگ یا متضاد نہیں خیال کیا جاسکتا۔

مغربی سازش کاروں نے پوری دنیاکی میڈیا کو لال مسجد کی طرف متوجہ کیا تھا، پل پل کی خبریں ساری دنیا میں پھیلائی جارہی تھیں ،کٹھ پتلی انتظامیہ کو سمجھایا گیا تھاکہ ایک لائبریری پر نیم قبضہ کرنے والی یہ تحریک بڑی ہی خطرناک ہے ،اس کو پوری قوت سے دبایا جائے، تاکہ حالات مزید دگرگوں ہو جائے ،اور دینی مدارس کو مشتعل کرکے میدان میں دھکیل کر جدید اسلحوں سے لیس فوجوں سے انہیں ٹکرایا جائے ،یہ صورت حال وفاق کی قیادت کے لیے بہت بڑا چیلنج اوران کی سمجھ داری کے امتحان کے طور پر سامنے آئی، قیادت سالہا سال کی محنت ومشقت کے ثمرات ونتائج کو بیک لمحہ ختم نہیں کر سکتی تھی، جبکہ سازشی ایجنڈا یہی تھا کہ دینی قوتوں کے عوام پر روحانی تسلط کو چیلنج کیا جائے،اور ان کو پاش پاش کرنے کے لیے ماحول اور اسباب فراہم کئے جائیں ۔

صدر وفاق نے شروع سے اخیر تک پر امن طور پر اس مسلہ کے حل کے لئے کوششیں کیں ، بار بار اسلام آباد کا سفر کیا، لال مسجد کی انتظامیہ سے مشاورت کی، حکومت سے مذاکرات کئے، سب طرف سے مایوسی کے بعد بھی پر امن راستہ تلاش کرنے کے لیے دن رات ایک کرکے آخری کوشش کرتے رہے، لیکن پرویز مشرف اور حکومتی ٹولہ معصوم بچیوں کو زندہ در گور کرنے پر بضد تھے ۔

افسوسناک واقعہ کے رونماہونے کے بعد بھی وفاق کی قیادت نے قانونی چارہ جوئی کے لیے مشاورت جاری رکھی، سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت کا سہارا لیا ،جامعہ حفصہ کے انہدام پر نوٹس دلوایا، صدر وفاق ہونے کی حیثیت سے جابر حکمران کے اس ظالما نہ اقدام کو عدالت کے اندر چیلنج کیا ۔لال مسجد کی تحریک،ان کے منشور کی حفاظت ،اساتذہ اور طلبہ کی رہائی، جامعہ فریدیہ اور لال مسجد پر سے پابندیاں ہٹانے ،جامعہ حفصہ کی تعمیر ،وفاقی درجات میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کے سالانہ امتحان کے لیے سہولت فراہم کرنے سمیت دوسرے اقدامات کئے۔

وفاق کی قیادت کوشہید کردہ مساجد کی دوبارہ تعمیر،دیگر مساجد ومدارس کے خلاف گھناؤنی کاروائی کا نوٹس واپس لینے اور ان کی قانونی حیثیت کا باضابطہ اعلان کرنے سمیت تمام مطالبات سے مکمل اتفاق تھا ؛اور وہ اس بات پر اچھی طرح یقین رکھتی تھی کہ یہ مطالبات نہ صرف تمام اہل وطن کے جذبات کا حصہ ہیں، طریقہ کا ر اس اندازسے ہوکہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے ماحول مناسب بنایا جائے ؛تاکہ خاطر خواہ نتائج کی امید رکھی جاسکے ،کیونکہ اخلاص اور للھیت کی بنیاد پر جب بھی کوئی ایسی تحریک اٹھائی گئی ،جس کے اہداف بھی درست بتائے گئے ،مگر تحریک پر کسی نظر نہ آنی والی قوت کا اثرجب بھی غالب رہا اس کے نتائج تحریک کے عوامی منظر نامہ پر ابھر نے والے قائدین کی خواہشات کے مطابق نہیں نکلے بلکہ سبوتاژ کئے گئے، اور یوں مخلص اورجانباز لوگوں کی قربانیوں کو پس پردہ اغراض ومقاصد حاصل کرنے کے لیے آسان ذریعہ بنایا گیا۔عالمی منظر نامہ پر گہری نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ پچھلی کئی دہائیوں سے دینی قوتوں اور علمائے کرام کی کوششوں ،ان کی تحریکوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جارہاہے۔ وفاق کی قیادت کے سامنے یہ سارے خدشات بھی گردش کرتے رہے ،اور وہ چاہتی تھی کہ فیصلے وہ کئے جائیں جس کے نتائج کے لیے بھی نہ صرف پاکستان کی حد تک وہ تیار ہو ، بلکہ پوری دنیا میں جو بھی رد عمل سامنے آئے اس سے مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچے، اور دنیا بھر میں چلنے والے دینی سلسلے اس کی وجہ سے متاثر نہ ہو ں؛کیونکہ وفاق اور اس کے فضلاء ،مدارس ،جامعات ، ان کے معاونین اور تربیت یافتہ داعیوں کا دائرہ کار ان سب ممالک کو شامل تھا جو اس واقعہ اور تحریک پر پہلے دن سے گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور ہر اقدام کو کسی دوسرے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کررہے تھے، اورمستقبل کے حوالے سے اس بات کا اندازہ لگانا چاہتے تھے کہ ایک دینی مدرسہ یا مسجد کیا کچھ کرسکتی ہے۔

ہم بحیثیت ایک دوست کے اپنے ساتھیوں سے گذارش کرینگے ،کہ قربانی دینے سے قبل کچھ اپنے پس وپیش کے نازک حالات ، مشورہ دینے والے ساتھیوں اور چاروں طرف سے آنی والی تحسین وتنقید کی آوازوں کا نہایت غور سے جائزہ لیں ، تاکہ المیوں سے بچاجاسکے ، اور نتائج ۹۹ فیصد بھی نہیں سو فیصد ہو ں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے