اپنی ہم زاد سے ایک مکالمہ

اچھی لڑکی
آنسو پونچھ لے
مجھے خبر ہے
برف کے لہجے اور پہچان سے خالی آنکھیں
تیرا دکھ ہیں
(ان لہجوں اور ان آنکھوں نے مجھ کو بھی ویران رکھاہے)
پر تیرے اشکوں کی حدت
اس برفاب کے پگھلانے کو ناکافی ہے
جھوٹی ریتوں اور رواجوں کے ڈھانے کو ناکافی ہے
اور رہے پسرانِ آدم!
سو ان کو تو پورا حق ہے
نام و نسب کی بنیادوں پر
کبھی محبت کے وعدوں پر
اور کبھی دو وقت کی روٹی
اور اک چھت دینے کے بدلے
تجھ سے تیرا سودا کر لیں
اپنی روح کے خالی پن کو
تیری روشنیوں سے بھر لیں
ان کو حق ہے
یہ تیری, میری مٹی کو
اپنی انا کے چاک پہ رکھیں
اور جو چاہیں صورت دے دیں
جب اس سے بھی دل بھر جائے
دوبارہ مٹی کو گوندھیں
ایک نئے قالب میں ڈھالیں
پھر سے اپنا دل بہلا لیں
اور وہ چاہے فرخ زاد ہو
یا پروین ہو یا میں اور تُو
جس نے بھی اس چاک پہ رکھے جانے سے انکار کیا ہے
اپنی ذات کا
اپنی رضاؤں کا کھل کر اظہار کیا ہے
اس کے بخت میں سنگ ملامت، چادر تہمت
اور لہجوں کی برف ہی آئی
اچھی لڑکی
جانتی ہوں یہ دکھ گہرا ہے
پر اب فیصلہ یہ ٹھہرا ہے
تیری آنکھوں کے یہ تال بھی بھرے رہیں گے
اورسفر بھی کرنا ہوگا
ابھی تو سات جنم تک تجھ کو
جینا ہوگا
مرنا ہوگا
پہلی ساعتِ آگاہی سے
سانس کے پُل کو جوڑنے والے آخری پَل تک
تیرے واسطے دشت بقا میں
لحظہ، لحظہ
جرم وفا کی تعزیریں ہیں
یہی ہماری تقدیریں ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے