معروف دانشور اور کئی ملی نغموں کے خالق جمیل الدین عالی انتقال کر گئے ۔

مرزا جمیل الدین احمد نام اور عالی تخلص ہے۔یکم جنوری1920 ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن لوہارو ہے۔تقسیم ہند کے بعد آپ کراچی چلے آئے اور پاکستان گورنمنٹ کے ایک مرکزی دفتر میں ملازم ہوگئے۔۱۹۵۱ پاکستان رائٹرز گلڈ قائم کرنے میں آپ کا بڑا ہاتھ ہے۔ان کا پہلا تخلص مائل تھا۔ غزل کے علاوہ انھوں نے دوہے اور گیت بھی لکھے ہیں۔ معتمد اعزازی انجمن ترقی اردو پاکستان ہیں۔ عالی صاحب کئی ایوارڈ سے نوازے گئے۔ صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی(شعبہ ادب)۱۹۸۹ء اور اکادمی ادبیات پاکستان کا ’’کمال فن ایوارڈ‘‘۲۰۰۶ء میں ملا۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں : ’غزلیں ، دوہے،گیت‘، ’لاحاصل‘، ’جیوے جیوے پاکستان‘(قومی نغمے)، ’دنیا میرے آگے‘، ’تماشا مرے آگے‘،(سفرنامے)، ’نقار خانے میں‘(کالموں کا مجموعہ)، ’اے مرے دشت سخن‘، ’اک گوشۂ بساط‘(شعری مجموعے)، ’حرفے چند‘ (کتابوں پر دیپاچے، تین جلدیں)، ’انسان ‘(طویل نظم)۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،

۔ جیوے جیوے پاکستان ، سوہنی دھرتی اللہ رکھے جیسے شاہکار نغمات ان کے شیرین دہن اور فکر سے تخلیق ہوئے۔جمیل الدین عالی روزنامہ جنگ میں ایک عرصے سے کالم نگار تھے ۔

1940ء میں اینگلو عربک کالج دریا گنج دہلی سےمیٹرک کا امتحان پاس کیا۔

1945ء میں معاشیات ، تاریخ اور فارسی میں بی اے کیا۔

1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور پاکستان ٹیکسیشن سروس کے لیے نامزد ہوئے۔

1971ء میں جامعہ کراچی سے ایف ای ایل 1976ء میں ایل ایل بی سیکنڈ ڈویژن میںپاس کرکے ملازمت کا آغاز کیا۔

1948ءمیں حکومت پاکستان وزارت تجارت میں بطور اسسٹنٹ رہے۔

1951ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد پاکستان ٹیکسیشن سروس ملی اور انکم ٹیکس افسر مقرر ہوئے۔

1963ء میں وزارت تعلیم میں کاپی رائٹ رجسٹرار مقرر ہوئے۔

اس دوران میں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو میں فیلو منتخب ہوئے۔

اس کے بعد دوبارہ وزارت تعلیم میں بھیج دیا گیا۔ لیکن فوراًگورنمنٹ نے عالی صاحب کو ڈیپوٹیشن پر نیشنل پریس ٹرسٹ بھیج دیا جہاں پر انہوں نے سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔

1967ء میں نیشنل بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور سینٹر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے وہاں سے ترقی پاکر پاکستان بینکنگ کونسل میںپلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ایڈوائزر مقرر ہوئے۔

جمیل الدین عالی کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کو بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

ان کو 1989ء میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی بھی ملا۔

عالی جس طرح کئی سطحوں پرزندگی گزارتے ہیں ویسے ہی ان کی تخلیقی اظہار کئی سطحوں پرہوتا رہتا ہے۔ تام انہوں نے دوہا نگاری میں کچھ ایسا راگ چھیڑ دیا ہے یا اردو سائکی کے کسی ایسے تار کو چھو دیا ہے کہ دوہا ان سے اوروہ دوہے سکے منسوب ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے دوہے کی جو بازیافت کی ہے اور اسے بطور صنف شعر کے اردو میں جواستحکام بخشا ہے وہ خاص ان کی دین ہو کر رہ گیا ہے۔ عالی اگر اور کچھ نہ بھی کرتے تو بھی یہ ان کی مغفرت کے لیے کافی تھا کیونکہ یہ ان کی مغفرت کے لیے کافی تھا۔ کیونکہ شعر گوئی میں کمال توفیق کی بات سہی ، لیکن یہ کہیں زیادہ
توفیق کی بات ہے کہ تاریخ کا کوئی موڑ ، کوئی رخ ، کوئی نئی جہت ، کوئی نئی راہ ، چھوتی یا بڑی کسی سے منسوب ہو جائے۔

علم و ادب کا یہ مہر منور 90 برس کی عمر میں 23 نومبر 2015 بروز پیر سہہ پہر 3 بجے کراچی میں کو اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے خالق حقیقی سے جاملا ۔
اناللہ وانا الیہ راجعون

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے