یہ ’’ہینڈ ٹو مائوتھ ‘‘ کلاس اور کلچر

یہ ’’ہینڈ ٹو مائوتھ ‘‘ کلاس اور کلچرکیا ستم ہےکیسے ستمگر ہیں کیسی عریاں ستمگری ہےآج کل کرونا وائرس کے بعد بلکہ ساتھ ساتھ سب سے زیادہ ذکر ’’ہینڈ ٹو مائوتھ‘‘ لوگوں کا ہو رہا ہے اور یہ ذکر زیادہ تر ان لوگوں کی لمبی زبانوں پر ہے جن کی خود غرضی اور بےحسی کے سبب ان ’’ہینڈ ٹو مائوتھ‘‘ لوگوں نے جنم لیا اور پھر انہی لوگوں کی قیادت میں ان کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ یہ سب مگرمچھ آج ان سب کیلئے باجماعت آنسو بہا رہے ہیں۔وزیراعظم کا اعتراف بھی یہی ہے کہ خطِ غربت پر رینگتے ہوئے ان آدم نما حشرات الارض کی تعداد ہماری کل آبادی کا 25فیصد ہے۔ اول تو یہ 25فیصد سے زیادہ ہے لیکن اگر ان سرکاری اعدادوشمار جنہیں سب سے بڑا جھوٹ سمجھا جاتا ہے کو بھی درست مان لیا جائے تو آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ 22کروڑ غیوروباشعور عوام کا 25فیصد کتنا بنتا ہے …الامان الحفیظ۔سبحان اللہ کیا فرمان ہے کہ جس بستی میں کوئی بھوکا سونے پر مجبور ہو، رب العالمین کی رحمت کے دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں (مفہوم) تو آپ ہی سوچ لیں کہ جس ’’بستی‘‘ میں کروڑوں بھوکے سوتے ہوں، اس پر کیا کچھ بند ہو چکا ہو گا …

کیا کچھ بند ہو سکتا ہے۔میں مسلسل سوچ رہا ہوں یہ ’’ہینڈ ٹو مائوتھ‘‘ کیا ہوتا ہے؟ یہ وہی تو نہیں جنہیں ’’افتادگانِ خاک‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ وہی تو نہیں جن کے بارے ساحر نے کہا تھا کہ مفلسی حسِ لطافت مٹا دیتی ہے اور بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھلنے کے بجائے یہ سانچے ہی توڑ دیتی ہے۔ یہ وہی تو نہیں جن کے بارے ہمارے فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ ’’پولے کھائوندے وار نہ آئوندی اے‘‘ یہ وہی تو نہیں جن کے بارے میں آسکر وائلڈ نے کہا تھا کہ ’’قدیم زمانوں سے امیروں نے غریبوں کی بغاوت کو روکنے کا یہ موثر طریقہ ایجاد کیا کہ ان کے حق کا تھوڑا سا حصہ خیرات کی صورت میں انہیں واپس کر دیا جائے‘‘۔

یہ وہی تو نہیں جن کے تلخ ترین حالات و اوقات پر آنسو بہاتے ہوئے اقبال نے انہیں ہر خوشہ گندم کو جلا دینے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ وہی تو نہیں جن کے بارے میں لوئس بلاک کہتا ہے ’’مجھے تو غریبوں کا خون چوسنے والے لوگوں کی نسبت آدم خور وحشیوں اور درندوں میں ہزار گنا زیادہ ’’انسانیت‘‘ دکھائی دیتی ہے کیونکہ وہ تو ایک ہی بار انسان کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں جبکہ یہ لوگ زندگی بھر غریبوں کا خون پیتے رہتے ہیں اور ان کی نسلوں کی نسلیں تباہ کر ڈالتے ہیں اور کمال یہ کہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہونے دیتے‘‘۔ کیا یہ ’’ہینڈٹو مائوتھ‘‘ وہی تو نہیں جن کے بارے میں برناڈ شا نے کہا تھا ’’اگر میں دنیا کا ڈکٹیٹر بن جائوں تو ایسا قانون بنادوں کہ وہ تمام لوگ جن کی روزانہ آمدنی ایک پائونڈ سے کم ہو، انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے‘‘ ٹالٹائی یاد آیا جس نے کہا تھا۔

’’اگر کسی رات اچانک ایسی وباء پھیلے کہ اس کے سبب دنیا بھر کے تمام بادشاہ، نواب، راجے، مہاراجے، رائے، رئیس، جاگیردار، سیٹھ، ساہوکار، امرا، سرمایہ دار وغیرہ مر جائیں تو نظامِ عالم میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آئے گا لیکن اگر کسی اور وباء سے دنیا بھر کے کسان، مزدور ،جولاہے، چمار، بڑھئی، دھوبی، موچی، نائی، درزی، معمار، بھنگی، گوالے، گڈریئے، کوچوان، قلی ، گاڑی بان موت کے گھاٹ اتر جائیں تو یہ دنیا کسی کام کی نہ رہے اور بہت بڑا دوزخ جن جائے۔کرونا وائرس سے دنیا سبق سیکھے نہ سیکھے، اپنے انداز اسلوب اعمال کو تبدیل کرے نہ کرے لیکن پاکستان کی ’’میڈ ان پاکستان‘‘ مصنوعی اشرافیہ کو اپنے رویے ری وزٹ کرنا ہوں گے ورنہ انجام بہت بھیانک ہوگا۔ یاد رہے ’’آلِ تیمور‘‘ پر بھی وہ وقت آگیا تھا کہ شہزادیوں کو زندہ رہنے کیلئے باورچیوں سے شادیاں کرنا پڑیں۔ مدتوں پہلے میں نے سلطنتِ عثمانیہ کی ایک جلا وطن شہزادی کی ڈائری پڑھی تو آنسو ضبط نہ کر سکا۔ شاہِ ایران تا صدام گھرانوں اور قذافی کے بیٹے کا حال ہی دیکھ لو لیکن آدمی عجب شے ہے۔

لوگ کسی کو دفنانے جاتے ہیں تو بری طرح گم سم سہمے ہوتے ہیں، زبانوں پر دنیا کی بےثباتی تھرتھراتی ہے لیکن؟کسی بھی ملک میں ہر قسم کی گندگی، کمینگی، خباثت، بدصورتی، بےقانونی، بےترتیبی، بدسلیقگی وغیرہ کے پیچھے یہی ’’ہینڈ ٹو مائوتھ‘‘ کلچر ہوتا ہے جسے جنم دینے و الی اشرافیہ ہوتی ہے جسے ایک نہ ایک دن اسی کلچر کے ہاتھوں تباہ وبرباد، ذلیل و رسوا و پسپا ہونا ہوتا ہے۔ہو سکے تو ہوش کے ناخن لو ورنہ اللہ نہ کرے انہی بڑھتے ہوئے غلیظ ناخنوں سے خود اپنی آنکھیں نوچنا پڑیں۔’’ہینڈ ٹو مائوتھ‘‘ کلاس کو اپ گریڈ کرکے اس کلچر کو تبدیل کرنے اور ترجیحات میں سرفہرست جگہ دینے کا سوچو ورنہ سر چھپانے کو جگہ نہ ملے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے