میرا اللہ کتنا اچھا ہے

اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا کا ایک آئیڈیا شیئر کیا تھا کہ موقع ملا تو اس پر لکھیں گے ۔ دوستوں کی رائے بھی جاننی چاہی تھی مگر وقت کے جھمیلوں میں گم ہوکر وہ آئیڈیا بھی کھو گیا۔ کچھ دن پہلے فیس بک نے اسے آئیڈیے کی یاد دلادی کہ آج سےتین سال پہلے آپ نے ایک پوسٹ شیئر کی تھی اس  کا عنوان تھا کہ میرا اللہ کتنا اچھا ھے ،

اخبار میں ایک اشتہار دیکھ رھا تھا.. ” ہم اپنے بیٹے کو بوجہ نافرمانی ‘ گستاخی ‘ بدچلنی و آوارہ گردی اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے عاق کرتے ہیں.. ہم اس کے کسی نفع نقصان کے ذمہ دار نہیں ہوں گے.. ہم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا.. "میرا اللہ کتنا اچھا ہے..میں بدچلن ہوں ‘ آوارہ ہوں ‘ گستاخ ہوں نافرمان ہوں لیکن میرا اللہ کبھی مجھے اپنی نعمتوں سے عاق نہیں کرتا ‘ مجھ سے قطع تعلقی کا اشتہار نہیں نکالتا ‘ میری روٹی روزی سے غافل نہیں ہوتا ‘ لوگوں کو بتا کر مجھے ذلیل و رسوا نہیں کرتا.. خاموشی سے دروازہ کھلا چھوڑ کر میرے لوٹنے کا دن رات انتظار کرتا ہے.میرا اللہ کتنا اچھا ھے..

اور جب کبھی اپنی شامت اعمال کے نتیجے میں کسی تکلیف میں مبتلا ھو کر اسے پکارتا ھوں تو میری سن کر مجھے ڈھارس بھی دیتا ھے اور اس تکلیف سے مجھے نکالنے کی سبیل بھی کرتا ھے جس میں خود اپنی غلطی سے پھنس جاتا ھوں.. پھر کبھی کسی رات پشیمانی سے مجبور ھوکر آنسو بہاتے ھوئے اس سے شرمسار ھوتا ھوں تو وہ ماں سے بھی زیادہ تڑپ کے ساتھ اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ھے.میرا اللہ کتنا اچھا ہے ۔

جب غور کیا تو اللہ کی اچھائی سامنے آتی گئی اور دل کے آنسو رونے پر مجبور ہوئے کہ اللہ ہم سے کتنی محبت کرتا ہے مگر ہم اللہ سے کتنی محبت کرتے ہیں یہ نماز میں کھڑے ہوکر میں معلوم ہوجاتا ہے ۔ کھڑے اللہ کے سامنے ہوتے ہیں مگر ذہنوں میں خرافات گردش کر رہے ہوتے ہیں اور ہماری سوچیں نماز میں ہمارے راستے میں آجاتی ہیں ۔  ہم اس ذات باری تعالی کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں جو ستر ماﺅں سے زیادہ ہم سے پیار کرتا ہے مگر ہم اس کی محبت کے بدلے میں کچھ بھی اسے نہیں دیتے ہم ایک لفظ ہم پڑھتے ہیں considerationلین دین کے جتنے بھی معاملات ہوتے ہیں۔ ان میں یہ لفظ بڑی اہمیت رکھتا ہے اس کا مطلب آپ کو پتہ ہے کیاہوتا ہے ؟اس کا مطلب عام لفظوں میں ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو۔

ایک شعرکا مصرعہ بھی ہے نا کہ کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔پڑھ لو تو پاس ہو جاﺅ، کھا لو تو بھوک ختم، پی لو تو پیاس غائب، پیسے دو چیز لو، ہاں ہمارے اپنے تعلقات بھی تو اس بنیاد پر ہی بنتے ہیں نا کہ عزت کرو عزت کراﺅ۔ یعنی ہر معاملے میں لینا دینا تو چلتا رہتا ہے مگر دیکھیں کہ آپ اللہ سے مانگیں اور بے حساب مانگیں ۔ آپ یقین کریں اللہ کبھی آپ سے واپسی کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ یعنی اللہ کے ساتھ معاملات میں یہ اصول ختم ہو جا تاہے آپ اللہ کو ایک بار پکارو وہ دس بار سنے ۔  آپ نہ بھی پکارو وہ پھر بھی سنے گا۔ اس کی نعمتیں اور رحمتیں اتنی کہ گننے لگو تو گنتی ختم ۔ لکھنے لگو تو سیاہی ختم،

غور کیا جائے تو یہ بات بالکل سچ ہے کہ اس دنیا میں بھی اگر کوئی آپ سے سچی محبت کرتا ہے تو وہ آپ کو نہیں چھوڑتا ۔ آپ اسے چھوڑ کر کہیں چلے بھی جاو¿  وہ آپ کے پلٹنے کا انتظار کرتا ہے.چاہے یہ محبت کسی بھی رشتے میں ہو جیسے ماں کی مثال لیں ۔ وہ اپنی اولاد کو کبھی دل سے نہیں نکالتی ۔ بھلے اولاد کچھ بھی کرے  ۔ وہ ہر حال اپنے بچوں سے محبت ہی کرتی ہے.تو اللہ پاک جو انسانوں سے ایسی محبت کرتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص کسی سے نہ کر سکے تو وہ ہمیں کیسے چھوڑ سکتا ہے..

ہر بار انسان ہی اللہ پاک کو چھوڑتا ہے اور ہر بار نقصان اٹھاتا ہے. اپنے محور سے دور ہو کر بھی کبھی نفع میں رہا ہے کوئی؟  انسان کبھی دنیا کی محبت میں کھو کر ۔ کبھی اپنے ہی نفس کی محبّت میں کھو کر۔  کبھی مرتبے کی محبت میں کھو کر اللہ کو چھوڑ دیتا ہے.کیونکہ محبت ایک وقت میں صرف کسی ایک سے ہی کی جا سکتی ہے ۔اس میں دوئی کا تصوّر ممکن نہیں…اور یہ مقام یہ محبت میں سب سے پہلا مقام صرف اور صرف اللہ ہی کیلئے ہے اور وہ ہی اس کے لائق ہے.. ورنہ ہماری روح کبھی چین نہیں پا سکتی..

یہاں ایک اور غور طلب بات یہ بھی ہے کہ انسان کی فطرت میں غلامی ہے.. خاص کر اس کی اسیری جس سے یہ محبت کرتا ہے.اگر ہم اس کو بانٹ دیں مختلف چیزوں میں تو بیک وقت ہم بہت ساری چیزوں کی غلامی میں ہوتے ہیں ۔ جیسے آجکل فیشن ہے جس نے دنیا کے بہت سے جوان لوگوں کو اپنا اسیر کر لیا ہے.. دوسرا میڈیا ہے پیسہ ہے غرض یہ سب مادی چیزیں انسان کو اپنی غلامی میں جکڑے ہوے ہیں جبکہ مادی چیزوں اور کثرت کی محبت انسان کو مزید بے چین کر دیتی ہے کیونکہ روح کی غذا نور ہے ہدایت ہے۔  وہ جو اللہ کی طرف سے ہو..روح اس کی غلامی کے لئے بنی ہے اللہ کی غلامی کے لئے.. اور اس کی غلامی میں آ کر انسان دنیا کی غلامی کی تمام زنجیروں سے آزاد ہو جاتا ہے.. اسی غلامی میں صحابہ کرام تھے.. میرے پیارے نبی اور تمام اولیا ءاللہ نے بھی اسی ذات کی غلامی کی..ان سب نے دنیا کو اپنا اسیر کر لیا اس کے ہر کونے کو فتح کر لیا..

اب ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں تو دل بڑا ہو جاتا ہے بلکہ بہت بڑا۔ وہ اس لیے کہ جس سے آپ محبت کرنے لگے تو آپ کا فرض ہوتا ہے ناکہ اس کی ہر چیز سے جو اس سے وابستہ ہو محبت کریں۔پس اللہ سے محبت ہو گی تو اس کی بنائی ہر چیز سے ہو گی۔ ہائے سردی ہے ۔ مجھے تو بہت لگتی ہے مگر اللہ نے بنائی ہے اس کو پیاری لگی تو بنائی ۔ اس لیے اس کی محبت میں اس سے بھی محبت ہو جاتی ہے ۔ محبت کا سفر موسموں کی طرح انسانوں پہ بھی لاگو ہو جاتا ہے۔ ہر کوئی اللہ کا بندہ ہے اس کو پیارا لگا تو اس نے بنایا نا تو جب اس ذات کو اس سے محبت ہے تو بھئی ہم کون ہوئے اس سے نفرت کرنے والے۔

محبت کا سفر جو اللہ کی ذات سے شروع ہوتا ہے ساری کائنات پہ حاوی ہو جاتا ہے اگر ہم جائزہ لیں تو اللہ مخلوق کو نہیں چھوڑتا… مخلوق االلہ کو چھوڑ دیتی ہے..”اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اگر بندے کو اللہ کے الف کی بھی سمجھ لگ جائے تو بیڑہ پار ہو جاتا ہے !میرا اللہ اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اگر کوئی اس کے بندے کا دل دکھا دے تو جب تک اس بندے سے معافی نہیں ملتی، اللہ سے بھی نہیں مل پائے گی۔میرے اللہ کے بندوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ موت کے بعد بھی ان کے ہاں سے معافی نہیں ملتی۔ اس بات سے بھی دل نہیں پگھلتا کہ اس کے اس ایک عمل سے کسی پر آیا عذاب ٹل سکتا ہے۔ کسی کی زندہ رہتے ہوئے تڑپ ختم ہو سکتی ہے۔

میرے اللہ کا بندہ اپنے آپ کو اللہ سے بڑا سمجھتا ہے شاید۔ جبھی تو وہ اپنا دل بڑا نہیں کر پاتا۔ یا پھر یہ جھجھک ہےکہ سب مٹی میں مل جائیگا۔ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائیگا۔رات کو ہم سب جب اپنے روزمرہ کے کاموں سے فراغت کے بعد سونے کے لئے جاتے ہیں تو سب کمروں کی روشنیاں گل کرتے ہیں ۔ بیوی بچوں اور والدین کو سوتا دیکھ کر بھائیوں اور بہنوں کے کمروں میں جھانکتے ہیں کہ وہ سو رہے ہیں یا ابھی تک پڑھنے میں لگے ہوئے ہیں اور پھر جب وضو کیا جاتا ہے اور نماز وتر کے لئے جائے نماز بچھا ئی جاتی ہے تو کیا ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ کس کے سامنے کھڑے ہونے جارہے ہیں ؟ یہ جو نماز کی مشق ہے ا س میں میرا مقصد کیا ہے ؟تب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ بیوی، بچوں والدین، بہن بھائیوں دوستوں اور رشتہ داروں کے سوا بھی کوئی ہے ، وہ ایسا ہے جس کے سامنے آنکھوں سے دو آنسو بہائے جائیں  تو و ہ کہے گاکہ بس۔۔۔ فکر نا کر۔۔۔ میں ہوں نا۔۔۔وہ ایسا ہے۔۔۔ کہ جس کے سامنے میں اپنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوجائیں تو وہ حکم دیتا ہے کہ بخش دو میرے اس گناہگار بندے کو۔۔۔

اس نے کسی اور کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے لیکن صرف مجھ سے بخشش مانگی۔تب ہمارا ا دل چاہتا ہےکہ زور زور سے چلا کر ساری دنیا کو بتایا جائے کہ “ میرااللہ سب سے بڑا ہے اور کتنا اچھا ہے۔ لیکن آداب ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہاتھ بندھے کہتے ہیں کہ “ساری تعریف صرف اللہ کی ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے”۔۔۔ میں اس کے سامنے جھک کر اسے بتاتا ہوں کہ “اے اللہ، پاکی صرف تیرے لیے ہے اور تو سب سے عظیم ہے”۔۔۔ اور جب میں زمیں پر اپنا ماتھا ٹیکتے ہوئے یہ سوچتا ہوں کہ میں اس ہستی کے سامنے جھک رہا ہوں جس نے مجھے سب کچھ دیا۔۔۔ زندگی دی، سانسیں دی۔۔۔ اتنے خوبصورت رشتے دیے۔۔۔عزت اور محبت دیے۔۔۔ اور آج تک مجھے بھوکا نہیں رہنے دیا۔۔۔ تو میرے ہونٹ اور دل ایک ساتھ کہہ اٹھتے ہیں کہ “اے اللہ، پاکی صرف تیرے لیے ہے اور تو بلند تر ہے”۔۔۔ اور “اے اللہ تو پاک ہے، اے میرے پروردگار اور سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔۔۔ یا اللہ مجھے بخش دے”۔جب ساری دنیا کے رشتے مجھے چھوڑ جائیں گے تو میرا اللہ میرے ساتھ ہوگا۔۔۔ اور جب میں دنیا چھوڑ جاوں گا تب بھی میرا اللہ میرے ساتھ ہوگا۔ تو میرا اللہ کتنا اچھا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے