انسانی مرغے، پر کٹے شاہین اور مٹی کی گائے

اخباروں کے ڈھیر پر سب سے اوپر انگریزی اخبار تھا جس کے اوپر والے صفحہ پر اپر ہاف پر ایک چار کالمی رنگین تصویر تھی جس پر نظر پڑتے ہی غنودگی غائب ہو گئی اور میں پوری طرح الرٹ ہو گیا۔ کیپشن پڑھا تو دل باغ باغ ہو گیا۔ اس تصویر کا تعلق سرجانی ٹائون کراچی سے ہے۔ تصویر میں ایک سمارٹ سا پولیس اہلکار منہ پر ماسک چڑھائے ہاتھ میں ڈنڈا لئے ’’تیار‘‘ کھڑا ہے اور اس کے سامنے ’’انسانی مرغوں‘‘ کی طویل قطار ہے جس کی گنتی ممکن نہیں۔ ’’انسانی مرغوں‘‘ کی اس شہکار تصویر کے پیچھے ان کی وہ موٹر سائیکلیں کھڑی ہیں جن پر بیٹھ کر اقبال کے یہ پَر کٹے شاہین لاک ڈائون کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ بہتر ہوتا کہ ان کی کمروں پر ایک ایک اینٹ رکھنے کے بعد انہیں بانگیں دینے کا حکم بھی دیا جاتا۔جنہیں ’’زندگی موت‘‘کی تمیز نہیں—– قانون لاقانونیت کا فرق معلوم نہیں، انہیں ووٹ کی قدر و قیمت کا کتنا احساس یا علم ہوگا؟ ان کے لئے ووٹ کی قیمت قیمے والا نان یا بریانی کی ایک پلیٹ کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے؟نتیجہ مستقل قسم کے حالاتِ حاضرہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے لیکن سمجھنا سیکھنا نہیں، دور کی کوڑی لانا ہے کہ ہماری جمہوریت میں رخنہ اندازیاں ہوتی رہیں تو میں دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد بھارتی جمہوریہ کا ذکر کیوں نہ چھیڑوں جو نان سٹاپ نریندر مودی

جیسے فاشسٹ تک آ پہنچی اور اس نے ثابت کر دیا کہ واقعی جمہوریت بہترین انتقام ہے۔کون کافر اس سے انکاری ہو سکتا ہے کہ دنیا کے ’’حاضر سروس‘‘ نظاموں میں جمہوریت ہی بہترین ہے—-بشرطیکہ اس کی بنیادی ضروریات اور لوازمات کا اہتمام کیا جائے ورنہ بغیر گوشت کے نہاری اور بغیر چاول کے بریانی تو دنیا کا بہترین باورچی بھی نہیں بنا سکتا۔ یہ تو مچھلیوں کے پائے اور چڑیوں کی رانیں تیار کرنے کے برابر ہے۔توقف فرمایئے اور وضاحت کے لئے مجھے تقریباً 40،45سال پیچھے جانے دیجئے۔ ایک مشہور فلم ڈائریکٹر تھے خواجہ سرفراز جو عمر میں مجھ سے خاصے سینئر تھے لیکن ان سے دوستی یوں ہو گئی کہ میں نے زندگی بھر ان جیسا دوسرا دلچسپ بندہ نہیں دیکھا، مثلاً میں نے ان کے علاوہ آج تک کسی اور کو سکوٹر کے لئے ڈرائیور رکھتے نہ کبھی دیکھا نہ سنا جبکہ خواجہ صاحب نے سنجیدگی سے سکوٹر کے لئے باقاعدہ ڈرائیور رکھا ہوا تھا جس کے پیچھے بیٹھ کر سگریٹ سے یوں لطف اندوز ہوتے جیسے لیموزین میں تشریف فرما ہوں۔ خواجہ صاحب مرحوم سمن آباد میں رہتے۔ دفتر پٹیالہ گرائونڈ میں۔ ان دنوں پارٹنر کے ساتھ رکشہ میں گھر جاتے۔ غیرشادی شدہ پارٹنر کو گھر میں کھانا کھلاتے اور پھر اسے ’’پیدل‘‘ اس کے گھر تک ’’ڈراپ‘‘ کرنے جاتے جو خواجہ مرحوم کے گھر سے تقریباً ڈھائی تین کلو میٹر دور تھا۔ حلقۂ احباب میں خواجہ سرفراز کا یہ ’’پیدل ڈراپ‘‘ بہت مقبول تھا۔ یہی حال پاکستانی جمہوریت کا ہے جو نجانے کب سے پاکستانیوں کو ان کی منزل پر ’’پیدل ڈراپ‘‘ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔یہاں ابن انشا مرحوم کی کسی کتاب میں دیکھا ایک کارٹون بھی یاد آتا ہے جس میں ایک مکار آدمی گدھے پر اس طرح سوار ہے کہ اس نے ہاتھ میں ڈنڈا پکڑا ہوا ہے جس کے دوسری طرف پٹھے یعنی چارا بندھا ہوا ہے جو گدھے کے منہ سے صرف چند انچ آگے ہے۔ بیچارہ گدھا چارے کو قریب دیکھتے ہوئے سرپٹ بھاگ رہا ہے لیکن ظاہر ہے گدھے کی بھوک، اس کے منہ اور چارے کا فاصلہ سوتر برابر کم نہیں ہو رہا اور نہ کبھی ہو گا۔ یہ فیصلہ آپ خود کر لیں کہ گدھا کون ہے؟ اس کا مکار سوار کون ہے؟ اور اس کارٹون میں چارے سے کیا مراد ہے۔ووٹ آزاد لوگ دیا کرتے ہیں۔ دیدہ نادیدہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے غلام ابنِ غلام نہیں۔ جس کے سر پہ چھت اور پیر کے نیچے زمین اپنی نہ ہو، اس کی رائے اپنی کیسے ہو سکتی ہے۔ کے آصف کی شہرئہ آفاق فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ میں پرتھوی راج نے مغلِ اعظم مہابلی جلال الدین محمد اکبر کے کردار میں ایسی پرفارمنس دی کہ دنیا آج تک نہیں بھولی لیکن پرتھوی راج ’’مغلِ اعظم‘‘ نہیں بن گیا، پوری زندگی پرتھوی راج ہی رہا۔اس ملک کی جمہوریت بھی جمہوریت کی جتنی چاہے عمدہ و اعلیٰ اداکاری کر لے، آسکر ایوارڈ بھی لے لے تو رہے گی دو نمبر اور بہروپیا جمہوریت ہی جیسے سوئٹزر لینڈ میں جگہ جگہ آپ کو گائے کے انتہائی پرفیکٹ مجسّمے ملیں گے لیکن دنیا کا تجربہ کار ترین گجر بھی گائے کے مجسّمے سے دودھ نہیں نچوڑ سکتا، جس طرح پر کٹے شاہین اڑ نہیں سکتے اور انسانی مرغے بانگ نہیں دے سکتے۔ڈیمو کریسی نہیں فی الحال تو ڈنڈا ہی پیر ہے وگڑیاں تگڑیاں دا ورنہ یہ تو ’’انسانی حقوق‘‘ کی آڑ میں خود اپنی جانوں کے ساتھ بھی کھلواڑ سے باز نہ آئیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے