چھوٹے چھوٹے ٹوٹے

سیلف آئیسولیشن کے اس موسم میں میرے حلقہ احباب کیلئے تو بیزاری عروج پر ہے جبکہ میرے معمولات رتی برابر متاثر نہیں ہوئے کیونکہ میں عرصہ دراز سے سیلف آئیسولیشن کا عادی ہوں۔

سوشلائز کرنے اور لور لور پھرنے سے ہمیشہ نفرت رہی سو حال مست مزے میں ہیں۔ باقیوں کیلئے مشورہ یہ کہ ٹی وی سے بور ہو جائیں تو کتب بینی، پرانے گیت، پرانی فلمیں، ان ڈور گیمز، ٹیلی فونک رابطوں، یوگا و دیگر ایکسرسائیزز اور تھوڑی سی عبادت کے ساتھ ساتھ تنہائی سے آشنائی، بچوں سے ازسرنو دوستی اور بیگم سے لڑائی کیونکہ یہ سلسلہ اگر دراز ہو گیا تو ہینڈل کرنا مشکل ہوگا اس لئے ابھی سے ایک پیکیج تیار کر لیں جس میں لان، کمروں یا چھت پر واک بھی شامل کی جا سکتی ہے۔­­­­­­

مسلمان ممالک میں باجماعت نماز اور جمعہ پر پابندی کی اجازت کے حوالہ سے جامعہ الازہر کے باضابطہ فتویٰ پر فوکس کرتے ہوئے باقی آرأ اور مشوروں کو نظر انداز کر دیں تاکہ کنفیوژن سے محفوظ رہیں کیونکہ یہاں بہت سے معززین نے کنفیوژن پھیلانے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔­­­­­­

اس سہمے سہمے سوگوار سے ماحول میں یہ خبر خوشبو کی طرح میرے دل ودماغ ، روح اور لہو میں پھیلتی چلی گئی کہ 500سال بعد بچھڑ چکے غرناطہ میں ﷲ اکبر کی صدائیں بلند ہوئیں۔

قدیم مسجد البیازین میں اذانیں دی گئیں اور کچھ مسلمانوں نے گھروں کی بالکونیوں میں بھی اذانیں دیں۔ جس طرح لوگ ’’چشمِ تصور‘‘ سے وہ کچھ بھی دیکھ لیتے ہیں جو ان کے سامنے موجود نہیں ہوتا، اسی طرح میں ’’گوشِ تصور‘‘ سے 500سال بعد غرناطہ میں بلند ہونے والی اذانیں سن رہا ہوں اور اس دوران یہ مصرع مجھے مسلسل ہانٹ کر رہا ہے۔

لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی ­­­­­­بھارت کے شمال مشرقی علاقہ سے تعلق رکھنے والے والدین نے کرفیو کے دوران پیدا ہونے والی بچی کا نام ’’کرونا‘‘ رکھ دیا ہے۔

اتر پردیش کے علاقہ گورکھ پور میں یہ بچی اس وقت پیدا ہوئی جب ملک بھر میں کرفیو نافذ ہو چکا تھا۔ بچی کے ماموں کا کہنا تھا کہ کرفیو کی وجہ سے ہمیں اپنی بہن کو اسپتال لے جانے میں بہت زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

کرونا نامی یہ بچی بڑی ہو کر کیا ستم ڈھائےگی؟ کم از کم میں تو کبھی نہیں جان پائوں گا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ’’کرونا‘‘ صرف وائرس کا نام ہی نہیں بلکہ ہندو لڑکیوں میں ایک پاپولر نام بھی ہے کیونکہ 60کی دہائی کے آخر پر پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں بھی کرونا نام کی ایک کیوٹ سی ہندو لڑکی ہوتی تھی جس کا پورا نام ’’کرونا ساہنی‘‘ تھا۔ میری بھی اس سے ہیلو ہائے رہی لیکن نام کا مطلب پوچھنے کی طرف کبھی دھیان ہی نہ گیا۔­­­­­­

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شہباز شریف سیاست کر رہے ہیں جبکہ انہیں ’’بڑے پن‘‘ کا ثبوت دینا چاہئے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ شہباز میاں تو ہیں ہی پیدائشی ’’چھوٹے‘‘ اور چھوٹوں سے ’’بڑے پن‘‘ کی توقع کم از کم بالغوں کو زیب نہیں دیتی سو شہباز میاں کو اپنا گلا سڑا سودا بیچنے دیں۔

­­­­­­نوجوان، پُرجوش مراد سعید نے بوڑھے بیمار پنشنروں کی پینشن ان کے گھروں تک پہنچانے کا اہتمام و انتظام کیا ہے جس پر مراد مبارکباد اور شاباش کا حقدار ہے لیکن یہ کوئی توپ نہیں چلی، معمولی سا انتظامی قدم ہے جس کیلئے درد دل درکار تھا جو پہلے کسی کے پاس ہوتا تو یہ معمولی سا کام مدتوں پہلے ہو چکا ہوتا لیکن افسوس کسی خود غرض، کم ظرف، لالچی اور عوام دشمن کو پہلے کبھی اس کا خیال ہی نہ آیا۔­­­­­­قمرالزمان کائرہ کو ﷲ پاک نظر بد سے بچائے کہ اکثر نپی تلی عمدہ بات کرتے ہیں لیکن انسان خطا کا پتلا ہے۔ کبھی کبھار بھول چوک ہو ہی جاتی ہے۔ ان کا تازہ ترین بیان ہے کہ ’’وزیراعظم روزانہ قومی مفاہمت پر وار کرتے ہیں‘‘۔

عمران تو سر تا پا، اول و آخر فاسٹ بولر ہے ہی لیکن کائرہ صاحب صرف اتنا سمجھا دیں کہ اس ملک میں ’’قومی مفاہمت‘‘ نام کی شے ہے کہاں؟ ہماری تاریخ کا صفحہ صفحہ نہیں، سطر سطر اس بات کی گواہ ہے کہ ’’قومی مفاہمت‘‘ نام کی کوئی شے کبھی موجود نہیں تھی اور اگر بظاہر کبھی تھی تو وہ بھی دراصل ’’منافقت‘‘ ہی تھی ورنہ عشروں پہلے محسن بھوپالی مرحوم یہ نہ لکھتے …….نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھئےمنزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھےرہ گیا عمران خان تو یہ شعر اس کا تکیہ کلام رہامفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھےمیں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھےآخر پہ اک اپیل ہے۔

ڈاکٹر رفیق احمد پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننے سے پہلے شعبہ ’’اکنامکس‘‘ کے سربراہ تھے اور مجھے براہِ راست ان سے پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ اک طویل بھرپور اننگ کھیلنے کے بعد اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہو چکے۔ ان کیلئے دعا فرمائیے کہ استاد، جگ استاد ہوتا ہے۔’’آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے