جامعہ الازہر کا فتوی… صدر مملکت سے دس سوالات

صدر پاکستان جناب عارف علوی کا کرونا وائرس کی وبا کے دوران عبادات کے حوالے سے جامعۃ الازہر سے رہنمائی کا طالب ہونا یہ بتا رہا ہے کہ اس حکومت کا فکری بحران کتنا شدید ہے۔صدر محترم کی اس علمی جستجو کا حاصل سوالات ہی سوالات ہیں۔ شیخ الازہر نے صدر محترم کی رہنمائی فرما دی ہے، اب کیا صدر محترم ہم طالب علموں کی رہنمائی فرمانا گوارا کریں گے؟

پہلا سوال یہ ہے کہ اگر سربراہ ریاست کو کسی علمی و فکری معاملے میں کوئی الجھن درپیش ہو جس کی نوعیت مذہبی ہو اور وہ اس پر رہنمائی چاہتا ہو تو اسے کس سے رجوع کرنا چاہیے؟کیا وہ اپنی خواہش ، مرضی اور افتاد طبع کے تحت دنیا بھر سے یہ رائے طلب فرمائے گا، کبھی جامعہ الازہر سے ، کبھی دارلعلوم دیوبند سے ، کبھی بریلی شریف سے ، کبھی ملیشیا کی فتوی کونسل سے ، اور کبھی ایران کی شوری نگہبان اور رہبر معظم سے ، یا اس کے لیے آئین پاکستان نے کوئی رہنما اصول وضع کر رکھاہے؟

دستور پاکستان کا آرٹیکل 230 اس سوال کا جواب ہے۔ اس کی ذیلی دفعہ ’ب‘ میں لکھا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ کام ہے کہ وہ پارلیمان ، صوبائی اسمبلیوں اور گورنر کے ساتھ صدر محترم کی بھی رہنمائی فرمائے کہ کوئی قانون یا ضابطہ اسلام کی تعلیمات سے متصادم تو نہیں۔ اس آرٹیکل میںTo advise the president کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ دوسرا سوال گویا یہ ہوا کہ صدر محترم کی رہنمائی کے لیے جب ریاست نے ایک آئین بنا رکھا ہے تو اس کے ہوتے ہوئے جناب صدر کو بیرون ملک کسی شیخ سے رہنمائی کے لیے دست سوال کیوں دراز کرنا پڑا؟

تیسرا سوال جامعہ الازہر کی فکری وجاہت سے متعلق ہے۔ اگر صدر محترم سمجھتے ہیں کہ ملک کا آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کی فکری حیثیت مشکوک ہے یا وہ اس قابل نہیں کہ صدر محترم کی رہنمائی کر سکے اس لیے ایک اسلامی ریاست کے سربراہ کو ملکی معاملات کی گتھیاں سلجھانے کے لیے کسی دوسرے ملک کے شیوخ سے رہنمائی لینا ضروری ہے تو سوال یہ ہے کہ جامعہ الازہر ہی کیوں؟ کیا صدر محترم کو کچھ خبر ہے کہ جامعہ الازہر کی فکری حیثیت کیا ہے اور اس کے فتاوی کی علمی وجاہت کا عالم کیا ہے؟خود معلوم نہ ہو تو کسی صاحب علم سے تو پوچھا جا سکتا تھا کہ مسلم دنیا میں جامعہ الازہر کے شیوخ کے فتاوی ٰکو کتنی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے ۔کیا کوئی ایک مثال بھی موجود ہے کہ مصرکے کسی حکمران نے کبھی قاہرہ میں پاکستانی سفیر سے بھی کہا ہو کہ ذرا نظریاتی کونسل یا وفاقی شرعی عدالت سے فلاں نکتے پر رائے لے دیجیے؟ جامعہ الازہر کی حالیہ تاریخ میں کوئی ایک فتوی بتا دیجیے جس میں شیخ الازہر صاحب نے حاکم وقت سے اختلاف کی جرأت کی ہو۔

چوتھا سوال صدر ذی وقار کے فہم دین سے متعلق ہے۔ کیا انہیں معلوم ہے فتوی کیا ہوتا ہے؟ فتوی ایک رائے ہوتی ہے جس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ کرونا کی وبا کے دوران عبادات کے حوالے سے جامعہ الازہر جو بھی رائے دیتا اس کی حیثیت بہر حال ایک رائے ہی کی ہوتی ہے۔تو کیا صدر محترم کا خیال یہ ہے کہ اس معاملے پر پاکستان کے مذہبی طبقے میں جو اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، جامعہ الازہر کے فتوے سے وہ ختم ہو جائے گا؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔

چھٹا سوال صدر محترم کے فہم طب کے حوالے سے ہے۔کرونا اگر ان کے خیال میں ایک مذہبی معاملہ ہے تو اہل مذہب سے رجوع کیجیے۔ اگر یہ ایک طبی معاملہ ہے تو اس میں شعبہ طب کے ماہرین سے رجوع کیا جانا تھا۔ وہ اگر ڈبلیو ایچ او کو ایک خط لکھ کر اس کے ماہرین کی رائے لیتے کہ کیا مساجد میں ایک محدود حد تک سرگرمی جاری رکھنے سے وبا کے پھیلنے کا خطرہ تو نہیں اور یہ کہ وہ کیا حفاظتی انتظامات ہو سکتے ہیں جن کو یقینی بنا کر مساجد میں ایک حد تک عبادات کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے ، تب تو بات بنتی تھی۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ میڈیکل کی پریکٹس کے دوران ان کے پاس دانتوں کا کوئی مریض آیا ہو اور وہ اپنا ڈینٹل کلینک بند کر کے اس کے علاج کے حوالے سے رہنمائی طلب کرنے کراچی کے کسی عالم دین کی خدمت میں حاضر ہو گئے ہوں؟

ساتواں سوال انتظامی نوعیت کا ہے۔جہاں اختلاف رائے ہوتا ہے وہاں حکومت کیا کرتی ہے؟ وہ بیرون ملک سے مزید اختلاف رائے منگواتی ہے یا وہ ان اختلافی آراء میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے ہوئے اسے نافذ کر دیتی ہے؟پاکستان کا منظر نامہ ہمارے سامنے ہے۔ طب کی رائے تو ہمارے سامنے ہے۔ مساجد میں عبادات کے حوالے سے اہل مذہب میں البتہ اختلاف ہے۔ ریاست جس رائے کو اختیار کر لیتی ہے وہی قانون ہوتا ہے۔کیا صدرمحترم ہماری رہنمائی فرما سکتے ہیں کہ ریاست خود کس رائے کو بہتر سمجھتی ہے اور جس رائے کو بہتر سمجھتی ہے اس کو نافذ کرنے میں اسے کیا تامل ہے؟

آٹھویں سوال کا تعلق سماجیات سے ہے۔کیا صدر محترم بتا سکتے ہیں کہ جہاں اختلافی آراء میں اتنی شدت ہو وہاں قانون سازی کیسے ہو گی؟ لوگ مرتے رہیں گے اور آپ اتفاق رائے کی تلاش میں مصر کی خاک چھانتے رہیں گے یا آپ جس رائے کو دلیل ، حکمت ، طب اور مفاد عامہ کی بنیاد پر بہتر سمجھیں گے اسے پوری قوت نافذہ کے ساتھ قانون بنا دیں گے؟

صدر محترم سے نواں سوال یہ ہے کہ ریاست کی قوت فیصلہ کہاں ہے؟۔ کیا ریاست کو یہ زیبا ہے کہ وہ ایک بے بس مسکین سے منتظم کی طرح سب کی منت سماجت تک محدود رہے کہ از رہ کرم فلاں ضابطے پر عمل کر لیجیے تا کہ لوگ نہ مریں ، آپ کی عین نوازش ہو گی۔ لوگ اس عین نوازش کو خاطر میں نہ لائیں تو ریاست مفاد عامہ میں کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے شیخ الازہر کا فتوی لینے مصر چلی جائے۔امور ریاست میں ہماری فکری گرہیں کب کھلیں گی؟

جناب صدر سے آخری سوال یہ ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں کبھی کسی اور ملک میں بھی امور ریاست اس طرح چلائے گئے ہیں جیسے ہمارے ہاں چلتے آئے ہیں اور چل رہے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے