کورونا،خوف اور کیپٹل ازم

اگر اگلی بار چائنا امریکہ پہ بائیولوجیکل وار کرے گا تو کیا پھر ہم اپنی کم ہمتی کو اللہ پہ ڈال دیں گے جیسا ابھی کر رہے ہیں؟

آپس کی بات ہے ہم لوگ کافی ذہین ہیں کبوتر کی طرح فوراً سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور الو کی طرح لگاتے ہیں حساب کہ کون سا واقعہ کہاں جڑ سکتا ہے.
خیر جانے دیجیے،سوال یہ ہے کہ اگر یہ میزائل حملہ ہوتا تو ہمارا کردار کیا ہوتا؟

کیا پھر بھی ہم جنگ کو عذابِ الٰہی شمار کرتے؟ پتا نہیں کیوں میری نسل کہ لوگوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم ہی دنیا کی آخری نسل ہیں اور ہمارے بعد پکا قیامت ہی آنی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اپنی ساٹھ ستر سالہ زندگی میں ہی قیامت کی ساری نشانیاں پوری کرنے پر تلے ہوئے ہیں.

آج مجھے پتھر کے دور کا انسان یاد آگیا، جہاں جس سے خوف زدہ ہوا، اسے رب مان لیا، ازراہِ کرم تھوڑا سا حل کی طرف جائیے اللہ کی دی ہوئی عقل استعمال کیجیے اور قوموں کے ساتھ مل کر نئے معاہدے کیجیے تاکہ انسانیت کی بقا ممکن ہو سکے اور معراجِ انسانیت کو پانے کے لیے مثبت اور درست اقدام کیے جا سکیں.

ہم لوگ بنی اسرائیل نہیں اور نہ میرے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعائیں رد ہوئی ہیں، ہم تو وہ امت ہیں نا جس پہ مشترکہ عذاب نہیں نازل ہوسکتا، یہ عذابِ الہی نہیں شیطانی ذہنوں کی پیداوار ہے، مجھے افسوس ہے میری موجودہ مذہبی قیادت پر جنہیں میرے نبی کی مقبول دعائیں یاد نہیں رہیں. کاش میں ان جتنا لکھا پڑھا ہوتا تو آج انسانیت کے لیے کچھ کر پاتا.

آج وقت ہے انسان دشمن طاقتوں کی چال کو سمجھ کر انہیں ناکام کرنے کا. یہ دور سرمائے کا دور ہے اور عالمی سرمایہ دارانہ طاقتیں یہ فعل دہراتی رہیں گی تاکہ ایک دوسرے کو پچھاڑا جا سکے.

ماضی بعید سے قریب تک وہ لوگ جو معیشت پہ گہری نظر رکھتے ہیں وہ بتا سکتے ہیں کہ کیپٹلزم کی بقا کے لیے کتنے عرصے کے بعد بحران ضروری ہے. یہ بحران مصنوعی قحط سالی بھی ہو سکتا ہے اور اس طرح کا طاقت کا استعمال بھی جس میں بائیوکیمیکل ہتھیار کا استعمال بھی.

اب وقت ہے کہ مذہبی کاروباری تاجروں کے ہاتھوں سے نکل کر اپنے کرادار کو پہچانتے ہوئے وارث ہونے کا حق ادا کیا جائے اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے اپنے کردار کو پہچان کر عمل کیا جائے، معراجِ نبی کریم اصل میں معراجِ انسانیت ہے. اپنے نبی کی شان کے مطابق اپنے کردار کو ڈھالا جائے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے