دردمندانہ گزارش

وہ احباب جو اپنی خلوتوں کو بے خوف ھو کر استعمال کرتے اور اس کو اپنا پرائیویٹ معاملہ سمجھ کر حدودِ شریعت سے مستثناء سمجھتے ھیں ، وہ جان لیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فرمان کے مطابق نیک وہ نہیں کہ جس کی جلوت پاک ھو ، بلکہ نیک وہ ھے کہ جس کی خلوت پاک ھو ،، بے حیائی کا ظاھر و باطن دونوں حرام کیئے گئے ھیں ،،

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ( الاعراف،33)

اللہ پاک نے صحابہؓ کے ایمان بالغیب کو حالتِ احرام میں شکار کے ذریعے سے آزمایا تھا اور شکار کو ان کے اس قدر قریب کر دیا تھا کہ وہ نہ صرف ان کے ھاتھوں اور نیزوں کی دسترس میں تھے بلکہ ان کے ساتھ آ کر اپنا بدن بھی کھجاتے تھے گویا وہ ان کو چڑا رھے ھوں کہ بڑے شکاری بنے پھرتے تھے ذرا ھمیں پکڑ کر تو دکھاؤ اور صحابہ رضوان اللہ علیہھم اجمعین اپنا منہ پھیر لیتے تھے ،،

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَیَبۡلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیۡءٍ مِّنَ الصَّیۡدِ تَنَالُہٗۤ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ رِمَاحُکُمۡ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّخَافُہٗ بِالۡغَیۡبِ ۚ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿المائدہ-94﴾

قرآن میں ہے :

’’ اے ایمان والو! اللہ تمہیں شکار کے کچھ جانوروں کے ذریعہ ضرور آزمائے گا جن کو تم تمہارے نیزوں اور ہاتھ سے پکڑ سکوگے ، تاکہ وہ یہ جان لے کہ کون ہے جو اس کو دیکھے بغیر بھی اس سے ڈرتا ہے۔ پھر جو شخص اس کے بعد بھی حد سے تجاوز کرے گا وہ دردناک سزا کا مستحق ہوگا۔‘‘ (مائدہ: 94)

بنی اسرائیل کے ایمان بالغیب کو مچھلیوں سے آزمایا گیا تھا جب ان کے شکار کے دن تو مچھلی بھول کر بھی باھر کا رخ نہیں کرتی تھی جبکہ اس کے ناغے اور پابندی والے دن پانی پر کشتی کے بادبان کی طرح شڑپ شڑپ دوڑتی ان کے سامنے سے گزرتی تھیں کہ ھمت ھے تو پکڑ کر دکھاؤ،، اور انہوں نے پکڑ کر دکھا دیا اور فیل ھو گئے ،،،

آج ھمارا ایمان بالغیب انٹرنیٹ اور موبائیل کے ذریعے آزمایا گیا ھے ،جہاں ایک کلک آپ کو وہ کچھ دکھا سکتی ھے جو ھمارے باپ دادا 10، 10 بچے پیدا کرانے کے باوجود دیکھے بغیر اللہ کو پیارے ھو گئے ،، ھم نے خفیہ گروپ بنا کر اپنے اپنے گٹر کھول رکھے ھیں ،،یستخفون من الناس ،، لوگوں سے تو چھپا لیتے ھیں” ولا یستخفون من اللہ و ھو معھم ،، ” مگر اللہ سے نہیں چھپا سکتے کیونکہ وہ ان کے ساتھ ھے ، ھمارا لکھا اور دیکھا ھوا سب ھمارے نامہ اعمال میں محفوظ ھو رھا ھے جہاں سے صرف اسے سچی توبہ ھی مٹا سکتی ھے

یہ سب امتحان اس لئے ھے تا کہ "لیعلم اللہ من یخافہ بالغیب۔ ” اللہ تعالی جاننا چاہتا ہے کہ کون کون اللہ تعالی سے غائبانہ ڈرتا ہے۔

یہ لکھنے والے ھاتھ اور پڑھنے والی آنکھیں ، سب ایک دن بول بول کر گواھی دیں گے ،،

: { الْيَوْم نَخْتِم عَلَى أَفْوَاههمْ وَتُكَلِّمنَا أَيْدِيهمْ وَتَشْهَد أَرْجُلهمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ )( یاسین – 65)

” آج ہم انکے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ھم سے بات کریں گے اور ان کے پیر ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔‘

’’ گناہ کے دوران ھمارا کوئی بیوی بچہ یہانتک کہ بلی یا ھوا کا جھونکا بھی دروازہ ھلا دے تو ھماری پوری ھستی ھل کر رہ جاتی ھے ،، کیوں ؟ رسوائی کا ڈر ،، امیج خراب ھونے کا ڈر ،، اس دن کیا ھو گا جب ھماری بیوی بچے اور والدین بھی سامنے دیکھ رھے ھونگے اور دوست و احباب بھی موجود ھونگے ،، زمانہ دیکھ رھا ھو گا اور تھرڈ ایمپائر کی طرح کلپ روک روک کر اور ریورس کر کے دکھایا جا رھا ھو گا ،، ھائے رے رسوائی ،،،،،،،،،،،،،،،، آج بھی صرف توبہ کے چند لفظ اور آئندہ سے پرھیز کا عزم ھمارے پچھلے کیئے ھوئے کو صاف کر سکتا ھے اور ھمیں اس رسوائی سے بچا سکتا ھے ،، اللہ کے رسول دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ میرے باطن کو میرے ظاھر سے اچھا کر دے ،،

خلوت کے گناہ انسان کے عزم و ارادے کو متزلزل کر کے رکھ دیتے ھیں یوں میں خود اعتمادی اور معاملات میں شفافیت سے بھی ھاتھ دھو بیٹھتا ھے

حضرت ثوبان ؓ روایت کرتے ھیں کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ھے کہ ،،،،،،،،،

’’مجھے امت کے کچھ لوگوں کو دکھلایا گیا ھے ، جو قیامت کے دن مکہ کے پہاڑوں جیسی نیکیاں لے کر آئیں گے ؛لیکن اللہ تعالی ان ساری نیکیوں کو اکارت کر دیں گے۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ان کی کچھ نشانیاں تو بیان فرما دیجئے کہ کہیں ھم ان جیسے نہ ھو جائیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا وہ تمہارے ھی بھائی بندھوں گے، تمہاری جنس اور نسل میں سے ھوں گے۔وہ تمہاری ھی طرح رات کی نیکیوں کوحاصل کرنے والے ھونگے لیکن خلوت اور تنہائی میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں میں مبتلا ھو جائیں گے (رواہ ابن ماجہ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے