گھروں میں جا کر ٹیسٹ کیوں نہیں کرتے؟؟؟

بیس مارچ کوچھپنے والے کالم میں،میں نے جنوبی کوریا کی مثال دی اور اس بات پہ زور دیا کہ میڈیکل ٹیموں کا کرونا وائرس کے خاتمے کے لئے،گھرگھر جا کہ ٹیسٹ کرنا لازمی ہے۔کالم لکھنے کے بعدسوچا کہ انشااللہ دوبارہ اس مسلئے پر لکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی،حالات قابو میں رہیں گے ،ظاہر ہے یہ میرے اندر کے مسلمان کی سوچ تھی صحافی کی نہیں ، حقائق اس کے برعکس رہے اور اب بدسے بدتر ہوتے جا رہیں ہیں۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جس میں صبر اور شعور کی ضرورت ہے۔صبر آنا مشکل ہے مگر حکومتی کوششوں سے شعورآ سکتا تھا۔ چین سے ہمالیہ سے بلند دوستی ہونے کے باوجود ،پیپل ٹو پیپل کونٹکٹ کی شاندار مثالوں نے بھی حکومت کو یہ سوچنے پہ مجبور نہیں کیا کہ چین ہمسایہ ملک ہے ، ایک جان لیوا وبا کی زد میں ہے،یہ وائرس پاکستان میں بھی پھیل سکتا ہے۔جب حکومت کی طے شدہ تر جیحات ہوں اور ان میں تبدیلی لانا بھینس کے آگے بین بجانا ہو تو ویسی افراتفری ہی ہوتی ہے جس کا مظاہرہ ہم سب کر رہیں ہیں۔

جب تک چین میں زیرِتعلیم طالبہ نے شور نہیں مچایا حکومت خاموش اور من پسند گرفتاریوں میں مصروف رہی۔ کرونا وائرس عالمی وبا بنا اور پاکستان میں وائرس کو بھی شیعہ یاسنی بنانے کے لئے کچھ عناصر میں دوڑشروع ہو گئی جو اب تک بھونڈے طریقے سے جاری ہے۔

چین میں 81946 کیسیز کی رپورٹ ہونے سے پہلے ہی پاکستان میں فلائٹ آپریشن معطل ہونا چاہے تھا تاکہ وائرس سے متاثرہ افراد کا داخلہ وقتی طور پہ بند ہوتا۔ ایران سے آنے والے زائرین اور دیگر افراد کو کسی بھی حال میں آگے جانے سے روکنے اور انہیں اعتماد میں لینا بھی حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے تھا مگربارڈر بند کرنے کی ہچکچاہٹ نے پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافہ کیا۔

لاک ڈاﺅن کا فیصلہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا نہیں تھا کیونکہ انکے مشیران کے نہ سمجھ آنے والے موقف کا لبِ لباب یہی تھا،وائرس سے مر جائیں مگر بھوک سے نہیں، لاک ڈاون کا فیصلہ کس کا تھا ؟ یہ ایک راز ہے، فیصلہ جس کا بھی تھا درست تھا۔ لیکن جتنی جلدی لاک ڈاﺅن پر عمل درآمد ہوا میں اور آپ جانتے ہیں کی اس ہنگا می صورتِحال میں غیبی مشورہ کہاں سے آیا ہو گا۔ ایوب خان کی کتاب ” فرنڈز ناٹ ماسٹرز ” میں پاکستان میں حکومتوں کو سیدھا راستہ دکھانے والے رہنماوں کا ذکر بخوبی ہوا ہے۔

اب تک پاکستان میں کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز1526 ہیں۔ دعا ہے کہ یہ بھیانک سلسلہ یہاں ہی رک جائے۔ لیکن اب لگتا نہیں ہے۔ اس آزمائش میں حکومت ، اپوزیشن، سول سوسائٹی اور علماءکو ایک ہونا پڑے گا۔ واضح قومی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جو اس صورتِ حال کا معاشی اور معاشرتی جائزہ لینے میں بھی سوود مند ثابت ہو۔

معذرت کے ساتھ چھوٹے بڑے علما کو کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کی سنگینی کے حوالے سے قائل کرنا پڑ رہا ہے۔ آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس وقت ہے۔وقت نہیں ہے۔مسجدیں ویران ہونے کا دکھ کس کو نہیں لیکن بیشتر علما ءکے ایسے رویے سے ایک قومی ا سٹر یٹجی بننا مشکل ہے۔

ہمارے کچھ تبلیغی بھائی وائرس کے پھیلاﺅ کا باعث بھی بنے اور انہیں کے نقشے قدم پر چلنے والے پورے پاکستان کے لئے خطرہ ہیں۔ سوشل میڈیا پہ وائرل ویڈیوز میں لوگوں کے گھر رہنے کے لئے منتیں کرتے پولیس والے ،اسپیشل سوٹ میں ملبوس ڈاکٹرز جو ڈیوٹی کے دوران کچھ کھا پی نہیں سکتے
آرٹیکل245کے تحت تعینات فوجی اہلکار اور رپورٹنگ کرتے صحافی اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خدمات سرانجام دے رہیں ہیں۔

ایسا نہ ہو کہ حکومت بڑی دقت سے کئے گئے اقدامات پہ بھی پورے طرح عملدرآمد نہ کرا سکے اور ان پولیس والوں ،ان ڈاکٹرز ،ان شیروں کی محنت ضائع جائے۔

معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکڑ ظفر مرزا کہتے ہیں کہ ہر کسی کو ٹیسٹ کروانے کی ضرورت نہیں اور دوسری طرف متاثرہ ممالک زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کی کوشیش بھی کر رہے ہیں۔ آئیسلینڈمیں ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا مگر میڈیکل ٹیمز کے ٹیسٹ کرنے کے بعد 50 فیصد آبادی کرونا وائرس کا نشانہ بن چکی تھی۔ اس سے ٹیسٹ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیسے خاموشی سے یہ واِئرس کم وقت میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا سکتا ہے۔

ہم نے لاک ڈاون کرنے میں بہت دیر کی، بارڈر بھی کم سے کم ایک ماہ پہلے پوری پلاننگ کے ساتھ بند کرنے چا ہئے تھے۔ ہولناک اموات سے اب پاکستان کو ٹیسٹنگ کی فر ی سہولت ہی بچا سکتی ہے۔ حکومت اور ہیلتھ کیئر کمپنیز کمرشییلائزیشن سے راستہ نکالتے ہوئے، جان لگا کر کام کریں تو ٹیسٹنگ کیٹس کی فراہمی ہو سکتی ہے۔

جو وقت ہے اسکا فوری اور بہترین استعمال کریں، یہ نا ہو کہ حکمران وقت کو یہ کہنا پڑ جائے کہ خدا سے میری شکایت نہ کرنا۔مسجدیں ویران ہیں، ہمارے دل تو نہیں۔ اپنے گھروں میں اللہ سے اس مصیبت سے پناہ مانگیں۔ مل کر مقابلہ کرنا ہے۔ شائد کچھ پڑھنے والوں کو میری بات روایتی لگے مگر یہی سچ ہے کہ ایمان کی طاقت ، حکومت کی عقمندانہ پولیسیز سے اور صبر سے ہم بچ سکتے ہیں ، ورنہ دیر ہو جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے