میانداد کا راستہ

یہ دونوں ایک ہی ٹیم میں تھے، یہ بھی شہرت کی انتہا پر تھا اور وہ بھی بہت چاہا جاتا تھا، یہ کرکٹ میں رنز کے پہاڑ بنا دیتا تھا اور وہ کھلاڑیوں کو آئوٹ کرکے لائن لگا دیتا تھا۔

یہ اتنا محنتی تھا کہ ڈٹ جاتا تو اکیلے ہی ٹیم کو جتوا دیتا اور وہ اتنا زور آور تھا کہ اپنی آئی پر آ جاتا تو مخالف ٹیم کے بڑ ے بڑے بلے بازوں کیلئے اسے کھیلنا مشکل ہو جاتا۔ اس کے چھکے نے بھارت کے خلاف ایسی کامیابی دلائی کہ تاریخ کا حصہ بن گیا، جبکہ اُس کے یارکرز نے ورلڈ کپ میں جیتنے کی راہ ہموار کردی۔

دونوں بےمثال کھلاڑی تھے کوئی بھی کرگس نہ تھا، دونوں ہی اقبال کے شاہین نکلے، دونوں اب بھی اپنے اپنے سفر پر رواں ہیں، ایک درویش بن گیا اور گلیوں کا روڑ کوڑہ بن کے فقیروں کی خدمت کرتا ہے، یہ جاوید میانداد ہے اور وہ دوسرا ملک کا وزیراعظم بن چکا۔ عمران خان اور میانداد دونوں کی کہانی ایک جیسی تھی، مگر دونوں کی زندگیوں نے مختلف اور متضاد موڑ لے لیے ہیں۔

کرکٹ کے بعد جاوید میانداد کی زندگی میں تبدیلی کیسے آئی، یہ تو مجھے علم نہیں مگر چند ماہ پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ وہ روحانی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں۔

اسی روز شیر گڑھ کے گائوں سے واپس آئے تھے، سادہ شلوار قمیص اور چپل پہن رکھی تھی، ان سے ایک فقیر کئی ماہ پہلے داتا دربار میں ملا تھا اور ان کا دامن پکڑ کر کہا تھا کہ میرے کفن دفن کا انتظام تم کرو گے اور میری قبر اور مزار تم بنوائو گے۔

میانداد کو کچھ عرصے بعد اطلاع ملی کہ وہ فقیر شیر گڑھ میں دفن ہیں، وہاں گئے تو مجاور نے بتایا کہ مرنے سے پہلے فقیر بتا گئے تھے کہ میانداد آئے گا اور میری قبر بنوائے گا۔

جاوید میانداد جس روز مجھے ملے اس روز وہ قبر بنواکر واپس آئے تھے اور بہت خوش تھے کہ وعدے کے مطابق اپنا فرض ادا کر دیا۔

دونوں کھلاڑیوں پر دولت اور حسن عاشق تھے، میانداد نے شروع میں ہی سہگل خاندان میں شادی کرلی جبکہ عمران خان نے کافی عرصے کے بعد لیڈی جمائما سمتھ کے ساتھ پہلی شادی کی۔

دولت جاوید میانداد کے گھر کی باندی رہی، اپنے بیٹے کی شادی ٹائیگر میمن کی بیٹی کے ساتھ کی۔ یوں انہیں دولت سمیٹنے کی ذرا فکر نہیں، الٹا وہ اس سے بالکل مبرا نظر آتے ہیں۔

کورونا کے بعد کی دنیا میں دیکھنا ہوگا کہ کیا دنیا داری باقی رہے گی یا دنیا سے بیزاری آئے گی۔ کہتے ہیں کہ جب دنیا میں جنگ، وبا، آفت یا معاشی زوال آتا ہے تو دو طرح کے رویے پیدا ہوتے ہیں؛ کچھ لوگ مکمل طور پر مطلب پرست ہو جاتے ہیں، دنیا داری کی دوڑ میں پڑ جاتے ہیں، سماجی کھینچا تانی بڑھ جاتی ہے، انارکی اور بےاطمینانی کا دور دورہ ہو جاتا ہے جبکہ دوسری طرح کا جو رویہ پیدا ہوتا ہے وہ دنیا سے بیزاری اور مال و دولت پر بےاعتباری کی صورت منتج ہوتا ہے۔ معاشی افراتفری کے زمانے میں ہمیشہ جوگی، درویش، ملنگ اور قلندر مقبول ہوتے ہیں۔

گزشتہ روز جاوید میانداد کی درود تاج پڑھنے کی وڈیو وائرل ہوئی تو مجھے میانداد سے اپنی ملاقاتیں اور ان کی ماضی کی شان و شوکت یاد آگئی، جس خلوص اور دردِ دل کے ساتھ وہ درود پاک پڑھ رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے دل کا رشتہ اس دنیا سے نہیں ہے بلکہ کہیں اور ہی اٹکا ہوا ہے۔

لاہور ملاقات کے دوران ہی ایک فیملی میانداد کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی، ان کے ساتھ ان کا اسپیشل بچہ بھی تھا، میانداد نے ناصرف بچے کے ساتھ تصویر بنوائی بلکہ بچے سے کسی نامانوس زبان میں پندرہ بیس منٹ گفتگو کرتے رہے۔

ہم حیران تھے کہ اسپیشل بچے سے یہ کیا باتیں کر رہے ہیں اور کون سی زبان بول رہے ہیں؟ تھوڑی دیر کے بعد میں نے پوچھا کہ میانداد صاحب! یہ کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ تھوڑا سا جھینپے اور پھر مسکرا کر کہنے لگے، ان لوگوں کی ایک اپنی دنیا ہے، ان کی اپنی زبان ہے۔ اور پھر سنجیدہ ہو کر بولے، بھائی دنیا یہی چلا رہے ہیں، یہ روحانی دنیا کے لوگ ہی اصل میں دنیا چلاتے ہیں، میرے ذہن میں فوراً قدرت اللہ شہاب اور ان کے مکتبِ فکر کی سوچ آگئی کہ یہ درویش، فقیر، ابدال اور قطب خدا کی طرف سے مقرر کردہ ہوتے ہیں اور یہی خفیہ طور پر اس دنیا کو چلا رہے ہوتے ہیں۔ میانداد کی وضاحت پر مجھے ان کا فلسفہ سمجھ آگیا اور میں خاموش ہوگیا، وہ پردہ داری رکھنا چاہتے تھے اور میں گستاخ نہ تھا۔

کرکٹ کا تعلق اور دوستیاں بھی گہری ہوتی ہیں، کھلاڑی ریٹائر بھی ہو جائیں تو ان کے تعلقات زندگی بھر چلتے ہیں۔ ان کی باتیں، کرکٹ کی کہانیاں اور لطائف ان کی گفتگو میں موضوعات کی کمی نہیں ہونے دیتے۔

جاوید میانداد اور عمران خان کی دوستی اور تعلق اب بھی قائم ہے۔ عام تاثر تو یہ ہے کہ شاید کرکٹ کھیلنے کے زمانے میں ان کے درمیان کوئی تنائو یا کشمکش تھی، میانداد اس تاثر کی یکسر نفی کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم دونوں مل کر ٹیم کی حکمتِ عملی طے کرتے تھے۔ میانداد سیاست میں نہیں آئے لیکن عمران کو کئی بار مشورے دیے، ان سے مسلسل ملاقاتیں بھی کرتے رہے۔ میانداد نے بتایا کہ دھرنے کے دوران عمران خان کو قاتلانہ حملے میں مارنے کی سازش تیار کی گئی تھی، میں نے جاکر عمران خان کو متنبہ کر دیا اور یوں وہ اس حملے سے بچ گئے۔

کافی عرصہ ہوا میری میانداد سے ملاقات نہیں ہوئی، اس لیے کالم کے ذریعے ان سے پوچھ رہا ہوں کہ کورونا سے بچنے کیلئے کیا کریں، اس کا حل بتائیں، وہ اپنے دوست وزیراعظم عمران خان کو بھی ایسے مشورے دیں کہ وہ قوم کو اس نازک ترین صورتحال سے بچا کر نکل جائیں۔

میرے علم میں ہے کہ جاوید میانداد کراچی سے باہر مقیم کسی درویش کے پاس باقاعدگی سے جاتے ہیں اور ان سے فیض پاتے ہیں، میری درخواست ہے کہ درویش باصفا سے ہی کوئی نسخہ لے کر قوم کو بھجوائیں تاکہ ہم عامیوں کی زندگی محفوظ و مامون ہو سکے۔

کہتے ہیں کہ مشہور شخصیات زندگی میں جو بھی کریں اس کی خبر بنتی ہے، میانداد چاہے دنیا تیاگ کر جوگ اختیار کر لیں یا صوفی کا راستہ اختیار کر لیں، لوگ ان کے بارے میں اب بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

میانداد کرکٹ میچ کے بحران میں پھنسی قوم کو اپنی بلے بازی اور تیز دوڑوں سے بچایا کرتے تھے، اس وقت قوم کورونا بحران میں مبتلا ہے، ان کے پرانے دوست وزیراعظم عمران خان بہت زور لگا رہے ہیں، میانداد بھی ماضی کی طرح کندھا لگا کر دیکھیں، شاید کام بن جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے