لاک ڈاؤن سے مفر ممکن نہیں تھا

ہفتے کی صبح ایک دوست نے راولپنڈی کے قریبی شہر سے فون پر اطلاع دی کہ غریب عورتوں کے جمگھٹے اس شہر سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے ایم این اے اور ایم پی ایز کے ’’ڈیروں‘‘ پر جمع ہورہے ہیں۔ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں تین ہزار روپے کی وہ رقم فی الفور مہیا کئے جانے کا بندوبست ہو جس کی ’’منظوری‘‘ وزیر اعظم صاحب نے دی ہے۔

مجتمع ہوئی غریب خواتین کو نجانے کیوں یقین کی حد تک یہ گماں تھا کہ وفاقی حکومت نے مذکورہ رقم تحریک انصاف کے مقامی قائدین تک پہنچادی ہے۔اب یہ ان پر منحصر ہے کہ ’’اپنے حلقے‘‘ میں کس گھرانے کو امداد کا مستحق مان کر یہ رقم اس کے حوالے کردیں۔

ٹھوس حقائق پر توجہ مرکوز رکھیں تو وزیر اعظم صاحب نے سینئر صحافیوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ رقم فراہم کرنے کا محض عندیہ دیا تھا۔ بعدازاں ان کے مشیر خزانہ صاحب نے ایک ہمہ جہتی ’’امدادی پیکیج‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے غریب گھرانوں کو مذکورہ رقم مہیا کرنے کا اعلان بھی کیا۔وزیر اعظم یا مشیر خزانہ میں سے کسی ایک نے بھی ہرگز یہ ’’خبر‘‘ نہیں دی تھی کہ قومی خزانے سے مجوزہ رقم مستحق افراد میں بانٹنے کے لئے ادا کردی گئی ہے۔

میڈیا کی بدولت مجھے تاثر بلکہ یہ ملاکہ شاید فیصلہ ہوا ہے کہ ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کی فہرست میں موجود ہر گھرانے کو کورونا کی وجہ سے نازل ہوئی مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے یکمشت تین ہزار روپے ادا کئے جائیں گے۔یہ بات طے نہیں ہوئی کہ انہیں ہر ماہ یہ رقم ملے گی اور اگر ہر ماہ ملنا ہے تو یہ سلسلہ کتنے مہینوں تک جاری رہے گا۔سادہ اور واضح الفاظ میں کسی سرکاری ادارے یا فرد کی جانب سے یہ اعلان بھی نہیں ہوا کہ BISPکی فہرست میں موجود ہر گھرانے کو اب ہر ماہ تین ہزارروپے ماہوارملا کریں گے۔سوال اُٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کے مقامی قائدین کے ڈیروں پر جمع ہوئی خواتین کو حقائق کے برعکس پیغام کیوں ملا؟

ہفتے کی رات سونے سے قبل سوشل میڈیا کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ غریبوں کے جمگھٹے محض پوٹھوہار کے ایک بڑے شہر میں نقدامدادی رقم یا راشن کے منتظر نہیں۔ لاہور کے ایک علاقے میں تحریک انصاف کے ’’نمائندہ‘‘ ہونے کے چند دعوے دار نوجوان غریبوں کے ایک ہجوم سے ان کے شناختی کارڈ کی کاپیاں حاصل کررہے تھے۔ یہ نقول حاصل کرنے کے لئے فوٹو اسٹیٹ کی ایک دوکان کو ’’ہنگامی‘‘بنیادوں پر کھلوایا گیا۔ وہ دوکان ایک شناختی کارڈ کی نقل تیار کرنے کے لئے 20روپے وصول کررہی تھی۔

تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے لئے کراچی کے ایک حلقے سے منتخب ہوئے ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب کی ایک کلپ بھی دیکھنے کو ملی۔وہ اپنے شہر کے ایک مقام پر لوگوں کے ساتھ موجود تھے۔ان کے سامنے شناختی کارڈوں کی نقول موٹی موٹی گدیوں کی صورت میں موجود تھیں ۔ڈاکٹر صاحب کو کیمرے کے روبرو مقامی افراد یہ بتاتے پائے گئے کہ تحریک انصاف کے چند نمایاں افراد نے ان کے علاقے میں راشن تقسیم کیا۔یہ راشن مگر مستحق لوگوں کو نصیب نہیں ہوا۔نظر بظاہر کئی غیر مستحق افراد ضرورت سے زیادہ بوریاں لے اُڑے۔

میرے ٹویٹر اکائونٹ پر قابل اعتبار محسوس ہوتے افراد کی جانب سے فراہم کردہ ایسی ’’اطلاعات‘‘ بھی موجود تھیں جن کے مطابق پیپلز پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز اندرونِ سندھ کے شہروں اور قصبات میں مستحق افراد کی فہرستیں تیار کررہے ہیں۔ان فہرستوں میں موجود افراد کی تعداد ’’لاکھوں‘‘ کو چھوتی نظر آرہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لئے ناممکن ہوگا کہ وہ ان سب کو راشن یا نقدرقوم فراہم کرسکے۔ مذکورہ بالا ’’اطلاعات‘‘ نے مجھے پریشان کردیا۔ نینداُڑگئی۔رات بھر کروٹیں بدلتا اس کا منتظررہا۔

کامل لاک ڈائون یا کرفیو کی مخالفت کرتے ہوئے عمران خان صاحب تواتر سے اس ’’افراتفری‘‘ کا ذکر کئے چلے جارہے ہیں جو مذکورہ اقدامات کے سبب دیہاڑی دار اور کم آمدنی والے طبقات کو اپنی زد میں لے سکتی ہے۔انہیں خدشہ ہے کہ کورونا سے کہیں زیادہ کورونا کی وجہ سے پھیلا خوف پاکستان کو ایسے ہیجان وخلفشار میں مبتلا کرسکتا ہے جس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔وزیراعظم کے اندازِ سیاست وحکمرانی کے بارے میں ہزاروں تحفظات رکھنے کے باوجود میں ان کے بیان کردہ خدشات سے اتفاق کرنے کو مجبور پاتا ہوں۔

ہیجان کی ابتدائی صورتیں مگر نمودار ہونا شروع ہوگئی ہیں۔پوٹھوہار کے ایک شہر سے فون پر آئی اطلاع اور کراچی ،لاہور سے سوشل میڈیا پر پھیلتی وڈیوز یہ پیغام دے رہی ہیں کہ غریب گھرانوں میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ وزیر اعظم نے غریب گھرانوں کی مدد کیلئے اپنی جماعت کے سرکردہ رہ نمائوں کو مناسب رقوم فراہم کردی ہیں۔یہ رقوم مگر مستحق افراد کو فراہم نہیں کی جارہیں۔

سیاست میں ہیجان اور خلفشار کا اصل سبب حقائق Realityاور تاثر یعنی Perceptionکے مابین تفاوت ہوا کرتا ہے۔سیاسی مفکرین کا یہ اصرار بھی ہے کہ Perceptionحقائق سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔چند محققین نے یہ دریافت بھی کیا ہے کہ معاشروں میں انتشار کا بنیادی سبب وہ توقعات (Expectations)ہوتی ہیںجو عوام اپنے حکمرانوں سے اپنی خواہشات Aspirationsکی وجہ سے باندھ لیتے ہیں۔یہ توقعات پوری نہ ہوں تو خلقِ خدا غصے سے اُبلنا شروع ہوجاتی ہے۔

خواہشات کی بنیاد پر باندھی توقعات کی وجہ سے عوام میں اُبلتے غصے کو ٹرمپ اور بورس جانسن جیسے سیاست دانوں نے کمال مکاری سے استعمال کیا۔عوام کے ’’اصل مسائل‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے وہ حکمران اشرافیہ کے ’’باغی‘‘ نظر آئے۔عوام کے دلوں میں جمع ہوئے غصے کو بھڑکاتے سیاستدان Populistکہلاتے ہیں۔ہمارے عمران خان صاحب بھی ہر حوالے سے ایک پاپولسٹ سیاست دان ہیں۔ گزشتہ 22برس سے حکمران اشرافیہ کی ’’لوٹ مار‘‘ کے خلاف مسلسل آواز بلند کرتے ہوئے دھرنوں کی بدولت بالآخر وہ ہمارے صاحبِ اختیار وزیر اعظم بن گئے۔ ان سے باندھی توقعات نے ملک بھر میں پھیلے نادار طبقات کی کماحقہ اکثریت کو اپنے تئیں یہ طے کرنے کو مجبور کردیا کہ ’’غریبوں کے درد مند‘‘ عمران خان صاحب نے تحریک انصاف کی قیادت کو سرکاری خزانے سے مناسب رقوم فراہم کردی ہیں۔اب یہ مقامی قائدین کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ مستحق افراد کو یہ رقوم ادا کریں۔انہیں راشن مہیا کریں۔

عمران حکومت سے وابستہ توقعات نے تحریک انصاف کی پاکستان بھر میں پھیلی مقامی قیادتوں کے ڈیروں کے باہر جو ہجوم جمع کرنا شروع کئے ہیں اس کی حقیقت سے شاید بے خبر وزیر اعظم صاحب اب ایک ’’ٹائیگر ریلیف فورس‘‘ تیار کرنے کا ارادہ باندھے ہوئے ہیں۔نوجوانوں پر مشتمل یہ ’’فورس‘‘ غریب ونادار گھرانوں کو لاک ڈائون یا کرفیو کے دنوں میں راشن مہیا کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔اس فورس کے باقاعدہ قیام سے قبل عمران خان صاحب کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ ’’ٹائیگر‘‘ وہ نوجوان تصور ہوتے ہیں جو تحریک انصاف سے جنون کی حد تک وابستہ ہیں۔’’ٹائیگر‘‘ کا استعارہ سیاسی اعتبار سے فقط تحریک انصاف کے جانثاروں کے لئے مختص ہوچکا ہے۔ ’’ٹائیگر‘‘ لڑاکو بھی شمار ہوتا ہے۔مرنے یا مارنے کو ہمہ وقت تیار۔اس سے ’’ریلیف‘‘ یا دُکھوں کے مداوے کی امید نہیں باندھی جاتی۔بہتر یہی ہے کہ لفظِ ’’ٹائیگر‘‘ کوبھلاتے ہوئے کوئی نیا نام سوچا جائے جو یہ تاثر دے کہ ہماری سیاست میں اندھی نفرت وعقیدت کی بنیاد پر ہوئی تقسیم کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے عمران خان صاحب پاکستان کے تمام اہلِ درد نوجوانوں سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں مستحق افراد تک راشن پہنچانے کے لئے رضاکارانہ طورپر منظم انداز میں آگے بڑھیں۔

مستحق افراد کی نشان دہی اور ان تک نقدامدادی رقوم یا راشن پہنچانا فقط ’’ٹائیگرز‘‘ کے سپرد ہوا تو غربت سے بدحال ہوئے عوام کی اکثریت تحریک انصاف اور اس کے سربراہ یعنی عمران خان صاحب ہی کو اپنی مشکلات کا حقیقی ذ مہ دار ٹھہرائے گی۔ہمارے ہاں 2011سے مسلط ہوئی سیاسی تقسیم مزید گہری اور شدید تر ہوجائے گی۔

پاکستان یقینا ایک غریب ملک ہے۔اس کی ریاست اور حکومت مگرOver Developedکہلاتی ہیں۔ اس کے BISPجیسے بے تحاشہ ادارے ہیں۔شماریات کا محکمہ الگ سے ہے۔عالمی اداروں نے بھی Dataکا انبار لگارکھا ہے۔آج کے Digitalدور میں فقط چند روز کی Focusedتحقیق کے بعد سرکاری طورپر ان گھرانوں کی بآسانی نشان دہی ہوسکتی ہے جنہیں لاک ڈائون یا کرفیو کے دنوں میں ا مدادی رقوم یا راشن پہنچانا ضروری ہے۔مستحق افراد کی نشاندہی خدارافقط ان اداروں کی ذمہ داری ٹھہرائی جائے۔ ’’ٹائیگرز‘‘ کو اس عمل سے باہر رکھنا ضروری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے