رَ بِّیْ اَنِّیْ مَغْلُوبٌ فَاَنْتَصِر

بظاہر فکشن تو لگتا ہے لیکن در حقیقت دونوں کہانیاں اصلی ہیں۔ دونوں واقعاتی کہانیوں کے ہیرو بھی فرضی یا فلمی نہیں بلکہ ریئل ٹائم ہیرو ہیں۔ پہلی کہانی کو خدا کی بستی کا چھوٹا لاک ڈائون کہہ لیں جبکہ دوسری کو بین الاقوامی گائوں کا میگا لاک ڈائون۔

لاک ڈائون، لاک ڈائون ہی ہوتا ہے‘ چاہے وہ چھوٹا لاک ڈائون ہو یا بڑا لاک ڈائون۔ انسانوں نے حضرتِ انسان کی آزادیاں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ بنیادی انسانی حقوق چھیننے کے لیے پچھلے 100 سال میں سب سے مہلک ہتھیار بنائے۔ ڈرٹی بم، مدرآف آل بمز، ایٹم اور ہائیڈروجن بم‘ یہ سب مکینیکل بمباری کے ذرائع ہیں۔ ان سے بھی بڑھ کر انسانیت کے لیے تباہ کُن 2 عدد دوسرے بم بھی موجود ہیں۔ پہلا کیمسٹری کی زبان میں کیمیائی بم کہلایا۔ دوسرے بم کو انگریزی میں Area Specific نیوکلیئر ڈیوائس کہتے ہیں۔ یہ بھی ایک ظالمانہ حقیقت ہے کہ بم چھوٹا ہو یا بڑا اس میں کسی سائز کا ”دل‘‘ فِٹ نہیں کیا جاتا۔ اس لیے بم کو پیدائشی بے رحم مخلوق کہا جا سکتا ہے۔ ایک اور انسانی تخلیق ان سب سے غیر انسانی ہے جسے آئی ای ڈی(Improvised Explosive Device) کہا جاتا ہے۔

سال 2019 میں راشٹریہ، ہِندوتَوا، بھارت کی مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے لیے نیا ہتھیار ایجاد کیا تھا‘ جسے بے دردی سے لاک ڈائون کا عنوان دے دیا گیا۔ ساری زبانوں، ساری عبادتوں، معاشی ریاضتوں اور علمی درسگاہوں پر تالے ڈال دیئے گئے جب کہ تالوں میں ایلفی۔ صحت افزا سیبوں میں کیڑے پڑ گئے۔ جاں فزا پھلوں کا رس گندی نالیوں میں بہہ گیا۔ کنواریوں کے ہاتھ پیلے نہ ہو سکے۔ سہاگنیں بیوہ بنا دی گئیں۔ معصوم بچّے وحشی درندوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ بے دردی کی ایسی داستان لکھی گئی جس میں دارو اور دوا تک لاک ڈائون کے مال خانے میں لاک ہو گئے۔ ٹرانسپورٹ، برقیات، مواصلات، اے ایم، ایف ایم ریڈیو، سوشل میڈیا، واٹس ایپ، ایمیزون، ٹویٹر، فیکس، سکائیپ غرض یہ کہ فریاد کا ہر راستہ بے رحمی کے ذریعے بند کر دیا گیا۔

اس لاک ڈائون کا اگلا مرحلہ موم بتّی گروپ شیوخ و شاہ‘ اُمَمِ متحدہ، رابطۂ عالمِ اسلامی، عرب لیگ، جی8 ممالک، جی سی سی، سارک ریجن کے منہ میں بھی ایلفی ڈال گیا۔ اس کرّہ ارض پر ایسی اندھیر نگری کسی نے کسی دوسری جگہ، کِسی دور میں بھی نہیں دیکھی۔ آواز‘ بیان اور اظہار کے سارے راستے بارود اور بندوق سے بند کر دیئے گئے۔

ایسے سَمے بھارتی مقبوضہ وادی پہ آسمان مہربان ہو گیا۔ آہ اور نالوں نے رسائی کی حد وں کو پار کر ڈالا۔ پھر یوں ہوا کہ خدا کی بستی میں چھوٹے لاک ڈائون پر دھیان نہ دینے والی دُنیا اَز خود، میگا لاک ڈائون کی زَد میں آ گئی۔

جس راشٹریہ ہندوتوا بہادر، دیش میں کشمیری ہونا قتل ہونے کے لیے کافی ثبوت تھا۔ جہاں محمڈن اقلیت ہونا، گھر جلا کر بے گھر کر دینے کے لیے کوالیفائی کرتا تھا۔ جہاں مسلم خواتین کی یونیورسٹیاں نوجوان بچّیوں کے سروں سے آنچل کھینچ لینے کے لیے پسندیدہ جگہ بن گئی تھی۔ آج دنیا کی اُس سب سے بڑی ہندو ریاست میں ویرانیوں کے ڈیرے ہیں۔ ایک اَن دیکھے مچھر کے بچے یا بچونگڑے نے، ترشول بردار سورمائوں کو 3 ہفتے کے لیے لاک ڈائون میں بند کر کے رکھ دیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی جن راج دھانیوں میں نریندر مودی کو پرائیڈ آف پرفارمِنس ملتے تھے آج وہاں روشنیاں ہیں، قُمقمے ہیں مگر کوچہ و بازار میں ہُو کا عالم ہے۔
امریکہ کے سب سے بڑے ایوان میں منتخب نمائندوں نے اجتماعی دعا کے لیے بڑے پادری صاحب کو بلوایا ۔ یہ خدائی خدمت گار پھٹ پڑا، کہنے لگا ”یا مالک! ہمیں معاف کر دے ہم نے مظلومیت کو مذاق بنا دیا۔ قتل و غارت کو میری مرضی اور میری چوائس سمجھ لیا۔ کمزوروں پر بمباری اور وحشتیں نازل کیں۔ ڈیوٹورونومی میں لکھا موسیٰ کا یہ پیغام بھول گئے کہ ہر جان قیمتی ہے، سب کی قیمت برابر۔ ہم نے مالک تیرا پیغام رَد کر دیا بلکہ اس پر اپنی مرضی مسلط کر دی۔ ہماری خطائیں معاف کر دے، ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں اب ایسا ظلم نہیں ہو گا‘‘۔

چشمِ فلک نے یہ خوشگوار دن بھی دیکھنا تھا کہ ہمارے ہسپتالوں کے وارڈوں اور برآمدوں میں (جہاں پہ وائلنس اگینسٹ ڈاکٹرز) ہوتا رہا، وہیں پر ان مسیحائوں کی خدمت میں سلام اور گارڈ آف آنر پیش ہو رہے ہیں۔ میں نے پچھلے 2 سالوں میں اس موضوع پر اسی صفحے پہ 2 وکالت نامے لکھے۔ پنجاب کے معروف کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر سرور اور اے ایف آئی سی کے کمانڈنٹ نے بڑی دل دوز تفصیلات بھجوائیں۔ سماجی رابطے کے وائس لاگ پر میں نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد کے 2 ینگ ڈاکٹرز (جن کے نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا) کا ذکر کیا تھا‘ جن کے بارے میں میرے ڈاکٹرز بچّوں نے تفصیل بتائی۔ یہ 2 نڈر اور بہادر والنٹیئر میڈیکل آفیسرز کی جرأتِ رِندانہ کا واقعہ ہے۔ ان دونوں نے اپنے سینئر آفیسرز سے اصرار کر کے کہا کہ وہ کورونا کے وارڈ میں دن رات ڈیوٹی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ پھر، اِن دی لائن آف ڈیوٹی ایک نوجوان ڈاکٹر کورونا پازیٹو ہو کر بستر سے جا لگا۔ آئیے سچّے دل سے رب تعالیٰ کے حضور اُس کی جلد، مسلسل اور مکمل ریکوری کے لیے فر یاد کریں۔
رَبِّیْ اَنِّیْ مَغْلُوبٌ فَاَنْتَصِر
”اے میرے رب! میں بے بس ہوں، میری مدد فرما‘‘

دوسروں کی جان بچانے والے مسیحائوں کے قافلہ سالار گلگت کے ڈاکٹر اُسامہ ریاض کی شہادت کا کرب ابھی باقی ہے۔ یا اللہ، پورے پاکستان کے پیرامیڈکس، نرسز، میڈیکل ٹیکنیشنز، وارڈ بوائز، ایمبولینس عملہ جات اور ڈاکٹرز خواتین و حضرات کو اپنی مکمّل پناہ میں رکھ۔ یہ تیری مخلوق کے لیے اس کرّہ اَرض پر پہلی ڈیفنس لائن ہیں، ان میں سے کوئی بھی شہرت کا طلب گار نہیں۔ ہسپتالوں میں علاج کروانے والوں کی سیلفیاں نہیں بن رہیں۔ سب کی صحت کے ساتھ ساتھ اُن کی عزت اور اَنا کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ وطنِ عزیز کی یہ میڈیکل کور اپنی جانوں کا رِسک لے کر ہم وطنوں کی جانیں بچا رہی ہے۔ ان سب کو دیکھ کر دل کی گہرائیوں سے یہ آواز نکلی ہے کہ موسمِ بہار کا خالق، پاک وطن کو جلد بہاروں سے بھر دے گا۔
قُمریاں لوٹ کے آئیں گی چمن چہکے گا
ٹُھمریاں دادرے گائیں گی صحن لہکے گا
شور بچّوں کا، بزرگوں کا حکیمانہ چلن
جلد اِس دیس میں پھر سر و سَمن مہکے گا

عجب دور ہے اور عجب ماحول بھی۔ شرق سے غرب تک ہر جگہ۔ عجائبات کے در وا ہو رہے۔ ایسا ہی ایک دروازہ500 سال بعد پھر کھلا ہے۔ یہ غرناطہ کی مسجد ہے۔ اسلامی سپین کا شہر غرناطہ جسے ہسپانوی زبان میں (Granada) کہتے ہیں وہاں 5 صدیاں پہلے شہر کی مرکزی مسجد سے اذان پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اگلے روز غرناطہ کے موذّن کو مسجد کے مرکزی مینار پر چڑھ کر اللہ اکبَر، اللہ اکبَر کی صدا بلند کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس سے پہلے شہرِ غرناطہ کے مسلمان گھروں کی کھڑکیوں سے اذان دیا کرتے تھے۔ چین سے غرناطہ اور روم سے امریکہ تک ہر زبان اور ہر رنگ کے لوگ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے سامنے سر بسُجود ہو رہے ہیں۔ ان مناظر کی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

اگر راشٹریہ ہندوتوا بھارت سچ نہ چھپائے تو آپ دیکھیں گے کتنی بڑی تعداد میں بھارتی فوجی مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈائون سے ڈر کر بھاگ نکلے ہیں۔ انسان سیّاروں کو چھو سکتا ہے، ستاروں پر کمندیں ڈال سکتا ہے‘ لیکن قدرت کے انصاف میں رخنہ ڈالنا اُس کے بس میں نہیں۔ مالک ہر جگہ موجود اور ہر وقت سنتا رہتا ہے۔
رَبِّیْ اَنِّیْ مَغْلُوبٌ فَاَنْتَصِر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے