کیا کرونا ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے؟

کیا کرونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے اور یہ کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا ؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا مشکل ہے۔ تو کیا کرونا ایک قدرتی وائرس ہے جو کسی لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا ؟ میرے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں دینا انتہائی مشکل ہے ۔ ہر دو کے امکانات موجود ہیں اور جب تک کوئی چیز واضح طور ہمارے سامنے نہیں آتی تب تک کسی سازشی تھیوری کا ، کامل یقین کر لینا یا اسے آخری درجے میں رد کرنا ، دونوں ہی نا معتبر رویے ہیں۔

حیاتیاتی اسلحہ یا حیاتیاتی جنگ ، یہ کسی خیال خام کا نام نہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے ۔ اس حقیقت کا تعلق بھی محض کسی لیبارٹری میں وقوع پزیر ہونے جانے سے نہیں بلکہ اس کے استعمال سے ہے۔ حیاتیاتی اسلحے اور اس کے استعمال کا یہ دنیا مشاہدہ کر چکی ۔ ماضی میں یہ اسلحہ فصلوں پر بھی استعمال کیا جا چکا ، جانوروں پر بھی اور انسانوں پر بھی۔ اس کے استعمال کے نتائج کو دیکھتے ہوئے دنیا نے اس کے خلاف جو پہلی قانون سازی کی تھی ، اسے پورے پچانوے سال ہو چکے ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے کرونا وائرس کو حیاتیاتی اسلحے میں شمار کرنا بلاشبہ ایک معقول رویہ نہیں لیکن جو چیز آج سے ایک صدی قبل ایک حقیقت بن چکی ہے اس کے امکان کو یکسر رد کر دینا بھی کوئی متوازن رویہ نہیں۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر کرونا وائرس کا ایک حیاتیاتی ہتھیار ہونا ثابت نہیں تو پھر مان کیوں نہ لیا جائے کہ یہ ایک قدرتی وائرس ہے؟ جواب بہت سادہ ہے۔ کسی بیماری کے جراثیم اور وائرس کو اگر دنیا میں اس سے پہلے بطور اسلحہ استعمال نہ کیا ہوتا تو آج اس امکان کی یکسر نفی کرنا آسان ہوتا ۔ اس کام کا ایک بار ہو جانا ، گویا اعلان ہے کہ سائنسی طور پر یہ حیاتیاتی اسلحہ تیار کرنا ممکن بھی ہے اور ایک صدی بعد اس حیاتیاتی اسلحہ سازی میں کسی بھی نوعیت کی جدت کی بھی مکمل نفی نہیں کی جا سکتی۔

آج تو 2020 ء ہے۔ برطانوی افواج نے فورٹ پٹ کے محاصرے کے دوران ریڈ انڈینز کے خلاف 1763 ء میں حیاتیاتی اسلحہ استعمال کیا تھا اور ان میں چیچک کی بیماری پھیلائی تھی ۔ آج سے دو سو ستاون سال پہلے۔ برطانیہ پر آسٹریلیا کے خلاف بھی اسی اسلحے کے استعمال کا الزام ہے۔

پہلی جنگ عظیم میں جرمن فوج نے دشمن کے خلاف انتھراکس وغیرہ کا استعمال کیا تھا ۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ سر ونسٹن چرچل تھے جن کے حکم پر انتھراکس ، ریبٹ فیور ، بروسولائسز، مہلک بیماریوں کے متعدد حیاتیاتی ہتھیارتیار کیے گئے تھے۔

1940ء میں جاپان نے دشمن پر ایسے بم پھینکے تھے جن سے طاعون پھیلا، کہا جاتا ہے چار لاکھ لوگ جاپان کے حیاتیاتی ہتھیاروں سے مارے گئے۔ مخالف حریف کو تو چھوڑ ہی دیجیے خود جاپان کے دس ہزار لوگ اس طاعون کے ہاتھوں مارے گئے۔

پچاس کی دہائی میں امریکہ اور برطانیہ میں مختلف امراض پھیلانے والے مہلک حیاتیاتی ہتھیار تیار کیے گئے جن کی تیاری مبینہ طور پر بعد میں بند کر دی گئی۔ ماضی میں روس بھی ایسے ہتھیاروں کی تیاری کو تسلیم کر چکا ہے۔جو کام کل ہو سکتا ہے ، امکان موجود ہے وہ کام آج بھی ہو سکتا ہے۔

حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کا استعمال ایک ایسی خوفناک حقیقت ہے جسے انٹر نیشنل لاء نے پوری شدت اور حساسیت سے موضوع بنایا ہے ۔ 1925 میں جنیوا گیس پروٹوکول آیا جس میں بیکٹیریا کے بطور ہیتھیار استعمال کی ممانعت کی گئی ۔ برسلز ٹریٹی کے تین پروٹوکولز کا تعلق حیاتیاتی ہتھیاروں سے ہے۔ آسٹرین سٹیٹ ٹریٹی میں بھی حیاتیاتی اسلحے کی ممانعت کی گئی ۔ 1972 میں بائیولوجیکل ویپن کنونشن لایا گیا ۔ دہلی ڈرافت رولز میں بھی حیاتیاتی اسلحہ کی ممانعت کی گئی۔منڈوزا اور کارٹگنا اعلامیے بھی اسی خطرے سے متعلق ہیں۔

اقوام متحدہ سے بھی پہلے جب لیگ آف نیشنز ہوتی تھی اس نے بھی بیکٹیریا کے جنگی استعمال کو ممنوع قرار دیا تھا۔ سلامتی کونسل کی دو اور جنرل اسمبلی کی 78 قراردادیں حیاتیاتی اسلحے کے خلاف آ چکی ہیں۔ اقوام عالم کا اتنا غیر معمولی رد عمل بتا رہا ہے کہ یہ خطرہ ایک حقیقی خطرہ تھا اور ہے۔ اس خطرے کی ہلاکت خیزی اور اس کے امکان کو یکسر نظر انداز کر کے دل تو بہلایا جا سکتا ہے ، حقائق نہیں بدلے جا سکتے۔

حیاتیاتی اسلحے میں امریکہ اور دیگر اقوام نے جو تیاریاں کیں ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ آدمی پڑھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے۔ جینز کیوبن کی کتاب ’’ دی سوویت بائیولاجیکل ویپن پروگرام‘‘ اور سٹیفن اینڈیکوٹ کی ’’ دی یونائیٹڈ سٹیٹس اینڈ بائیو لاجیکل وار فیئر‘‘ پاکستان میں دستیاب ہیں ، وقت ملے تو پڑھ لیجیے۔

اقوام متحدہ کی حساسیت اور انٹر نیشنل لاء کی پابندیوں کے بعد اب دنیا میں اعلانیہ پوزیشن تو یہ ہے کہ کوئی ملک حیاتیاتی ہتھیار تیار نہیں کر رہا ۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے یا حقیقی صورت حال کچھ اور ہے۔ کہنے کو تو یہاں بہت سے ممالک ہیں جو ایٹمی اسلحہ بھی تیار نہیں کر رہے اور کہنے کو تو کوئی ملک کیمیائی ہتھیار بھی کہیں ا ستعمال نہیں کر رہا لیکن حقائق ان دعووں کی تردید کرتے ہیں اور آج بھی ایسے بد قسمت ملک ہیں جہاں ماضی قریب میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں۔

امریکہ سمیت چند ممالک میں حیاتیاتی ہتھیاروں پر پوری قوت سے کام ہوا تھا۔ امریکہ نے تو ایک دور میں بائیولاجیکل وارفیئر لیبارٹریز کا پورا نیٹ ورک قائم کر دیا تھا۔ کیا جان ایف کینیڈی نے پراجیکٹ 112پر کام نہیں کروایا تھا؟ مچھروں کے ذریعے بیماری پھیلانے والا آپریشن بگ بز کیا ابھی کل کی بات نہیں؟ آپریشن ڈراپ کک کیا تھا؟ ایک طویل فہرست ہے ، کالم میں جس کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔

اس امکان پر بھی کچھ سوالات یقینا موجود ہیں کہ کس نے بنایا ہو گا ؟ کیونکہ لوگ تو ہر ملک کے مر رہے ہیں؟ یہ سوالات بادی النظر میں اہم ہیں لیکن ان سوالات پر غور کرتے ہیں تو ان کے رد میں بہت سے پہلو بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ بنانے والا مس کیلکو لیشن کا شکار بھی ہو سکتا ہے ، اپنے حتمی مقصد کے پیش نظر وہ اس قیمت کی ادائیگی پر بھی تیار ہو سکتا ہے ، بنانے والا کوئی نان سٹیٹ ایکٹر بھی ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

تا ہم جب تک کوئی ٹھوس شہادت سامنے نہیں آتی یہ کہنا مشکل ہے کہ کرونا وائرس کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا اور یہ ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے ۔ لیکن اس امکان کی نفی ، یاد رکھیے ، اس سے بھی مشکل کام ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے