پاکستانی سیاسی جماعتیں جمہوریت مخالف کیوں؟

پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں داخلی سطح پر جمہوریت کے فقدان پر ابھی چند دن قبل رہا ہونے والے مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے اہم باتیں کی ہیں۔ وہ اس بارے میں کافی فکرمند نظر آئے۔

جیو ٹی وی کے پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر ادارے بنانا ہوں گے اور قیادت کی دوسری اور تیسری تہہ بھی بنانا ہو گی ، اختیار نیچے تک منتقل ہو تاکہ اس حوالے بحرانی کیفیت پیدا نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک تو سبھی پارٹیوں کا یہ حال ہے کہ وہاں کچھ لوگ خود ہی ہاتھ پاوں مار کر اپنی کوئی جگہ بنا پاتے ہیں جبکہ بہت سے لوگوں کی عمریں ضائع ہو جاتی ہیں۔

سعد رفیق کا کہنا تھا کہ مسلسل پارٹیاں بدلنے والے الیکٹیبلز(جتاو گھوڑوں) سے جان چھڑانا ہوگی۔ ٹکٹوں اور عہدوں کی بانٹ کا کوئی اصول بنانا ہوگا وغیرہ وغیرہ ، یہ تو تھیں سعد رفیق کی باتیں۔

اب میری سنیں

طاقت کی مرکزیت پر اصرار کا مسئلہ صرف اسٹیبلشمنٹ کا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے کم وبیش ہر سیاسی جماعت کو یہ روگ لاحق ہے۔ انہیں لوکل باڈیز کے الیکشن کراتے ہوئے ہمیشہ موت دکھائی دیتی ہے۔ یہ اختیار نچلی سطح تک تقسیم کرنے سے ڈرتے ہیں۔ یعنی یہ پارٹیاں اپنی ساخت میں ابھی تک جمہوری نہیں بن سکیں۔

ہم اسٹیبلشمنٹ کو کوستے رہتے ہیں کہ اسے اٹھارہویں آئینی ترمیم سے بڑی تکلیف ہے کہ صوبے کیوں بااختیار ہو گئے اور ان کے خیال میں یہ ”یکجہتی” کے تقاضوں کے مغائر ہے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ یہ تشویش بے محل ہے۔

مقتدر خیال کیے جانے والے محکموں کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ یونیفرمٹی کو ایک قابل پرستش بُت سمجھتے ہیں ، یہ ان کی محکمہ جاتی ضرورت بھی ہے لیکن سمجھنا چاہیے کہ عوام رنگروٹ نہیں ہوتے۔

اگر وہ محکمے سے باہر اس کے نفاذ کی بات کریں تو ان پر تنقید ہونی چاہیے کہ یہ ان کا میدان ہی نہیں ہے چہ جائے کہ وہ اس پر کھلے عام رائے زنی کرتے پھریں۔

جمہوری سیاسی جماعتیں البتہ تنوع کا احترام کرتی ہیں ۔ انہیں تنوع اورتکثیریت (پلورلزم) سے خوف محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ طاقت کو چند لوگوں کی مٹھی میں رکھنے پر اصرار کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک میں قیادت کا بحران جنم نہیں لیتا، شخصیات جادو کے طوطے نہیں بنتیں، سیاسی عمل، حالات جو بھی ہوں رواں رہتا ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں روایتی سیاسی خانوادوں، مزاروں کے مجاوروں اور چند ڈیرے داروں کی اہمیت ابھی تک برقرار ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہاں کے تعلیمی نظام کا بانجھ پن ہے جو شہری کو اپنے اور ریاست کے تعلق کا شعور دینے سے قاصر ہے۔ اسے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس جانب توجہ نہیں دیں گی ، اپنے کامریڈز کو اختیار میں شریک نہیں کریں گی، داخلی سطح پر جمہوری ادارے نہیں بنائیں گی تو اسی طرح وقفوں وفقوں سے ذلیل ہوتی رہیں گی۔ نتیجہ صرف چند لوگوں کے زوال نہیں بلکہ سماج کے ہمہ جہت انحاط کی صورت میں سامنے آتا رہے گا۔

سب سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے ڈیبیٹ کُھلنی بہت ضروری ہے۔ سوال کو احترام دینا سیکھنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے