کورونا وائرس۔ پس چہ باید کرد

پاکستانی قوم دنیا کی منفرد قوم ہے۔ جھوٹ سب سے زیادہ اس ملک میں بولا جاتا ہے لیکن اللہ اور رسولﷺ کے نام پر مر مٹنے والے بھی یہاں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔ جتنی منافقت یہاں ہے، شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں پائی جاتی ہو لیکن نمازیں پڑھنے والے اور روزے رکھنے والے بھی یہاں کسی اور مسلمان ملک سے کم نہیں۔

یہاں رشوت بھی انتہا پر ہے اور حج و عمرہ کا رجحان بھی۔ یہاں فرقہ واریت بھی زوروں پر ہے لیکن بحیثیت مجموعی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رجحان بھی قابلِ رشک ہے۔ یہاں حکومتوں کی رٹ ہمیشہ کمزور رہی لیکن خاندانی نظام اور مذہبی اقدار کی وجہ سے ہمارا معاشرہ نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار رہا ہے۔

اس تضاد کی وجہ یہ ہے کہ ہم جذباتی حد تک مسلمان ہیں لیکن ہمیں مذہب کی اصل تعلیمات کا شعور بہت کم ہے۔ اسی طرح ہم جذباتی حد تک محبِ وطن ہیں لیکن ہمیں حب الوطنی کا شعور نہیں۔

ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہمیں ایسی مذہبی قیادت سے واسطہ پڑا ہے جو اپنے سے زیادہ دوسروں پر اسلام نافذ کرنا چاہتی ہے اور سیاسی قیادت عمران خان کی طرح نصیب ہوتی ہے جو اپنے اور اپنے چہیتوں کے بجائے صرف دوسروں کا احتساب چاہتی ہے چونکہ مجموعی طور پر برائی کا پلڑا بھاری رہتا ہے اس لئے ہماری قوم کا مجموعی کردار مایوس کن رہتا ہے لیکن جب بھی کوئی آسمانی یا زمینی آفت آتی ہے تو اس قوم کا مجموعی کردار قابلِ رشک بن جاتا ہے۔

یہ ہم نے بھارت کے خلاف جنگوں، زلزلہ اور سیلابوں کے مواقع پر دیکھا ہے۔ گزشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران اس ملک اور بالخصوص پختون علاقوں میں دہشت گردی کے نام پر جو قیامت گزری ہے، اس پر لاکھ فلمیں بنیں اور کروڑوں کتابیں لکھی جائیں تو بھی ان تہہ در تہہ تکلیفوں کا احاطہ نہیں کر سکتیں لیکن حکومتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس معاشرے کی اپنی قوت سے ہم اس سے سرخرو ہو کر نکلے۔

اسی لئے مجھے پکا یقین ہے کہ اللہ تعالی کے رحم و کرم سے ہم کورونا کی آفت سے بھی بحیثیت قوم سرخرو ہو کر نکلیں گے۔ حکومتوں یا حکمرانوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس قوم کی اپنی قوت مزاحمت اور جذبہ ایثار کی وجہ سے۔ ان شاء اللہ

مجھے اپنی حکومت کی نالائقیوں کا پوری طرح احساس ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کورونا کی آفت کے موقع پر بھی عمران خان صاحب اپنی ذات کے حصار سے نہیں نکلے۔

میں تو یہ بھی رائے رکھتا ہوں کہ شاید اللہ ان دنوں پاکستانی قوم سے زیادہ ناراض ہے اس لئے پہلے موجودہ حکومت کی وبا مسلط کردی اور اب اس کے ہوتے ہوئے کورونا کی وبا بھی آگئی۔

کورونا کی وبا تو صرف انسانی جانوں کے لئے خطرہ ہے لیکن پی ٹی آئی کے کورونا نے تو ہمارے معاشرتی اور سیاسی اقدار کو بھی تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس لئے میں اگر پُرامید ہوں تو صرف اور صرف پاکستانی قوم کے جذبے اور صلاحیت کی بنیاد پر پُرامید ہوں۔

ہماری قوم اگر صرف ایک کام کرے کہ ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے چند دن کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرے تو ہم اس وبا پر قابو پا سکتے ہیں اور اس قوم کو ان احتیاطی تدابیر پر نہ عمران خان کی حکومت آمادہ کر سکتی ہے اور نہ کوئی صوبائی حکومت۔ یہ کام میڈیا بھی نہیں کر سکتا۔ یہ کام کر سکتی ہیں تو ہماری دینی جماعتیں کر سکتی ہیں۔

الحمدللہ ابھی تک اکثر مذہبی جماعتوں نے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے پہلے روز سے اپنے خدمتِ خلق کے تمام اسپتال، ایمبولینس اور رضاکار حکومتوں کے حوالے کئے۔ عمران خان کو اگرچہ وہ زہر لگتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے بڑے پن کا مظاہرہ کرکے پہلے دن سے حکومت کی طرف دستِ تعاون دراز کیا اور اپنے رضاکار ضلعی انتظامیہ کے حوالے کئے۔

تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل اور دیگر تبلیغی اکابرین بھی اپنی بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔ فقہ جعفریہ کے علمائے کرام بھی اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں اور درگاہوں سے بھی یہی خیر کی کاوشیں جاری ہیں جبکہ بڑے مدارس نے بھی مناسب فتوے جاری کئے لیکن میرے نزدیک یہ کافی نہیں۔

ایک تو ان سب کی کوششوں کو مربوط بنانے کی ضرورت ہے اور دوسرا جو بات ڈاکٹر صاحبان کررہے ہیں وہ ان دینی جماعتوں کے ہر کارکن کی زبان پر ایک ہی انداز میں آنا چاہئے۔

اس ملک میں بہت سے علاقے ہیں کہ جہاں لوگ دانشوروں کے بجائے اپنی مسجد کے مولوی صاحب کی بات سنتے ہیں۔ اس لئے میری گزارش ہوگی کہ مولانا طارق جمیل سمیت سب مکاتب فکر کے دینی رہنما جمع ہوں۔ وہ اپنی اپنی جماعتوں کی الگ الگ یا پھر مشترکہ کمیٹیاں بنائیں۔

پھر محلوں کی سطح پر تین تین افراد کی کمیٹیاں بنا کر لوگوں کو کورونا سے متعلق وہ احتیاطی تدابیر بتائیں جو ڈاکٹر تجویز کررہے ہیں۔ اسی طرح ان تین تین افراد کی یہ ٹولیاں بازاروں میں گشت کریں اور لوگوں کو یہ احتیاطی تدابیر سمجھائیں۔

ہم جیسے لوگ اگر ہزار مرتبہ بھی عوام سے کہتے رہیں کہ اس وقت گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے تو وہ نہیں مانیں گے۔ ہاں اگر یہی دینی شخصیات یا دینی جماعتوں کے کارکن ان سے کہیں گے تو وہ عمل کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ اسی طرح غریب اور نادار لوگوں میں امدادی سامان بھی ان کمیٹیوں کے ذریعے تقسیم ہونا چاہئے۔

میری تو تجویز ہوگی کہ حکومتی امداد کی تقسیم کا کام بھی فوج اپنے ہاتھ میں لے کر ان مذہبی جماعتوں کے رضاکاروں کو اپنے ساتھ استعمال کرے۔ کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مذہبی جماعتوں کے لوگ فرشتے ہیں لیکن میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ایک تو ان کی پہنچ ہر جگہ تک ہے۔

دوسرا اس طرح کے فلاحی کاموں میں ان کا تجربہ زیادہ ہے اور تیسرا ان کے رضاکاروں میں قربانی کا جذبہ بھی زیادہ ہے۔ اگر دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو وہ اور بھی اچھی بات ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے