نکہتِ رنگِ رواں

زندگی کے سفر میں کچھ منظر ایسے ہوتے ہیں ‘جو سب سے منفرد ہوتے ہیں۔ سب سے الگ‘ سب سے جدا ۔ایسا ہی ایک خوش رنگ منظر راولپنڈی کی کالج روڈ پر واقع زم زم کیفے میں دوستوں کی محفل کا تھا ۔یہ ان دنوں کی بات ہے‘ جب میں گورڈن کالج میں ایم اے انگلش کا طالب علم تھا ۔یہ ستر کی دہائی کا ذکر ہے ۔کالج کے بعد ہمارا ڈیرا کالج روڈپر واقع زم زم کیفے میں ہوتا۔کیفے کیا تھا ‘ایک وسیع ہال تھا‘ جس کے باہر شہتوت کا ایک تناور درخت تھا‘جس کی چھاؤں میں کرسیاں بچھی ہوتیں۔یہاں پر ہر روز باقاعدگی سے دوستوں کی محفل جمتی‘ جس میں کبھی کبھار ہمارے کالج کے استاد بھی شریک ہو جاتے۔ ان محفلوں میں ہر طرح کے علمی اور ادبی موضوعات زیرِبحث آتے۔ انگریزی اور اردو میں شائع کردہ کتابوں اور ادیبوں پر گفتگو ہوتی۔اب پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہوں کہ ان محفلوں میں بیٹھنے والے سارے لوگ بکھر گئے ہیں۔جہاں زم زم کیفے ہوتا تھا ‘اب وہاں ایک مارکیٹ بن چکی ہے ‘لیکن یہ ان دنوں کا تذکرہ ہے جب زم زم کیفے اپنی پوری آب و تاب سے موجود تھا۔کیفے میں کانچ کے چھوٹے گلاسوں میں چائے سرو کی جاتی۔کیفے کی ایک اور کشش یہ تھی کہ یہاں آپ اپنے من پسند گیت سن سکتے تھے۔ کیفے کا مالک تنویربٹ کاغذ کی پرچیوں پر گیتوں کی فرمائش وصول کرتا اور پلک جھپکنے میں ریکارڈوں کے ڈھیر سے مطلوبہ ریکارڈنکال کر چلاتا۔گرمیوں میں شام کے وقت باہر کچی زمین پر پانی کا چھڑکاؤکیا جاتا۔

مجھے یاد ہے انہی محفلوں میں پہلی بار میں ظفرؔاقبال کی شاعری سے متعارف ہوا۔ہمارا ایک دوست شاعری کی ایک کتاب ”آبِ رواں‘‘ لایاتھا‘ جس سے اُس نے ایک غزل سنائی تو ہم سب چونک اُٹھے۔یہ اردو غزل کا نیا لہجہ تھا۔اس بات کو چار دہائیاں گزر گئی ہیں‘ لیکن اس غزل کے یہ شعر میرے حافظے میں اب بھی محفوظ ہیں۔؎
کہیں پربتوں کی ترائیوں پہ ردائے رنگ تنی ہوئی
کہیں بادلوں کے بہشت میں گلِ آفتاب کھِلا ہوا
یہ مہک جو تیر کی طرح میرے مشامِ جاں میں درآئی ہے
اسی باغ میں ہے یہیں کہیں وہ سیہ گلاب کِھلا ہوا
اسی زرد پھول کی بددعا ہے ظفرؔ یہ دل کی فسردگی
مرا منتظر رہا مدتوں جو پسِ نقاب کِھلا ہوا

یہ اردو غزل میں ایک جداگانہ اسلوب اور منفرد ڈکشن تھی ۔اسی محفل میں ہمارے دوست نے ظفر ؔاقبال کی ایک اور غزل سُنائی‘ جس کا مطلع اردو کے مقبول ترین اشعار میں شامل ہے۔؎
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا

ایم اے انگلش کرنے کے بعد بطورِلیکچرر میری پہلی اپوائنٹمنٹ گورنمنٹ ڈگری کالج منڈی بہاؤ الدین ہوگئی۔یہ اس زمانے میں ایک خاموش اور پُر سکون جگہ ہوا کرتی تھی۔انہی دنوں نوازش علی) بعد میں اردو کے معروف نقاد) بھی منڈی بہاؤالدین کے ایک اور کالج میں اردو کے لیکچرر تعینات ہوئے تھے۔شام کو ہم دونوں وقت گزارنے کے لیے ایک شاعر حکیم صاحب کے مطب چلے جاتے‘ جہاں کچھ اور لوگ بھی آتے جو زیادہ تر شاعر تھے ۔میں اس محفل میں نووارد تھا۔پہلے ہی دن سب نے اپنی اپنی شاعری سُنائی اور پھر مجھے کہاگیا۔میں نے کہا کہ میں شاعر نہیں ہوں ‘ لیکن آپ چاہیں تو کسی کے دو تین اشعار سنا سکتا ہوں ۔سب بولے: بالکل‘ ضرور ۔مجھے یاد ہے اس روز میں نے ظفر ؔاقبال کے تین اشعار سُنائے تھے۔؎
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایہ تھا
موجِ ہوا سے کانپ گیا روح کا چراغ
سَیلِ صدا میں ڈوب گئی یاد کی دھنک

یہ اشعار سننے کے بعد مجھے محفل میں اذنِ باریابی مل گیا۔

80ء کی دہائی میں میری تقرری علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ہو گئی ۔اتفاق سے جس بلاک میں تیسری منزل پر انگلش ڈپارٹمنٹ کے دفاتر تھے‘ اسی بلاک میں دوسری منزل پر اردو ڈپارٹمنٹ تھا ‘جس میں اس وقت کے معروف نقاد نظیر صدیقی صاحب بھی پڑھاتے تھے ‘کبھی کبھار میں اردو ڈپارٹمنٹ چلاجاتا‘نظیر صدیقی صاحب کی طبیعت میں مزاح کا پہلو نمایاں تھا‘ ایک بار انہوں نے کسی پسِ منظر میں ظفرؔ اقبال کا یہ شعر سنایا اور شعر کی خوبصورتی کی تعریف کی :؎
اس کے گلاب اس کے چاند جس کی بھی قسمت میں ہیں
آپ ظفرؔ کس لیے اتنی مصیبت میں ہیں

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں آنے کے بعد میرا رجحان انگریزی لسانیات (Linguistics) کی طرف ہو گیا۔بعد میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے میری پی ایچ ڈی بھی لسانیات میں ہے۔یوں لسانیا ت کے پسِ منظر میں میں نے ظفرؔ اقبال کی شاعری کو پڑھا تو اس کی نئی پرتیں سامنے آئیں۔زبان کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ زبان ایک Passiveیا Neutralچیز نہیں۔ عمرانیات کے دو اہم ماہرینSapirاور Whorfکی تحقیق کے مطابق‘ ہم جوزبان بولتے ہیں وہ ہماری سوچ پر اثر انداز ہوتی ہے ۔روسی ماہرِنفسیات Vygotskyکی کتاب Thought & Languageزبان کی اہمیت کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔ Vygotsky کے مطابق ‘لفظ انسانی شعور کی کائناتِ اصغر Cosmos)) ہے۔ ظفرؔ اقبال روایتی اردو غزل کے اسلوب ‘متن اور ڈکشن کے گھڑے گھڑائے سانچوں اور حدبندیوں میں گھٹن محسوس کر رہا تھا۔اس کا اظہار کئی اشعار میں ہوتا ہے ۔؎
حصارِ حبس میں ہوں اور ہوا ہونا ضروری تھا
وہ اک دیوار جس میں راستہ ہونا ضروری تھا

روایت کی اس تنگنائے سے نکلنے کا راستہ کچھ مختلف کرنے کا عزم تھا۔لفظوں میں ‘ خیالات میں اور اظہار میں ایک نیاپن‘لیکن اس کے لیے ضروری تھاپامال راستوں سے ہٹ کر Out of the boxشاداب زمینوں کا سفر کیا جائے‘ لیکن روایت کے چنگل سے نکلنے کے لیے جرأت چاہیے ‘جس کے بغیر تخلیق کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ظفرؔاقبال نے شعوری طور پر روایت کے آرام دہ راستے کے مقابل ایک کٹھن راستے کا انتخاب کیا۔؎
وہ کونج ہوں اس عرصہ گہہِ شامِ فلک میں
نکلی تھی کبھی آپ ہی جو ڈار سے باہر

خیال اور زبان کی بحث میں ظفرؔ اقبال نے جلد ہی یہ جان لیا تھاکہ زبان کا خیال کی تشکیل اور ترسیل میں بنیادی کردار ہے اور اگر روایت کی جکڑبندیوں سے رہائی مقصود ہے تو زبان کا نیا برتاؤضروری ہے‘لیکن یہ بات اہم ہے کہ زبان کا یہ استعمال ظفرؔ اقبال کے ہاں Cosmetic نہیں‘بلکہ اس کا تعلق شاعر کی ذات سے ہے۔؎
اک لہر ہے کہ مجھ میں اچھلنے کو ہے ظفرؔ
اک لفظ ہے کہ مجھ سے ادا ہونے والا ہے
مرا نیا لفظ باندھنے کا جواز کیا ہے
اگر معانی وہی پرانے نکالتا ہوں

شاعر اور ادیب کے لیے ایک اہم چیلنج معنی کے انجماد (Fixity)سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔یہاں لفظوں کے نئے پیراہن‘ معنی کے نئے رنگ روپ لے کر سامنے آتے ہیں۔؎
سنو گے لفظ میں بھی پھڑپھڑاہٹ
لہو میں بھی پرافشانی رہے گی
ہر سچا تخلیق کار جب بنے بنائے مانوس سانچوں

سے ہٹ کر اپنا راستہ بناتا ہے تو اسے مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔یہ مخالفت اکثر ان لوگوں کی طرف سے آتی ہے ‘جو گوشۂ عافیت (Comfort Zone ) سے باہر نہیں نکلتے۔ظفرؔ اقبال اس لحاظ سے بھی روایتی شاعروں سے مختلف ہے کہ اس کی شاعری کو گایا نہیں گیا۔یوں گائیکی کی بیساکھیوں کے بغیر ظفرؔ اقبال نے شاعری میں اپنے آپ کو منوایا:؎
ظفرؔ زمیں زاد تھے زمیں سے ہی کام رکھا
جو آسمانی تھے آسمانوں میں رہ گئے ہیں

ظفرؔاقبال شاعری کی ایک طویل مسافت طے کر چکا ہے‘ لیکن ہنوز اس کے تخلیقی چشمے اسی رفتار سے آبِ رواں میں ڈھل رہے ہیں۔لف بلندی پر اڑتی ہوئی لفظ ومعانی کی خوش رنگ تتلیاں ہیں‘جو اسے ہر لحظہ سر گرداں رکھے ہوئے ہیں:؎
رکتا نظر آتا نہیں اک سلسلۂ خواب
اک رنگِ رواں ہے کہ ٹھہرتا نہیں لگتا

میں نے جب دنیا اخبار میں اُردو کالم لکھنے کا آغاز کیا اور گورڈن کالج کے حوالے سے ایک کالم لکھ رہا تھاتو مجھے ایک خوبصورت شعر یاد آگیاجو مجھے اس کالم میں استعمال کرنا تھا۔میرا خیال تھا یہ شعر ظفرؔاقبال صاحب کاہے لیکن سوچا کیوں نہ کنفرم کر لیا جائے شعر تھا:؎
آئینۂ آواز میں چمکا کوئی منظر
تصویر سا اک شور مرے کان میں آیا

میں نے ظفرؔاقبال صاحب کو فون کیااور انہیں شعر سنا کر پوچھایہ آپ ہی کا شعر ہے نا؟ وہ جواب میں ہنسے اور کہنے لگے: کیا یہ شعر کسی اور کا ہو سکتا ہے؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا: واقعی یہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں زندگی کے سفر میںکچھ منظر ایسے ہوتے ہیں ‘جو سب سے الگ سب سے جدا ہوتے ہیں‘ایسا ہی ایک خوش رنگ منظر ظفرؔاقبال کی شاعری ہے۔شاعری کیا ہے ایک نکہتِ رنگِ رواں ہے ۔سب سے الگ ‘سب سے جدا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے