کرونا وائرس کی متعدی وبا اور ایک معتدل مذہبی فتویٰ

گزشتہ چند مہینوں سے کرونا وائرس جیسی جان لیوا متعدی بیماری نے پوری دنیا کے لیے جہاں غیر معمولی مسایل پیدا کیے ہیں، وہاں اس کے اثرات سے اسلامی مذہبی حلقے بھی سخت متاثر ہوئے ہیں۔ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کرونا-19 نامی یہ غیر مرئی وائرس انسانی اجتماعات اور میل ملاپ کی ہر صورت سے بہت تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے اور اس کی کوئی مؤثر دوا/ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے انسانی زندگی اور صحت کے لیے یہ نہایت خطرناک بلکہ جان لیوا ہے۔ اس لیے جہاں اجتماع کی مروجہ تمام شکلوں پر پابندی کی بات کی گئی وہاں مذہبی اجتماعی عبادتوں کی وقتی طور پر تعمیل روکنے کی بھی بات ہونا فطری تھا۔ لیکن یہ صورتحال اکثر مسلمانوں کے لیے نہ صرف نئی بلکہ تشویش ناک بھی تھی اور اسے عوامی سطح پر غیر مسلموں کی کسی خفیہ سازش کا حصہ بھی سمجھا جانے لگا۔

جن ملکوں میں حکومتی کنٹرول موجود تھا وہاں جمعہ و جماعت کی نمازوں پر جلد ہی پابندی لگا دی گئی اور انہیں کسی مذہبی لیڈر/جماعت کی طرف سے کسی بڑی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن جہاں ایسا نہیں تھا وہاں کئی مذہبی بیانیے اور فتوے سامنے آئے۔ پاکستان کی صورتحال اس سلسلہ کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ تر مذہبی طبقے یا علما نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ اس بیماری سے بچاؤ کے لیے مذہبی اجتماعات پر کچھ عرصے کے لیے پابندی ضروری ہے، لیکن ابھی بھی کئی علما اس کے مخالف ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومتی مشنیری کے سامنے وہ وقتی طور پر خاموش ہیں، لیکن علمی طور پر وہ اپنی رائے پر تاحال مصر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی حلقوں کی طرف سے ان مختلف بیانیوں کا عمیق تجزیہ کیا جائے اور آئندہ کے لیے اس سے مثبت نتائج حاصل کیے جائیں۔ فی الحال میں اس سلسلہ میں ایک معتدل مذہبی فتوے کی یہاں ترجمانی کر رہا ہوں جو چند یورپی علمائے اسلام (یورپین فتویٰ کونسل) کی طرف سے اس ہفتے سامنے آیا ہے۔

یورپین فتویٰ کونسل مارچ 1997 کو لندن میں تشکیل پانے والی ایک غیرسرکاری افتا کونسل ہے جس کا صدر مقام تاحال آیرلینڈ میں ہے، تاہم اس کونسل میں شرق و غرب کے بہت سے ممتاز علماء شریک/ممبر ہیں جو مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کی کسی بھی اہم قومی، دینی اور ملی مسایل پر شرعی نقطہ نگاہ سے رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ علماء، اہلسنت کے مختلف مکاتب فکر کا ایک مجموعہ ہونے کے ناطے کسی ایک فقہی و مسلکی فرقے کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اہل سنت کے بیان کردہ فقہی اصول و قواعد کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے نصوص کی براہ راست تشریح /اجتہاد کرتے ہیں اور اس ضمن میں مقاصد شریعت کو خصوصی طور پر پیش نظر رکھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر صہیب حسن—جو پاک و ہند کے مشہور عالم دین مولانا عبد الغفار حسن مرحوم کے بیٹے ہیں نے 2018 میں میرے ساتھ "شریعہ کونسل لندن” میں ایک ملاقات کے دوران اس وقت کیا جب وہ یورپین کونسل کے نائب صدر کے عہدے پر مامور کیے جا چکے تھے۔

واضح رہے کہ اس کونسل کے صدر اور مؤسس عالم اسلام کے مشہور سنی فقیہ علامہ یوسف القرضاوی ہیں۔ ڈاکٹر صہیب صاحب سے میری کئی علمی مجلسیں ہوئی ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جہاں علوم حدیث میں گہرا ملکہ عطا کیا ہے وہاں فقہی بصیرت سے بھی نوازا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس کے پیش نظر بہت سے اہم دینی مسایل پیدا ہوئے ہیں جن پر دینی رہنمائی کے لیے آپ کی صدارت میں کونسل کا چار روزہ (25-28 مارچ 2020) ویڈیو اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے ماہر مسلمان طبیب بھی شریک ہوئے اور طویل غور و خوض کے بعد اس میں 21 مسایل پر فتویٰ دیا گیا جن کی ترجمانی ایک خلاصہ کے طور پر یہاں کی جا رہی ہے۔ (تفصیلی دلائل کے لیے مذکورہ کونسل کے فتویٰ کی اصل عربی عبارت ان کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے)۔ واضح رہے کہ اس فتوے کی تمہید میں کونسل نے آفات و بلیات میں توکل اور تدبیر میں متوازن نقطہ نظر اختیار کرنے کو قرآن مجید کی روشنی میں ثابت کیا ہے۔

[pullquote] 1۔ کیا کرونا وائرس کی وبا عذاب ہے؟[/pullquote]

اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی نعمتیں عطا کر کے انسان کی آزمائیش کرتا ہے اسی طرح اس پر مصیبتیں ڈال کر بھی اسے آزماتا ہے۔(الأنبياء: 35)۔ اس لحاظ سے تمام نیک و بد اس کی نگاہ میں برابر ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے نافرمان بندوں سے دنیا میں "انتقام” نہیں لیتا اور آخری نبی علیہ السلام کی آخری امت پر ایسا عذاب وہ نازل نہیں کرے گا جس سے ساری امت اس طرح ہلاک ہو جائے جس طرح پہلے رسولوں کی نافرمان قوموں کو ہلاک کیا گیا، بلکہ وہ تو اپنے بندوں کے ساتھ رؤوف و رحیم ہے، مگر وہ انہیں مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تو اس کے پیچھے بہت سی حکمتیں (خدائی سکیم) کارفرما ہوتی ہیں، مثلاً بیماری دیکھ کر وہ صحت کر قدر کریں اور مصیبت دیکھ کر وہ خوشحالی کی نعمت کو پہچانیں (لقمان: 20)، اپنی عاجزی دیکھ کر اپنے مالک/خدا کو پہچانیں(فاطر:15)، اس سے دعا کریں اور مدد مانگیں(الأنعام: 43)، اپنے غلط کاموں پر متنبہ ہو جائیں(الشورى: 30)، ڈر جائیں، سنور جائیں (الإسراء: 59)۔۔۔

[pullquote]2۔ کرونا وائرس کی اس وبا میں ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟[/pullquote]

اس طرح کی آفات و بلیات میں ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایمانی/روحانی اور جسمانی دونوں طرح کی طاقت پیدا کر کے ان کے مقابلے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے کیونکہ بدنی اور روحانی/نفسیاتی طور پر بھی مضبوط ہونا بیماری سے بچاتا ہے۔ صحت اور طہارت و پاکیزگی کے جو ضابطے اسلام نے بیان کیے ہیں ان پر عمل پیرا ہو کر اس بیماری سے اپنا بچاؤ کریں۔ طاعون (متعدی بمیاری) والی جگہ سے نہ بھاگیں اور نہ وہاں جائیں(بخاری و مسلم)۔ اپنے فائدے کے لیے دوسرے کو نقصان نہ دیں اور نہ بلاوجہ کسی کو ضرر پہنچائیں (مؤطا)۔ کورونا جیسی وبا کے مضر اثرات سے جو لوگ واقف نہیں انہیں اس سے خبردار کرنا اور صحیح شعور عوام میں پیدا کرنا بہت اہم سنت نبوی ہے (اگر جہاز میں سوراخ (یعنی غلط کام) کرنے والوں کو نہیں روکو گے تو وہ تمہیں بھی ڈوبو دیں گے۔ بخاری)۔ بہترین مسلمان وہ ہے جو دوسروں کو فائیدہ پہنچائے۔ ایسے حالات میں اللہ کی طرف عاجزی دکھائیں اور سچے دل سے دعا کریں، ورنہ آپ شیطان کی پیروی کرنے والے ہیں۔ (الأنعام/ 43)۔

[pullquote]3- کرونا وائرس کی صورت میں جمعہ و نماز باجماعت کا معطل کیا جانا؟[/pullquote]

جان کی حفاظت کے لیے کلمہ کفر کہنے کی بھی قرآن میں گنجایش دی گئی ہے (النحل: 106) اور محض سفر کی مشقت میں روزے مؤخر کرنے کی جب گنجایش ہے (البقرة: 184) ، تو پھر جمعہ اور جماعت کی نماز کو موقوف کرنے کی تو بالاولیٰ اجازت ہے۔ اس وقت کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہم ویسے ہی حالت اضطرار میں ہیں اور ایسی حالت میں قرآن و سنت کے مطابق جان بچانا اولین ترجیح ہے۔ یہ وائرس کئی اعتبار سے خطرناک ہے اور اس کا کیرئیر کئی دنوں تک دوسروں میں اسے منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسا کہ ماہرین کی رائے ہے تو مسجد میں پانچ بار مختلف نمازیوں کو جمع ہونا اور ایک ہی جگہ یکے بعد دیگر ان کا سجدہ کرنا اور دیگر میل ملاپ اور قربت کی صورتوں کی وجہ سے مسجد اس بیماری کو پھیلانے کا ایک بڑی وجہ بن سکتی ہے۔ ایسے معاملات میں حدیثِ طاعون (طاعون (متعدی بمیاری) والی جگہ سے نہ بھاگیں اور نہ وہاں جائیں(بخاری و مسلم) اور بارش کے وقت گھر نماز پڑھنے کی اجازت والی حدیث (بخاری و مسلم) میں ہمیں رہنمائی ہے کہ ہم گھر میں نماز پڑھیں تاوقتیکہ یہ آفت ٹل جائے۔ ایک مرتبہ جمعہ کے روز بارش کی وجہ سے ابن عباس نے اپنے مؤذن سے کہا کہ آج اذان میں حی علی الصلوۃ کی بجائے صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ کہو۔ لوگوں نے جمعہ کے دن مسجد نہ آنے کے اس اعلان پر برا منایا تو ابن عباس نے کہا کہ یہ تو اس ذات (رسالت مآبؐ) کی سنت ہے جو ہم سے بہت بہتر تھی!( بخاری و مسلم) ایک حدیث میں ہے کہ اگر کوئی اذان کی آواز سن کر اس لیے مسجد میں نماز کے لیے نہ آئے کہ اسے کوئ خوف یا مرض لاحق ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں( أبو داود والنسائي)۔

[pullquote]4۔ موجودہ حالات میں الیکٹرانک جمعہ جائز نہیں؟[/pullquote]

جب کبھی مجبوری کے پیش نظر مسجد میں جمعہ کی نماز نہ ہو سکے تو اس کا متبادل ظہر کی نماز ہے جو گھر پر ادا کی جائے گی۔ لیکن الیکٹرانک نماز جمعہ (ریڈیو، ویڈیو وغیرہ) اس کے متبادل کے طور پر درست نہیں۔ کیونکہ جمعہ امور تعبدیہ (توقیفی عبادات) میں سے ہے جس کی صرف وہی صورت شرعی قرار پائے گی جو پیغمبر علیہ السلام نے قایم فرمائی اور استثنائی حالات میں اس کا متبادل بھی آپ نے نماز ظہر کی صورت میں خود تجویز فرما دیا ہے۔

[pullquote]5۔ کیا گھروں میں جمعہ جائز ہے؟[/pullquote]

جب جمعہ امور تعبدیہ (توقیفی عبادات) میں سے ہے تو اس کی شرعی صورت یہی ہے کہ مسجد میں اس کا اہتمام ہو اور بالخصوص جامع مسجد میں ،جیسا کہ اسلامی روایت یہی رہی ہے اور کبھی اسے گھر پر ادا نہیں کیا گیا نہ شریعت نے اس کی کوئی مثال قایم کی، اس لیے گھر پر چند لوگوں کو جمع ہو کر نماز جمعہ کا اہتمام درست نہیں بلکہ یہ "بدعت” ہے۔ گھر پر جمعہ پڑھنے میں وہ مقاصد بھی حاصل نہیں ہوتے جو جمعہ کے قیام میں پائے جاتے ہیں۔ جن اہل علم نے حنفی فقہ سے اس کی گنجایش پیدا کی ہے انہوں نے فقہ حنفی کی باقی شرائط کو نظرانداز کرتے ہوئے غلط اجتہاد کیا ہے۔ فقہا نے تو ایک شہر میں صرف ایک جمعہ کو مستحسن قرار دیا ہے اور اس شہر کی باقی مساجد میں ہونے والے جمعہ کے اجتماعات کو بھی اچھا نہیں سمجھا تو پھر ہر گھر میں تین چار افراد کے ساتھ جمعہ کا اہتمام کیسے درست رویہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے گھروں پر اس وقت تک نماز ظہر ادا کریں جب تک حالات بہتر نہیں ہو جاتے۔ مسجد میں جمعہ اور باجماعت نماز کے موقوف کیے جانے کی کئی مثالیں پہلے بھی اسلامی تاریخ میں موجود ہیں۔ سير أعلام النبلاء (13/ 438).

6۔ اگر آپ کے شہر، بستی /گاؤں میں حکومت یا صحت کے مراکز کی طرف سے اجازت دی جائے کہ یہاں کورونا وائرس کی وبا نہیں ہے تو پھر مسجد میں نماز باجماعت اور جمعہ جاری رکھیں، لیکن اگر دونوں میں سے کوئی ادارہ اس کے برعکس خطرے سے آگاہ کرے تو پھر گھر پر نماز پڑھیں۔

[pullquote]7۔ کیا مسجد میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ جماعت کر لی جائے؟[/pullquote]

مسجدوں میں نماز باجماعت سنت مؤکدہ ہے اور کورونا وبا کے پیش نظر جان بچانا "واجب” ہے جسے سنت پر ترجیح دی جائے گی۔ اس لیے کسی مسجد میں یہ اہتمام کرنا کہ نمازی کئی فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہو کر نماز باجماعت ادا کریں، نہ صرف تکلف ہے بلکہ نماز باجماعت کی روح اور مقصد کے بھی منافی ہے کیونکہ جماعت میں مل جل کر کھڑے ہونا اور قربت کا اظہار وغیرہ مطلوب ہے جو موجودہ تکلف کی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے۔ پھر اگر یہ تکلف کر بھی لیا جائے تو اس کے باوجود مسجد میں جمع ہونے والوں کو اس وائرس سے بچانے کی کوئی گارنٹی آپ کے پاس نہیں کیونکہ لوگ ایک دوسرے سے قریب ہو کر ہی گزریں گے، ایک ہی جگہ یا دروازے کو کئی لوگوں کے ہاتھ لگیں گے اور اس طرح متعدی بیماری سے بچاؤ عملاً ناممکن ہی رہے گا۔

[pullquote]8۔ نماز، ذکر و استغفار اور دعاؤں کا اہتمام کرنا[/pullquote]

کسی ناگہانی آفت و مصیبت کے وقت اس سے بچاؤ کے لیے نماز، ذکر و استغفار اور دعاؤں کا اہتمام کرنا قرآن مجید(سورۃ البقرۃ: 45، 153) اور سورج گرہن وغیرہ سے متعلقہ حدیثوں (بخاری) کے عمومی دلائل کی روشنی میں جایز بھی ہے اور ایک اسلامی روایت بھی۔ اس لیے موجودہ وبا سے بچاؤ کے لیے بھی کوئی ایسی عبادت (جیسے نماز، ذکر و استغفار اور دعا وغیرہ) کرنا جائز ہے خواہ اس کا کوئی وقت متعین کر کے ایسا کیا جائے، کیونکہ شریعت نے ایسا کرنے سے منع بھی نہیں کیا، البتہ اس بارے دو شرطیں مدنظر رہنی چاہییں:

(1) جو عمل کیا جائے اس کا کرنا (مطلقاً) شریعت سے ثابت ہو مثلاً جیسے رات کو نفل پڑھنا (قیام اللیل)، دعا مانگنا اور ذکر کرنا مطلقا شریعت سے ثابت ہے تو یہ اعمال کسی بھی وقت مصیبت کے دنوں میں انجام دئیے جا سکتے ہیں۔

(2) جس وقت کو ان میں سے کسی عمل/عبادت کے لیے خاص کیا جائے، یا جس طریق کار کو اس عمل کی انجام دہی کے لیے متعین کیا جائے، اس خاص وقت اور اس خاص طریق کار کے بارے میں یہ عقیدہ نہ رکھا جائے کہ ان کی کوئی خاص فضیلت شریعت میں بتائی گئی ہے۔

9۔ موجودہ وبا کی وجہ سے زکاۃ کو اس کے سال پورا ہونے کے وقت سے پہلے بھی ادا کیا جا سکتا ہے اور جمہور فقہا نے جامع ترمذی کی ایک حدیث کی بنیاد پر اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔

10۔ غیر مسلموں کو بھی یہ دعا دی جا سکتی ہے کہ اللہ انہیں کرونا وبا سے شفا اور نجات دے کیونکہ حدیث میں ہے کہ "لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ” (ترمذی) اور دوسری حدیث میں ہے کہ "تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرو جو اپنے لیے کرتے ہو”(بخاری و مسلم)۔ ان حدیثوں کے عمومی اطلاق کی روشنی میں غیر مسلموں کے حق میں دعا کرنا جائز ہے اور کئی کلاسیکل فقہاء نے ماضی میں اس سے یہ استدلال بھی کیا ہے۔

11۔ کرونا وبا میں مبتلا شخص کو برابھلا کہنا درست نہیں بلکہ اس سے نرمی اور رحم والا سلوک کیا جائے۔ اس کے وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر ضرور اختیار کی جائیں، خاص طور پر اس کا علاج کرنے والا احتیاط کرے۔ بہتر ہے ایسے موقع پر یہ دعا پڑھی جائے: (الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلاكَ بِهِ ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا) آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے بیماری میں مبتلا شخص کو دیکھ کر یہ دعا پڑھی، اللہ تعالیٰ اسے زندگی بھر اس بیماری سے ضرور بچائے گا خواہ وہ بیماری کتنی منہ زور ہی کیوں نہ ہو!(ترمذی)

12۔ کرونا وائرس کے مریض پر دم کرنا جائز نہیں کیونکہ اس کے قریب جانے میں خود مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔ شرعی دم بنیادی طور پر دعا ہے، اس لیے مریض کے لیے دعا کی جائے اور یہ کام آپ دور سے بھی کر سکتے ہیں۔ متعدی بیماریوں میں ڈاکٹروں کی ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔

13۔ کرونا وبا میں جب گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی جائے تو اس پابندی پر عمل ضروری ہے، الا یہ کہ کوئی بہت ہی مجبوری کی ایسی صورت ہو جس کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو جائے تو احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایسا کیا جائے۔ اگر کسی کے گھر سے باہر نکلنے اور غیر محتاط رویے سے کوئی دوسرا شخص کرونا کا مریض ہو کر ہلاک ہوا تو خطرہ ہے کہ کہیں اس پر شبہ قتل کا حکم نہ لگانا پڑ جائے۔ (تفصیل نکتہ نمبر 16 میں)

14۔ جہاں کرونا جیسی خطرناک متعدی بیماری پھیل چکی ہو وہاں سے جان بچانے کے خوف سے دوسرے علاقوں میں جانا درست نہیں۔ اس سلسلہ میں حکومتی انتظامی اقدامات پر سختی سے عمل کریں۔

15۔ مصافحہ کرنا اگرچہ سنت ہے، مگر متعدی وبا کے ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے کے خوف کے پیش نظر اس سے رکنا ضروری ہے۔ آنحضرتؐ نے کوڑھ (جذام) کے مریض سے مصافحہ نہیں کیا، بلکہ اسے واپس گھر جانے کا حکم دیا۔

16۔ کرونا وبا میں احتیاطی تدابیر کے پیش نظر دوسرے لوگوں سے علیحدہ رہنا ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی کی بے احتیاطی سے کوئی شخص کرونا کا مریض ہو کر ہلاک ہوا تو اس پر دیت دینا لازم ہے۔ لیکن اگر اپنی بھر پور احتیاط کے بعد کہیں ایسا ہوا تو پھر یہ قابل معافی تصور کیا جائے گا۔

17۔ ناگہانی حالات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ذخیرہ اندوزی کرنا اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرنا سخت گناہ اور قابل مؤاخذہ ہے۔

18۔ ہسپتالوں میں ناگہانی آفات، جب طبی آلات کی کمی واقع ہو جائے، میں مریضوں کو بچانے کے لیے ڈاکٹروں کو انتظامیہ/حکومت کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے، لیکن اگر کہیں معاملات خود ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ تمام طبی، اخلاقی و انسانی اصولوں کی خود بھی پابندی کرے۔ اگر پہلے سے ایک مریض کو طبی آلات لگے ہوں تو نئے مریض کو بچانے کے لیے وہ آلات نہ اتارے جائیں، الا یہ کہ پہلے مریض کے بچنے کے اسے کوئی امکانات نظر نہ آئیں۔ اسی طرح جہاں جس مریض کو زیادہ ضرورت ہے وہاں اسے ترجیح دی جائے، جس کے بچنے کی امید ہے اسے نہ بچنے والے پر ترجیح دی جائے۔ اور یہ ڈاکٹر کی صوابدید پر چھوڑا جائے گا۔

19۔ اس وقت کرونا ایک خطرناک عالمی وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے، عالمی آمد و رفت بند کر دی گئی ہے، حرمین کو بند کر دیا گیا ہے، بیماری کے پھیلاؤ سے بچاؤ کے اسباب کی وجہ سے کرونا سے مرنے والوں کے غسل، تکفین، نماز جنازہ اور تدفین کیسے کی جائے گی؟

ظاہر ہے حالات کے بدلنے سے احکام میں تبدیلی کی خود شریعت میں گنجائش ہے۔ مجبوری اور اضطرار میں رخصت اور سہولت کے قواعد پر عمل کی قرآن میں اجازت دی گئی ہے (البقرة/286)، (الحج/78)۔ ان قواعد کی روشنی میں کونسل یہ رائے اختیار کرتی ہے کہ

[pullquote](1-غسل میت کا مسئلہ)[/pullquote]

ہسپتال سے موصول ہونے والی کرونا مریض کی میت کو اسی پیکنگ یا تابوت میں بغیر غسل اور تیمم کے دفن کیا جائے گا جو ہسپتال کے عملے نے احتیاطی تدابیر کے ساتھ تیار کر دیا ہے۔ آپ کو ملکی قانون میں غسل/تیمم کی اجازت دے بھی دی جائے تب بھی شرعی طور پر آپ ایسا نہیں کریں، کیونکہ جب ہم روز دیکھ رہے ہیں کہ ہسپتالوں کا تربیت یافتہ عملہ جو ذمہ داری انجام دینے کے لیے کرونا مریضوں کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں، تمام ضروری احتیاطوں کے باوجود اس متعدی بیماری میں مبتلا ہوا جا رہا ہے تو پھر یہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ میت کو غسل دینے والے گلی محلے کے عام لوگ اس بیماری سے بچنے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ اکثر کے پاس نہ ضروری سامان ہے اور نہ وہ تربیت جو اس سلسلہ میں مطلوب ہے۔ میت کو غسل دینا اس کے حق میں یا واجب ہے یا سنت، جیسا کہ فقہا نے تصریح کی ہے، جبکہ زندہ شخص کو اس کے متعدی بیماری سے بچانا میت کے مذکورہ حق پر قابل ترجیح ہے خواہ اس کی بنیاد ہمارے پاس ظن غالب ہے اور وہ فقہی احکام میں کافی ہے۔ علاوہ ازیں طاعون اور ایسی وباؤوں میں فوت ہونے والوں کا اجر تو پہلے ہی بتا دیا گیا پھر ان کی غسل کے بغیر تدفین کی مذکورہ صورت کو ان کے حق میں کسی برائی پر محمول نہ کیا جائے۔

[pullquote](2- کرونا میت اور نماز جنازہ کا مسئلہ)[/pullquote]

نماز جنازہ عام حالات میں بھی فرض کفایہ ہے، اس لیے اگر تین لوگ بھی میت کا جنازہ پڑھ لیں تو وہ کافی ہے، ورنہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھ لیا جائے خواہ انفرادی طور پر ہی سہی۔ اس سلسلہ میں بعض شافعی اور حنبلی فقہا کی یہ رائے اپنائی جا سکتی ہے کہ اگر نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی عذر مانع ہو تو غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور مذکورہ خطرناک وبا ایک بہت واضح عذر ہے۔

[pullquote](3- کرونا میت کی تدفین کی جگہ) [/pullquote]

شرعی طریقہ یہی ہے کہ ایک مسلمان کو اسی جگہ دفنایا جائے جہاں وہ فوت ہوا ہے، اسی لیے مسلمان ہمیشہ اپنے ہر علاقے میں قبرستان بناتے آئے ہیں۔ لیکن موجودہ ناگہانی حالات میں اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تو اس کے متبادل کے طور پر میت کو کہیں بھی دفن کیا جا سکتا ہے حتی کہ غیر مسلموں کے قبرستان میں بھی، کیونکہ مسلمان میت کے لیے آخرت میں فائدہ مند وہ زمین نہیں جہاں وہ فوت ہوا ہے بلکہ اس کے اعمال ہیں۔ (جیسا کہ مؤطا میں حضرت سلمان فارسی سے مروی ہے)۔

[pullquote]20- کیا کرونا سے مرنے والے کی میت کو جلایا جا سکتا ہے اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں؟[/pullquote]

نہیں، مسلمان میت کو جلانا اس کے شرف اور حرمت کے منافی ہے۔ میت کو زمین میں دفن کیا جائے یہی قرآن اور سنت رسول سے ثابت اسلامی روایت ہے۔ ہمیں ہر جگہ اس کی حمایت میں آواز اٹھانی چاہیے اور یورپ میں لاش کو جلانا ایک اجباری نہیں بلکہ اختیاری معاملہ ہے اور مسلمان زمین میں دفن کے طریقے پر کاربند رہیں۔

21- کیا کرونا سے مرنے والے مہاجر/مسافر شخص کو اس کے آبائی ملک/شہر لے جانا درست ہے، بطور خاص جب اس نے ایسی کوئی وصیت بھی کر رکھی ہو؟ لیکن جب نقل و حمل کے ذرائع بھی معطل ہوں تو پھر اس کی صورت کیا ہو گی؟

عام حالات میں بھی اصول یہی ہے کہ مرنے والے کو جلد از جلد اور اسی جگہ دفن کر دیا جائے جہاں یا جس ملک میں وہ فوت ہوا ہے اور وبا جیسے استثنائی حالات میں تو ایسی وصیت پر عمل کرنا ویسے ہی ممکن نہیں۔ اس لیے جہاں جو فوت ہو وہیں مسلمانوں کے قبرستان میں اس کی تدفین کی کوشش کی جائے۔
اصل عربی متن اور دلایل کی تفصیل کے لیے دیکھیے:

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے