ایک ٹکے کا آدمی

یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی صبح میں نرم گرم لحاف میں سے نکل کر وضو کیا جائے اور پھر مسجد میں یا گھر پر نماز ادا کی جائے۔ماہِ رمضان کے مبارک مہینے میں ہزار نعمتوں کی موجودگی میں سحری سے افطار تک کھانے پینے سے گریز کیا جائے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ نمازِ تراویح کے لئے آدھی آدھی رات تک رکوع و سجود اور قیام کرتے ہیں، لاکھوں روپے صرف کر کے حج اور عمرے کرتے ہیں، محافلِ نعت میں شریک ہوتے ہیں، نذر نیاز کرتے ہیں، سال کے بہت سے مہینوں میں مجالسِ عزا منعقد کرتے ہیں، عید میلاد النبیؐ پر شہروں کو بقعہ نور بنایا جاتا ہے۔ ان سب کاموں کے لئے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن ہمارے علمائے کرام نے ان کاموں کی فضیلت پر بہت زور دیا ہے اور اپنی سحر بیانی سے لوگوں کو اس طرف مائل کیا ہے یوں اس کا کریڈٹ یقیناً ہمارے علمائے کرام کو جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ انہوں نے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق ان نیک کاموں کی رغبت دلائی بلکہ ایک اور بہت مشکل کام بھی ان سے لیا۔ ہمارے علمائے کرام کی کوششوں سے عوام کی ایک معقول تعداد انگریزی لباس و اطوار چھوڑ کر اسلامی شکل و شباہت اختیار کرچکی ہے اورحضورنبی اکرم ﷺ کی بہت سی سنتوں پرعمل پیرا ہونے کی کوشش کرتی ہے۔

میں علما کی ان کامیابیوں کے پیش نظر ان کی توجہ حضورﷺ کی اور بہت سی سنتوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جن پر عمل بظاہر آسان لیکن درحقیقت ان سے زیادہ مشکل ہے جن پر علما نے عوام کو کافی حد تک عمل پیرا کر دیا ہے تاہم میری خواہش ہے کہ جس طرح علما نے اپنے زورِ بیان سے عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق باقی نیکیوں کی طرف مائل کیا ہے وہ اسی جذبے سے حضورؐ کی باقی سنتوں پر بھی عمل پیرا ہونے کی تلقین کریں۔ مثلاً ایک سنت یہ ہے کہ سلام پر سبقت لی جائے، جو سلام میں سبقت کرے گا اس کے درجات مزید بلند ہوں گے۔ حضورﷺ سے زیادہ بلند رتبہ کس کا ہے؟ مگر وہ سلام میں ہمیشہ سبقت فرماتے تھے۔ اسی طرح حضورﷺ جب کسی مجلس میں بیٹھے ہوتے تھے تو وہ خود کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے چنانچہ باہر سے آنے والے کسی اجنبی کے لئے یہ جاننا مشکل ہو جاتا تھا کہ ان میں سے محمد(ﷺ) کون ہیں؟ حضورؐ کی اس سنت پر بھی عمل کیا جائے۔ حضورؐ نے کاروبار میں دیانت کا رویہ اپنایا۔ حضورؐ نے کبھی غیبت نہیں کی۔ حضورؐ کی زبانِ مبارک سے کبھی جھوٹ کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ حضورؐ نے رواداری کا حکم دیا ۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی عفو و درگزر سے کام لیا اور یوں نبیٴ رحمت کہلائے!

میں اس حوالے سے کسی جید عالمِ دین سے بات بھی کرنا چاہتا تھا لیکن بدقسمتی سے میری ان تک رسائی نہیں ہو سکی۔ لے دے کر انہی مولوی صاحب سے ملاقات ہوئی جن سے میری دیرینہ شناسائی تھی۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے اپنے زورِ بیان سے لوگوں کے حلیے تبدیل کر دیے، انہیں عبادات کی طرف راغب کیا لیکن جن شرعی احکام کا تعلق معاشرتی رویوں سے ہے اس کی جانب کبھی پوری توجہ مبذول نہیں کی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ بولے ’’آپ اس حوالے سے کوئی مثال دیں!‘‘ میں نے جواب دیا ’’مثلاً یہ کہ لوگ حج اور عمرے بھی کرتے ہیں مگر ہیر پھیر سے بھی باز نہیں آتے، ملاوٹ کرنے، کم تولنے، جعلی ادویات بنانے، ذخیرہ اندوزی کرنے ایسے گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں، آپ اُن کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ بولے ’’تبدیلی لائے تو ہیں، ماشاء اللہ اب ان کی ایک تعداد نماز روزے کی بھی پابند نظر آتی ہے!‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا اللہ کے حقوق ادا کرنے کے بعد اس کے بندوں کے حقوق غصب کرنے کی اجازت مل جاتی ہے؟‘‘ مولوی صاحب نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ میں نے پوچھا ’’اور یہ سلام میں سبقت، محفل میں خود کو نمایاں نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا، وعدہ خلافی نہ کرنا اور غیبت نہ کرنا۔ ان سنتوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ یہ سن کر مولوی صاحب ہنسے اور کہا ’’تم کیوں ہم لوگوں کے پیچھے پڑ گئے ہو، کیا ہم اپنے کسی مرید کو سلام کرتے، محفل کے کسی کونے میں بیٹھے اور گن مینوں اور عقیدت مندوں کے ہجوم کے بغیر گھر سے نکلتے اچھے لگتے ہیں؟‘‘

مولوی صاحب کی یہ بات سن کر اس دفعہ میں نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’حضرت! آپ صحیح فرماتے ہیں آپ جیسے لوگ واقعی اس کرّوفر کے بغیر ایک ٹکے کے بھی نہیں ہیں۔ مجھے موقع ملا تو کسی عالمِ دین سے بات کروں گا اور پوچھوں گا کہ کیا حضورؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے کسی مسلمان کے درجات بلند ہوتے ہیں یا وہ نعوذ باللہ ایک ٹکے کا رہ جاتا ہے؟‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے