مذہبی سیاست بند گلی میں

میرا یہ تجزیہ معروف دینی تحریکوں کا جزو رھنے ، ان کی آئیڈیالوجی کو دل وجان سے قبول کرنے ، ان کے ھفتہ وار دروسِ قران میں کارکنوں کے جذبات کو گرمانے اور سالوں تک نئے لوگوں کو ان کا رکن بنانے کی سعی کرنے اور پھر اس ساری جدوجہد کے نتیجے کو دیکھ لینے کے بعد باھر سے کسی سیکولر صحافی کا نہیں بلکہ اندر کے ایک بھیدی کا تجزیہ ھے ،جس نے بڑے بڑے بزرگوں کی جلوتوں اور خلوتوں سے استفادہ کیا ،، ان سے سوال وجواب کے ذریعے ان کی مستقبل کی منصوبہ بندیوں کو جانا اور پھر ان کا انجام بھی دیکھا ، پھر بین الاقوامی طور پر بھی ان دینی و مذھبی سیاسی جماعتوں کی مساعی کو دیکھا ان کا لٹریچر پڑھا اور پھر ان کی جدوجہد کو ایک غلط رخ پر جاتے بھی دیکھا ،، لہذا مثالوں میں ان کے متعلق بھی عرض کیا جائے گا.

………………………………………………………

ھم نے دین کے متعلق ھمیشہ عملی سے زیادہ جذباتی رویہ اختیار کیا ، اور بند کمروں میں گرین ھاؤس فارمز کی طرح اپنے دروس اور مواعظ سے لے کر محراب و منبر تک ھر جگہ اپنی لفاظی سے وہ منظر باندھ کر دکھایا کہ گویا بس یہ اسلام آیا کہ آیا ۔

ھم جونہی اسلام آباد یا کسی بھی ملک کے دارالخلافے میں مسندِ اقتدار تک پہنچیں گے تو خلفاء راشدین کا سا سماں باندھ کر رکھ دیں گے ، پھر اپنی اسلامی تاریخ کے چند گنے واقعات کو پیش کر کے یوں ثابت کیا کہ گویا ھمارا سارا ماضی اسی قسم کے واقعات سے عبارت تھا اور آج دنیا ان مناظر کو دھرانے کے لئے بے قرار ھے ،بس چند لوگ ھیں جو اس کی راہ میں حائل ھیں ، چند حکمران یا پارٹیاں یہ کام نہیں ھونے دے رھیں ورنہ دینے والے ھوتے مگر لینے والا کوئی نہ ھوتا ، وغیرہ وغیرہ

Husain-Pakistan-Jihadi-20120223

ھمارے سامعین اور قارئین دونوں میں یکساں مزاج اور ذھنی صلاحیتوں کے لوگ نہیں ھوتے . کچھ لوگ یو-ٹوپیئے کا شکار ھوتے ھیں جو ھمارے بیان کردہ مناظر کو گویا اپنے تصور میں تصویر کی صورت دیکھ بھی رھے ھوتے ھیں ،خطیب ایسے لوگوں کو ھپناٹائز کر کے جو چاھے کروا لے مگر ایک وقت آتا ھے کہ یہی لوگ اس دینی جماعت کے لئے بوبی ٹریپ اور بارودی سرنگ کا کام کرتے ھیں ، اس کی وجہ یہ ھے کہ جب انہیں بند کمرے میں یہ یقین دلا دیا جاتا ھے کہ باھرجنوری فروری ھے اور شدید سردی پڑھ رھی ھے ان کو عقلی طور پر ڈبل سوئیٹر پہنا دیئے جاتے ھیں .

سرد ھواؤں سے بچنے کے لئے کان لپیٹ دیئے جاتے ھیں اور آنکھوں پہ چشمے چڑھا دیئے جاتے ھین ، وہ کارکن اس تصور کو لئے جونہی کمرہ درس سے باھر نکلتا ھے تو اچانک اس کو اگست کی شدید گرمی اور کڑکتی دھوپ کا سامنا کرنا پڑتا ھے ،پھر یہ ھر دن اور ھر ھفتے کی روٹین بن جاتی ھے تو اس کارکن کے اندر اپنے خطیب کے تخیلاتی تخلیق کردہ جنوری فروری کی بجائے باھر کے حقیقی اگست پر غصہ آنا شروع ھو جاتا ھے ،،،،،،،،،، اور یہی وقت اس کارکن کے ایک شدت پسند بننے کے مرحلے کا آغاز ھوتا ھے ،،

پروپیگنڈہ ھمیشہ دشمن کے خلاف اور دشمن کے لئے ھوتا ھے، مگر دینی سیاسی جماعتیں ھر الیکشن میں خود اپنے کارکنوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے لئے پروپیگنڈہ کرتی ھیں ،

Religoius Parties

انہیں باھر کے لوگوں کو باور کرانا چاھئے کہ وہ 100 سیٹیں لے جائیں گے ،مگر اپنے کارکنوں کو سچی بات بتا دینی چاھئے کہ تین کی امید بھی مت رکھنا ،، مگر ایسا ھوتا نہیں بلکہ ان کے اپنے کارکن بھی یہی سمجھ لیتے ھیں کہ وہ 100 سیٹیں جیت لیں گے ، وہ جماعت پر دباؤ ڈالتے ھیں کہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ منٹ کر کے اپنی ھاتھ آئی ھوئی سیٹ مت گنوائیں اور پھر نتائج ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیتے ھیں جبکہ جذبات بھڑک اٹھتے ھیں۔

وہ سمجھتے ھیں کہ یہ معاشرہ ھمارے خلوص واخلاص کا قدردان نہیں ھے ، جو ان سے لیتے نہیں بلکہ ان کے بہتر مستقبل اور ان کو عدل و انصاف فراھم کرنے کے لئے بیویوں کے زیور بیچ کر الیکشن پر خرچ کر دیتے ھیں کہ ان کو کرپشن سے پاک قیادت فراھم کی جائے مگر یہ لوگ کرپٹ لوگوں کو چن لیتے ھیں ، لہذا یہ لوگ بھی اس کرپٹ نظام کے ممد ومعاون اور سزا کے حقدار ھیں ۔

آپ اپنے یہاں کی نہیں بیشتر اسلامی ممالک کی شدت پسند اور دھشت گرد تنظیموں کا بیک گراؤنڈ دیکھ لیں ان کے تانے بانے جا کر مذھبی سیاسی جماعتوں سے ھی جاکر ملتے ھیں ، جوں جوں یہ لوگ الیکشن کے ذریعے اپنی منزل حاصل نہیں کر سکتے ،یہ خود معاشرے کے ھی دشمن بن جاتے ھیں ،

پاکستان میں صوفی محمد سمیت کئ لوگ جماعت اسلامی کا حصہ رہ کر دوسری انتہاء کو پہنچ گئے ،

مصر کی سلفی تکفیری تحریک جو سارے لوگوں کو اسلام کی راہ میں روڑا سمجھ کر کافر اور واجب القتل تصور کرتی ھے ، سوائے ان کے کہ جو اس کے رکن ھیں ۔ یہ بھی وھاں اخوان المسلمون کے اندر سے ھی الگ ھوا ایک دھڑا ھے ،

الجزائر میں جب الیکشن جیت کر بھی وھاں کی جماعت اسلامی کو اقتدار سے الگ رکھا گیا تو اس کی سیاسی قیادت تو جیل چلی گئ اور پارٹی کو سخت گیر کارکنوں نے ھائی جیک کر لیا اور پوری پارٹی کو دھشت گرد بنا دیا ،

یہ لوگ اس قدر انسانیت دشمن تھے کہ جس گھر میں داخل ھوتے نہ 90 سال کی دادی کو زندہ چھوڑتے نہ پوتی اور پڑپوتی کو ،، جب وہ اس گھر سے نکلتے تو کوئی سانس لینے والا اس گھر میں باقی نہیں ھوتا تھا ،،

یہ حال تو ان تنظیموں اور جماعتوں کا ھے جو اقتدار تک نہیں پہنچیں ، جو پہنچ گئیں وہ اپنے وعدوں کے مطابق وہ کر کے نہ دکھا سکیں جس کے خواب وہ دھائیوں تک لوگوں کو دکھاتے رھے تھے ، اس کی وجہ یہ ھے کہ جب تک پارٹی پارلیامنٹ میں نہیں پہنچتی تب تک اس کو اپنی شوری یا پولٹ بیورو یا سنٹرل ورکنگ کمیٹی چلاتی ھے ،لیکن جب وہ حکومت بناتی ھے تو اسے اپنی پارٹی شوری کی بجائے ملکی شوری کے مشورے پر چلنا پڑتا ھے کہ کس پالیسی کے تحت قرضے ملیں گے ،ورنہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا ،، اور سب کچھ چوپٹ ھو جائے گا ، ایسی پارٹی نہ ادھر کی رھتی ھے اور نہ اُدھر کی ،

talibanization-of-pakistan-jamia-hafsa-madrassa-hafsa1

وزیرِ اعظم جب اپنی پارٹی کی شوری میں شریک ھوتا ھے تو وھاں کی فضا اور مشورے پارٹی لیول کے ہی ھوتے ھیں ،وہاں یہ مشورہ دیا جاتا ھے کہ آپ کو کوئی کمپرومائز نہیں کرنا، آپ نے کوئی قرضہ نہیں لینا ورنہ پارٹی اگلے الیکشن میں کیا منہ دکھائے گی ،، آپ پارٹی سے دشمنی کر رھے ھیں جس نے آپ کو اقتدار تک پہنچایا ،الغرض وہ صدر ھو یا وزیرِ اعظم ایک کنفیوز شخص بن کر رہ جاتا ھے ، نہ پارٹی کے کام کا اور نہ حکومت کے کام کا ،

محمد مرسی کو پارٹی نے مروایا ھے وہ بس پارٹی کا صدر بن کر ملک چلا رھا تھا نہ کہ مصر کا صدر بن کر ،، نتیجہ سب کے سامنے ھے ،،

اللہ کے رسول ﷺ نے غزوہ خندق میں یہودی قبائل کو مدینے کی آدھی فصل دینے کی پیش کش کی تھی اگر وہ مشرکین کے لشکر سے الگ ھو جائیں اور مدینے کے حلیف کے طور پر کئے گئے معاھدوں کی پابندی کریں ،، یہ ایک کمپرومائز تھا ،، جب ملک چلانا ھو تو آئیڈیالوجی کو اپنی جگہ رکھتے ھوئے ، موجود وسائل کی بنیاد پر حقیقت پسند پالیسی اپنانی پڑتی ھے ،

ھمارا آئیڈیل پجیرو اور کروزر ھو سکتی ھے مگر ھم گاڑی وھی لے سکتے ھیں جس کو خریدنے کے پیسے ھماری جیب میں ھوتے ھیں ، مگر اسلامی جماعتیں اپنے دروس اور مواعظ ،اپنی تربیت گاھوں مین اتنی افیم کھلا چکی ھوتی ھیں کہ اپنے کارکن کے ذہن میں مسلمانوں کے حسین اور شاداب سنہرے ماضی کے اتنے سبز باغ دکھا چکی ھوتی ھیں کہ اب وہ اس ٹرانس سے باھر آنے اور کوئی کمپرومائز کرنے کا تیار ھی نہیں ھوتا

ھماری تربیت گاھوں میں وھی ھوتا ھے جو پہاڑوں کی کھوہ میں فدائی تیار کرتے وقت ھوتا ھے ، ھم اپنے ماضی کو اتنا حسین اور جوان بنا کر پیش کرتے ھیں کہ بوڑھے بھی عاشق ھو جاتے ھیں ،

حقیقت یہ ھے کہ ابتدائی پچاس ، ساٹھ سال کو چھوڑ کر 1400 سال کی ھماری نام نہاد اسلامی خلافتیں جو کہ اصل میں بس سلطنتیں تھیں ،، اس سے 360 ڈگری مختلف اور بھیانک تھیں کہ جس کا نقشہ آج ھم کھینچ کر نوجوان کو پاگل بنا دیتے ھیں ،اور جب وہ نقشہ جائز اور قانونی ذرائع سے خود بنا کر دینے میں ناکام ھو جاتے ھیں ، تو وہ جوان اسے بزورِ بازو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے ، اور یوں دھشت گردوں کے ھاتھ بک جاتا ھے ،،

ھماری مذھبی سیاست کرنے والی دینی جماعتوں کے ھر الیکشن کے نتائج کے بعد بہت سارے لوگ دھشت گرد تنظیموں کے سہولت کار بن جاتے ھیں ، یہ بالکل وھی منظر ھے جب سالانہ امتحانات کے نتائج کے بعد نہروں کے پلوں پر پولیس کا پہرہ لگ جاتا ھے کیونکہ ناکام طلباء کے خودکشی کرنے کا سیزن ھوتا ھے

Religoius Parties

،گویا ھماری سیاست کرنے والی مذھبی جماعتیں نادانستگی میں دھشت گردوں کے ھمدرد پیدا کرنے والی فیکٹریاں بن چکی ھیں ، ان کا ھر الیکشن پاکستان کے عوام کے خلاف دھشت گردوں کی طرف سے تمام حجت کا کام کرتا ھے کہ دیکھ لو ووٹ کے ذریعے وہ اسلام کبھی نہیں آ سکتا جس کا خواب تمہیں ساٹھ سال سے دکھایا جا رھا ھے ،لہذا آؤ ھماری طرف اگر وہ دین نافذ کرنا ھے کیونکہ یہ کام تلوار سے ھی ھوتا آیا ھے اور اب بھی تلوار کے ذریعے ھی ھو گا ،،

دینی سیاسی جماعتیں آج بند گلی میں پہنچ چکی ھیں – وہ اپنے کارکنوں کو اپنی صحیح اور سچی تاریخ پڑھاتے ھیں تو وہ رومانس ھی ختم ھو جاتا ھے کہ جس کی بنیاد پر یہ گھر بسایا گیا تھا ،یہ جماعت بنائی گئ تھی ،اور اگر اپنی یہ روش جاری رکھتی ھیں تو ھر الکیشن کے بعد دھشت گردوں کے ھاتھ مضبوط ھوتے ھیں اور ان کا سیاسی مقدمہ کمزور پڑ جاتا ھے اب وہ کریں تو کیا کریں ،سیاسی طور پر وہ کچھ کر کے دکھا نہیں سکے ،، اور تلوار کے ذریعے نفاذ کے وہ بظاھر قائل نہیں یہی وہ مخمصہ ھے کہ جس میں وہ ھمیشہ فوج یعنی سرکاری تلوار کے ذریعے اسلام کے نفاذ کی سازش کرتے رھے اور فوج ان کو استعمال کر کے حکومت کرتی رھی ،یہی وجہ ھے کہ فوج بھی آج نشانے پر ھے ۔

دینی جماعتوں کو اپنے کام کی طرف توجہ دینی چاھئے اور معاشرے کی اصلاح کا کام کرنا چاھئے ، جو کہ نبیوں کا فرضِ منصبی تھا ، چند نبیوں کے سوا کبھی کسی نے حکومت نہیں کی ،، نوح علیہ السلام کی زندگی سب کے سامنے ھے اور زکریا و یحی علیہ السلام کی بھی ،، دین کی خدمت دین سمجھ کر کیجئے ، اور انسانیت کی خدمت بھی انسان سمجھ کر کیجئے ، صلے کو قیامت پہ چھوڑ دیجئے تا کہ آپ کا کیڈر مایوسی کا شکار نہ ھو اور دھشت گردی کی طرف مائل نہ ھو ، اپنی فلاحی سعی کو ھر د وچار سال بعد الیکشن میں کیش کرانے کی کوشش مت کیجئے۔

آپ اس عمل کو خیر باد کہہ دیں ،معاشرے کیے تزکیئے کی کوشش کیجئے ، حکومت بدلنے کی نسبت لوگوں کو بدلنا آسان ھے۔ انسان سازی کیجئے ۔ تبدیلی کو گھروں اور محلوں سے شروع کیجئے ،مگر اس سب میں اھم نکتہ یہ ھے کہ دو چار سال بعد کشکول لے کر ان کے در پہ سوالی بن کر مت جایئے کہ وہ آپ کی کھلائی گئ روٹی کا عوض آپ کو عطا کر دیں ،

اس دنیا میں انسان خدا کو صلہ نہیں دیتا آپ کو کوئی کیا دے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے