خیبرپختونخوا میں کروناٹیسٹ اور متاثرہ مریضوں کی مشکلات

خیبرپختونخوا کے اہم طبی اور جنیاتی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ صوبے میں وسیع پیمانے پر کرونا وائرس کے ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث متاثرہ افراد کی تعداد حکومت کے بتائے گئے اعداد و شمار سے کئی زیادہ ہیں اور اگر وسیع پیمانے پر معاشر ے کے مختلف طبقات کا ٹیسٹ کیا گیا، تو کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد صرف خیبرپختونخوا میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہوں گی، تاہم اس وقت خیبرپختونخوا حکومت کو متاثرہ مریضوں کے ٹیسٹ کے سلسلے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

[pullquote]خیبرپختونخوا میں کرونا سے متاثرہ مریضوں کے ٹیسٹ کہاں کئے جاتے ہیں؟؟؟ [/pullquote]

خیبرپختونخوا میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے تعاون سے ایک لیبارٹری خیبرمیڈیکل یونیورسٹی میں قائم کی گئی ہے ، جہاں حکومت کی جانب سے بھیجے گئے نمونوں کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ یہ لیبارٹری لیول تھری کی ہے اور یہاں پی سی آر مشینوں کے ذریعے کیا گیا ٹیسٹ مستند سمجھا جاتا ہے، تاہم بعض مریض سرکاری لیبارٹری کی بجائے پشاور میں قائم آغا خان اور شوکت خانم کے مختلف شاخوں سے دس ہزار روپےمیں یہ ٹیسٹ کراتے ہیں۔ ان لیبارٹریوں کے ٹیسٹ بھی مستند سمجھے جاتے ہیں۔خیبرمیڈیکل یونیورسٹی میں قائم لیبارٹری کی استعداد تقریباً 120سے 130تک روزانہ ٹیسٹوں کی ہیں۔ 2اپریل تک پشاور کے خیبرمیڈیکل یونیورسٹی سے تقریباً دو ہزار ٹیسٹ کئے گئے ہیں ، جس میں تقریباً 13فیصد ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔

[pullquote]خیبرپختونخوا میں کن افراد کے ٹیسٹ سرکاری لیبارٹری سے کئے جاتے ہیں؟؟؟[/pullquote]

خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ارشد جاوید کے مطابق ادارے میں قائم این آئی ایچ کی لیبارٹری میں تقریباً 130تک ٹیسٹ روزانہ کئے جاتے ہیں اور یہ حکومت کے مختلف ہسپتالوں سے بھیجے گئے نمونے کے ہوتے ہیں ، لیکن خیبر میڈیکل یونیورسٹی ہر شخص کا ٹیسٹ نہیں کرتا، اس کےلئے جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے، اکثر و بیشتر اسی پیمانے پر ٹیسٹ کئے جاتے ہیں،

[pullquote]پہلا پیمانہ[/pullquote]

مریض میں کرونا کے واضح اعلامات ہوں اور وہ تقریباً فائنل سٹیج پر ہو۔

[pullquote]دوسرا پیمانہ[/pullquote]

کسی مریض کے ٹیسٹ مثبت آئے تو ان کے گھر والوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے.

[pullquote]تیسرا پیمانہ[/pullquote]

متاثرہ مریض کی بیرون ملک سے آمد ہوئی ہو لیکن خیبر پختونخوا حکومت وسیع پیمانے پر ٹیسٹوں کا طریقہ کار نہیں اپناتی۔

[pullquote]طبی اور جنیاتی ماہرین کی رائے کیا ہیں؟؟؟[/pullquote]

خیبر پختونخوا کے بیشتر طبی اور جنیاتی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ محدود پیمانے پر کرونا کے ٹیسٹوں کی وجہ سے بیشتر افراد کرونا وائرس کے مبتلا افراد کا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا۔ طبی ماہرین مردان کے علاقے منگاہ کے ان 39 کیسوں کا حوالہ دیتے ہیں، جن کے ٹیسٹ تو مثبت آئے تھے، لیکن ان میں کرونا کی ایک بھی علامت موجود نہیں تھی۔ ماہرامراض سینہ ڈاکٹر مختیار زمان کہتے ہیں کہ وسیع پیمانے پر کرونا کے ٹیسٹوں کے لیبارٹریاں قائم کیں جائیں ، تاکہ ابتدائی سطح پر ہی اس مرض کا سد باب کیا جاسکے، تاہم لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پر کرونا ٹیسٹ کے اتنے فائدے سامنے نہیں آئیں گے، جتنا فائدہ مخصوص علاقوں کے ٹیسٹوں کا ہوگا، جہاں کوئی کیس سامنے آئے، فوری طورپر ان کے ملنے والے تمام افراد کا ٹیسٹ کیا جانا چاہئے۔

زرعی یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹرجہان بخت کا کہناہے کہ دنیا کے بیشتر ترقیافتہ ممالک میں وسیع پیمانے پر (ماس ٹیسٹنگ) کا طریقہ کار اپنایا جاتاہے، وہ متاثرہ مریضوں کو عمر کے لحاظ سے بھی دیکھتے ہیں اور ان کی درجہ بندی کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر جہان بخت نے امریکہ اور سنگاپور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ٹیسٹوں کے باعث اگرچہ ہزاروں کی تعداد میں متاثرہ مریض سامنے آرہے ہیں ، لیکن کئی ہزار افراد ان متاثرہ مریضوں سےعلیحدہ ہوکر اس موذی وائرس سے بچ جاتے ہیں۔

[pullquote]خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت کا موقف کیا ہے؟؟؟[/pullquote]

خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان سے رابطہ نہ ہوسکا، تاہم محکمہ صحت کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایاکہ خیبرپختونخوا حکومت کو براہ راست اور این ڈی ایم اے کے ذریعے ٹیسٹنگ کٹس تو ملی ہیں، لیکن لیبارٹریوں کی شدید قلت ہے، صوبائی حکومت اس وقت کوشش کررہی ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان ، کوہاٹ، ایبٹ آباد اور سوات میں پی سی آر لیبارٹریاں قائم کی جائیں ، تاکہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی پر دباؤ کو کم کیا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے