کرونا سے نظام کا یوٹرن

2019میں دریافت ہوئے نت نئے جراثیم کی تباہ کاریاں اب نئی بات نہیں رہی ہے۔ آئے روز اس جراثیم کی زد میں آنے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے بالخصوص دنیا کے بڑے ممالک کا نظام درہم برہم ہوکررہ گیا ہے۔ تمام عالمی قوانین اس وقت عضو معطل بنے ہوئے ہیں اور سب کی توجہ کروناجراثیم پر ہے۔ اقتصادی طور پر مضبوط ممالک میں اس کا پھیلاؤ زیادہ ہونے کے باوجود اس بات کا امکان ہے کہ وہ اس کو اپنی مدد آپ کے تحت جلد یا بدیر سنبھال پائیں گے جبکہ غریب اور تیسری دنیا کے ممالک کو صرف اور صرف ان بڑے ممالک پر انحصار کرنا ہوگا۔ اس وقت امریکی حکومت سمیت تمام ممالک کے حکومتیں اس بات کا شدید انتظار کررہے ہیں کہ کسی طریقے سے یہ صورتحال قابو میں آجائے تو اپنے معمول کے مسائل پر توجہ مرکوز کرسکیں۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ نظام بری طرح تباہ ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کرونا جراثیم کے پھیلاؤ سے قبل دنیا کیا کرتی رہی ہے؟

دوسری جنگ عظیم کے بعد کی تبدیلیوں نے طاقت اور مفادات کا رخ تبدیل کردیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل طاقت کا بلاواسطہ استعمال ہوا کرتا تھا، تاج برطانیہ میں سورج غروب تک نہیں ہوتا تھا۔ برصغیر سمیت دنیا کا کوئی ایسا کونا نہیں تھا کہ جو ان اثرات سے محفوظ رہا ہو۔ دنیا کی ریکارڈ ہلاکتیں انہی دنوں میں زور آزمائی کی وجہ سے پیش آئی ہے اور انسانیت کو اپنے زور آزمائی کی بھینٹ چڑھادی گئیں۔دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد طاقت کے مراکز کمزور ہوگئے، پھیلی ہوئی قوتیں سکڑتی گئیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنے پھیلاؤ پر معافی مانگ کر واپس چلے جائیں لیکن دنیا کے معاملات اخلاقیات پر نہیں چلتے ہیں بلکہ مفادات کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان طاقتوں نے اپنے پیچھے وہی نظام وضع کردیا جس کا تسلسل تاج برطانیہ کے رویہ سے ملتا ہے۔ اور جال ایسا بچھادیا کہ جتنی پھڑپھڑاہٹ اتنی ہی الجھن۔ یہ وہ معاملات ہیں جنہوں نے دنیا کو کمزور اور طاقتور میں تقسیم کردیا۔

آج کی دنیا کے بڑے ممالک میں جائزہ لیں تو ان کی آمدن کا زیادہ تر انحصار تیسری دنیا کے ان غریب ممالک پر ہی ہے۔ ان غریب ممالک کو ایسے مسائل میں الجھایا گیا ہے جن کا حل صرف ان امیر ممالک کے پاس ہے جس کے زریعے وہ اپنے ریاستی امور کو چلاتے ہیں۔ دہشتگردی، بدعنوانی، غربت اور مذہبی تفریقات، اور سستے مزدوروں کی پیداوار جیسے معاملات کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے زنجیر میں جکڑ لیا گیا ہے اور ان کے وسائل کو قبضہ کیا ہوا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس زنجیر کی کڑی اس وقت ہر اس فرد سے مل رہی ہے جس کے پاس کسی دوسرے سے طاقت زیادہ ہے اور ہر وہ فرد اس زنجیر میں پس رہا ہے جس کے پاس کسی دوسرے سے طاقت کم ہے۔

امریکہ اور چین آج کی دنیا میں صنعتی انقلاب کے سب سے زیادہ مستفید ہونے والے ممالک ہیں۔ ان ممالک کے پاس فطرت کو محفوظ کرنے اور ماحول کو صاف رکھنے جیسی چیزوں کی سرکاری طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دونوں ممالک ترقی کی دوڑ میں قدرتی وسائل کو تباہ کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں بھی دونوں ممالک کی طاقت ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی قرارداد یا قانون سازی نہیں ہوسکتی یا اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا ہے۔ماحولیاتی آلودگی اپنے عروج پر ہے، قدرتی وسائل کی لوٹ مار جاری ہے، جنگلات دنیا میں کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں، مصنوعی ترقی کے لئے تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرونا جراثیم پر قابو پانے کے بعد کیا دنیا واپس اسی معمول پر آجائے گی۔

ایک ارب سے زائد آبادی کو دنیا میں صاف پانی نہیں مل رہا ہے، اڑھائی ارب سے زائد آبادی کے پاس نکاسی کا نظام نہیں ہے اور سالانہ بیس لاکھ افراد صرف پانی سے درپیش مسائل اور بیماریوں کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ قدرتی وسائل کی تباہ کاریوں کی وجہ سے قدرتی آفات وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جس ماحول میں آپ جی رہے ہیں وہ متاثر ہورہا ہے اور صحت بخش نہیں ہے، اور غیر صحت بخش مقام پر جینے والا کوئی خود صحت مند کیسے رہ سکتا ہے؟ شاید قدرتی آفات کی شکل میں آنے والے ان صداؤں پر ہم نے غور نہیں کیا جس کی وجہ سے مسائل بڑھ گئے اور اس حد تک بڑھ گئے کہ اب پوری دنیا میں صرف ماحول ہے اور اس کے ساتھ بھی ماحول ہے۔

آئندہ دنوں میں عالمی سطح پر ہونے والے فیصلے اس عالمی وباء کا لازمی جز ہے جس نے آئندہ سالوں کی زندگی اور طریقہ کار کی راہیں متعین کردینی ہیں جس میں سیاست، ثقافت اور معیشت سبھی متاثر ہونگے۔ اگر ان فیصلوں کو انتہائی ناگزیر بنیادوں پر نہیں کیا گیا اور صرف اپنی ضرورت و آسائش کو مدنظر رکھ کرکیا گیا توماضی کے اسباق یہ بتاتے ہیں کہ یہ دیرپا نہیں ہوسکتا ہے۔ اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس کرہ ارض پر پیدا ہونے والا ہر فرد وسائل کا برابر کا حقدار ہے۔ورنہ کسی اور دیہانے پر پہنچ کر پھر کوئی اور نوول کرونا آئیگا اور نظام کو یوٹرن کرنے پر مجبور کرے گا۔

شہر کے حالات پر ایک تاثر یہ ابھر کے آیا ہے کہ لاک ڈاؤن کا اچھا نتیجہ سامنے آرہا ہے۔ متاثرین کرونا وائرس کو اب بھی احتیاط کرنے کی بہت ضرورت ہے اور عام افراد کو بھی حفاظتی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان اور صوبائی حکومت نے اب تک کوئی بڑی غلطی نہیں کی ہے اور بروقت فیصلے ہورہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے