تھرڈ ورلڈ ہی رہنا ہے!

ٹوئٹر ایک ایسا جہاں ہے جہاں آپ دنیا بھر کے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں کو فالو کرکے ان کے خیالات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لگتا ہے‘ دنیا بھر کے قدیم سے لے کر جدید زمانوں تک کی سب فلاسفی، عقل سمجھ‘ چالاکیاں، ذہانت، ایجادات، تھیوریز اور ماضی، حال اور مستقبل‘ سب کچھ ایک ہی جگہ اکٹھا کر دیا گیا ہے۔

یہ ایک طرح سے عالمی اخبار ہے جہاں جس کا جو جی چاہے وہ پڑھ لے یا حاصل کر لے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ اس خزانے سے کیا نکالنا چاہتے ہیں۔ آپ کو اس سمندر میں سے کیا ڈھونڈنا ہے۔ گالیاں ڈھونڈنی ہیں یا علم۔

جب تک ٹوئٹر جوائن نہیں کیا تھا‘ مجھے اندازہ نہ تھا کہ دنیا میں کیسے کیسے ذہین لوگ پائے جاتے ہیں۔ پھر میں نے بہت سارے ذہین اور جینئس لوگوں کو فالو کرنا شروع کیا۔ ساتھ ساتھ ہر شعبے کے ٹاپ لوگوں کو بھی فالو کیا تاکہ ان کی ذہانت سے فائدہ اٹھایا جائے‘ یوں ان سات برسوں میں یہاں سے بہت کچھ پایا۔ ویسے تو پاکستان میں بہت سارے ایسے جینئس بھی ہیں جو دنیا میں کسی ایک بھی بندے یا ویب سائٹ کو فالو نہیں کرتے کہ انہیں لگتا ہے ان سے زیادہ ذہین کوئی پیدا نہیں ہوا۔ حیران ہوتا ہوں‘ کیسے یہ لوگ آج کی دنیا میں دوسروں سے علم کی توقع نہیں رکھتے اور ان کا خیال ہے‘ جو نروان انہوں نے پانا تھا پا چکے۔ خیر مجھے زیادہ سیکھنے کی ضرورت ہے لہٰذا میں اس وقت ساڑھے تین ہزار سے زائد لوگوں اور دیگر اہم ٹوئٹر‘ اخبارات اور ویب سائٹس کو فالو کرتا ہوں۔ یقین کریں ہر بندے کے پاس کچھ نہ کچھ نئی بات کہنے کو ہے جس کا آپ کو پہلے سے علم نہ تھا۔

یہ ساری لمبی تمہید اس لیے باندھی ہے کہ پچھلے دنوں ایک ٹوئٹر اکائونٹ @bismeen1 کو فالو کرنا شروع کیا۔ بسمین جدون صاحبہ ایک ڈاکٹر اور گائناکالوجسٹ ہیں۔ انہوں نے چند ایسے ٹوئٹس کیے جن کو پڑھ کر آپ اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دنیا میں کئی ہم خیال پائے جاتے ہیں ؛ چنانچہ اچانک ایک دوسرے کے خیالات مل جاتے ہیں اور آپ کو ان کی باتیں اپنی باتوں جیسی لگتی ہیں۔ ٹوئٹر پر بحث ہو رہی تھی کہ پاکستان کے پاس کورونا وائرس کے مقابلے کیلئے وسائل نہیں ہیں کیونکہ یہ تھرڈ ورلڈ ملک ہے۔ اگر فرسٹ ورلڈ جیسے ممالک بھی اس بیماری کے آگے بے بس نظر آرہے ہیں تو پھر ہمارے جیسے ملک کی کیا مجال ہے۔ وہ بندہ بحث کر رہا تھا کہ ہمیں اپنی حکومتوں اور بیوروکریسی پر تنقید نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہم تھرڈ ورلڈ ملک ہیں اور ہماری یہی اوقات ہے۔ اس پر ڈاکٹر بسمین نے ایک خوبصورت کمنٹ کیا: تو کیا ہمیں خود کو فرسٹ ورلڈ بنانے کی خواہش یا کوشش نہیں کرنی چاہئے؟ ہم اس میں مطمئن رہیں کہ چلیں جی ہم تو تھرڈ ورلڈ ہیں اور ایسے رہیں گے؟

ڈاکٹر بسمین جدون کے اس چھوٹے سے کمنٹ میں ہماری پس ماندگی، غربت اور جاہلیت کھل کر سامنے آتی ہے کہ کیسے ہم لوگ یہ بات سننے کو تیار نہیں کہ ہمارے ہاں نالائقی کس حد تک پہنچ چکی ہے اور ہم نے کیسے خود کو یقین دلا دیا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے بلکہ ہم کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں‘ لہٰذا اگر حکمرانوں اور بیوروکریٹس کی نااہلیوں کی وجہ سے ہم آگے نہیں جا سکے تو اس میں کسی کو غلط مت کہیں کیونکہ ہم تھرڈ ورلڈ ہیں۔ جب عوام ہی تیار بیٹھے ہیں کہ انہوں نے تھرڈ ورلڈ ہی رہنا ہے اور جس نے فرسٹ ورلڈ بننے کی بات کرنی ہے‘ اسے گالی کھانا پڑے گی تو پھر حکمرانوں کو کیا مجبوری ہے کہ وہ اس معاشرے کو اس لیول تک لے جانے کی طرف کوشش کرے‘ جہاں فرسٹ ورلڈ پہنچ چکی ہے؟

اس کا کائونٹر جواز یہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں کہ ہم فرسٹ ورلڈ بن سکیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف وسائل چاہئے ہوتے ہیں یا فرسٹ ورلڈ بننے کیلئے وسائل کے ساتھ کچھ اور بھی چاہئے ہوتا ہے؟ فرسٹ ورلڈ نے ایک بات تو ثابت کر دی ہے کہ انسان کہاں تک جا سکتا ہے اور کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایک سائنسی ریسرچ کے مطابق جب سے یہ کائنات بنی ہے انسان نے اب تک صرف دس فیصد اپنے ذہن کا استعمال کیا ہے۔ آج ترقی کی جس معراج پر ہم کھڑے ہیں وہ صرف دس فیصد انسانی ذہن کا کمال ہے۔ ابھی نوے فیصد ذہن کا استعمال باقی ہے۔ فرسٹ ورلڈ نے صرف دس فیصد ذہن کے ساتھ اتنی ترقی کر لی ہے کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور اگر کوئی سوچنا بھی چاہے تو ٹوئٹر پر الٹا گالیاں کھائے۔ ویسے ٹوئٹر دیکھ کر لگتا ہے‘ پاکستانی قوم نے وہ دس فیصد ذہن بھی شخصیات کے بت بنا کر انہیں ساری عمر پوجنے پر خرچ کیا ہے۔

سوال یہ ہے‘ فرسٹ ورلڈ کے پاس وہ ذہن کہاں سے آیا جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ وہ ذہن جس کی مدد سے فرسٹ ورلڈ نے دنیا پر راج کیا اور آج بھی کر رہی ہے۔ کمال اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے سیانے کورونا وائرس پر طعنے دیتے ہیں کہ فرسٹ ورلڈ کے لوگ اتنے سیانے ہیں تو ویکسین کیوں ایجاد نہیں کی؟ اندازہ کریں ذرا طعنوں کا۔ بھائی ہم بھی ان کی طرح ایک دماغ، دو آنکھیں، دو کان، ایک منہ اور جسم رکھتے ہیں تو ہم نے اب تک کیوں ایجاد نہیں کر لی؟ سارا بوجھ ان ترقی یافتہ ملکوں پر ہی کیوں ڈالا ہوا ہے کہ وہ خود کو بیماریوں سے بچائیں اور ہمارا بوجھ بھی اٹھائیں؟ ویسے جب ہمیں کہا جاتا ہے کہ جی ہمارا فرسٹ ورلڈ کی سہولتوں سے کیا مقابلہ تو یہ سب بھول جاتے ہیں کہ جب یورپ میں جنگ عظیم دوم چھ سال بعد ختم ہوئی تھی تو اس وقت پورا یورپ اتنا برباد ہو چکا تھا کہ شاید ہمارے جیسے تھرڈ ورلڈ کے ممالک ان سے بہتر لگتے تھے۔

لاکھوں مارے گئے تھے۔ کروڑں بے گھر ہوئے۔ پورا برطانیہ جرمن طیاروں کی بمباری سے تباہ ہو چکا تھا۔ برطانوی شہری برسوں تک لندن انڈرگرائونڈ زندگی گزارتے رہے۔ برطانیہ دیوالیہ ہو گیا تھا اور اس نے امریکہ سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ مانگا تھا تاکہ اپنے اخراجات پورے اور برباد گھروں‘ سڑکوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر کرے۔ امریکی شرائط سن کر برطانیہ نے قرض نہیں لیا۔ وہی چرچل جس نے جنگ عظیم جیتی تھی اسے الیکشن میں ہرا دیا گیا کہ اب ایسا وزیر اعظم چاہئے جو برطانیہ کی تعمیر نو کرے۔ انہی دنوں پاکستان اور بھارت آزاد ہوئے تھے اور ذہن میں رکھیں یہاں کوئی ورلڈ وار نہیں لڑی گئی تھی؛ اگرچہ دس لاکھ بے چارے فسادات میں مارے گئے لیکن اس خطے نے وہ بربادی نہیں دیکھی جو برطانیہ، روس، جرمنی، جاپان اور دیگر یورپی قوموں نے دیکھی۔

بہتّر سال پہلے کے ان یورپی شہروں کی تباہی کی تصویریں دیکھ لیں اور لاہور، بمبئی، لکھنو، کراچی دیکھ لیں تو آپ کو لگے گا ان دنوں ہم فرسٹ ورلڈ تھے اور یورپی تھرڈ ورلڈ تھے‘ جنہیں جنگوں نے تباہ کر دیا تھا۔ انہی یورپین نے ان بہتّر سالوں میں خود کو دوبارہ تعمیر کر کیا اور ہم پہلے سے مزید برباد ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں احساس کمتری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرنے کو بھی تیار نہیں ہم فرسٹ ورلڈ کیوں نہیں بن سکتے؟

ابھی دیکھ لیں جب عمران خان صاحب اپوزیشن میں تھے تو پاکستانیوں کا جوش بڑھانے کیلئے بات بات پر یورپی ملکوں کا حوالہ دیتے تھے کہ فلاں یورپی ملک نے اس مشکل میں اپنی عوام کیلئے یہ کر دیا‘ وہ کر دیا۔ ایسی مثالیں سن سن کر لوگوں کو اشتیاق ہوا کہ خان صاحب وزیراعظم بن گئے ہیں تو ہمارا ملک بھی یورپ کی طرح ہو جائے گا۔ جو کچھ وہاں ہوتا ہے ہمارے ہاں بھی ہوگا۔ لیکن لگتا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد خان صاحب نے لائن بدل لی ہے۔ اب ہر بات پر کہتے ہیں: دیکھیں اٹلی، برطانیہ اور امریکہ کچھ نہیں کر سکے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے یورپ کی کامیاب مثالیں سنائی جاتی تھیں اور آج کل ہمیں اسی یورپ کی ناکامی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اب فرماتے ہیں:

آپ تھرڈ ورلڈ کے شہری ہیں اور تھرڈ ورلڈ کے شہری کی طرح ہی رہیں۔وہ اس وقت بھی سچے تھے جب یورپ کی حکومتیں، معاشرے اور حکمران ان کے رول ماڈل تھے۔ ماشاء اللہ آج بھی وہ سچے ہیں جب وہ اسی یورپ کی ناکامی کی مثالیں دیتے ہیں تاکہ ان کی حکومت پر تنقید نہ ہو۔ پیغام واضح ہے۔ آپ بہتّر سال تھرڈ ورلڈ رہے ہیں‘ اب پانچ سال مزید بھی رہ لیں گے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔
کتنے آرام سے خان صاحب نے صرف ڈیڑھ سال میں یورپ پر اپنا بیانہ بدل دیا اور کسی کو ہوا بھی نہیں لگنے دی… رند کے رند رہے‘ ہاتھ سے جنت نہ گئی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے