کورونا میّت‘مٹی‘ آگ اور میڈیکل سائنس

کورونا وائرس سے اگر بڑی تعداد میں اموات ہوں تو اجتماعی تدفین تو اللہ کے رسولؐ کی سنت سے ثابت ہے ‘مگر بعض اہل علم علما کی طرف سے یہ کہنا کہ آگ کے ساتھ جلایا بھی جا سکتا ہے‘ محض اس خوف کے ساتھ کہ ایسے خطرناک وائرس شاید مٹی میں ختم نہ ہوں اور زندہ انسانوں کو نقصان پہنچائیں یا پھر کسی اور وجہ سے وہ آگ میں جلانے کی اجازت دے رہے ہیں تو ہم سب سے پہلے جدید سائنسی ریسرچ پیش کریں گے اور ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کے دلائل دے کر اپنا موقف واضح کریں گے۔ ڈاکٹر شیلے ہائیڈل سکول آف لائف سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ‘جبکہ امریکا کی ریاست ایریزونا کی سٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ ”بائیوڈیزائن‘‘ کے ریسرچر ‘یعنی محقق بھی ہیں۔ ان کی اور ان کے ساتھی سائنسدانوں کی ریسرچ کو امریکا کے سائنس ٹی وی نے 15اکتوبر 2013 کو نشر کیا‘ نے کہا کہ مٹی جو اپنے اندر حسن کو نکھارنے کے راز چھپائے بیٹھی ہے۔ پروفیسر شیلے کی تحقیق کے مطابق ‘اسی مٹی میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ جلدی بیماریوں (Skin Infection) کا علاج (To-treat) بھی کرتی ہے‘ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ صلاحیت بھی رکھتے ہے کہ:

[pullquote]It can be used as a wound dressing to promote rapid and improved healing.[/pullquote]

یعنی زخموں کو مندمل کرنے کا کام کر سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ مٹی مزید ایسا بھی کر دے کہ جلد کی سطح پر رونما ہونے والے انفیکشنز کیخلاف لڑائی کر کے جلد کو صحت یاب کر دے۔

قارئین کرام! میں آپ کے سامنے اب‘ اللہ کے رسولؐ کا ایک مبارک شفائیہ عمل رکھ رہا ہوں۔ اسے ملاحظہ کرتے جائیے اور درود شریف پڑھ کر میرے حضورؐ کی حدیث اور سنت پر اپنے ایمان کو اور زیادہ مضبوط اور پختہ کر لیجئے۔ حضرت عائشہؓ بتاتی ہیں کہ ہم میں سے جب کوئی بیمار ہوتا یا اسے کوئی زخم لگ جاتا تو اللہ کے رسولؐ شہادت کی انگلی (پر اپنا لعاب مبارک لگاتے) اور اسے زمین پر رکھتے‘ پھر بیمار کو یوں دم کرتے ”بسم اللہ تُربَۃُ اَرْضَِا بریقۃ بعضنا یشفٰی سقیمنا باذنِ ربّنا)‘‘ترجمہ:” اللہ کے نام کےساتھ ہماری زمین کی مٹی۔ ہم میں سے کسی کے تھوک کے ساتھ۔ ہمارا بیمار شفا حاصل کرے۔ ہمارے رب کے حکم سے‘‘ ۔(مسلم: 2154بخاری: 5745)

جی ہاں! ساری زمین اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اس زمین کی مٹی میں اللہ تعالیٰ نے انفیکشنز اور زخموں کیلئے شفا رکھی ہے۔ میرے حضورﷺ نے چودہ سو سال قبل ایک بڑے میڈیکلی انکشاف سے دنیا کو اپنے عمل کے ساتھ باخبر فرما دیا تھا۔ پروفیسر شیلے محض ساڑھے چھ سال قبل یہ بات بتانے کے قابل ہوئے ہیں‘ یعنی مٹی میں شفا ہے۔ مٹی میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر شفا رکھی ہے۔ پروفیسر شیلے کے مزید ریسرچ کی صورت میں 11جنوری 2016ء کو سامنے آنے والے الفاظ ملاحظہ ہوں:

[pullquote]Clay Can Hill Disease Causing Bacteria That Infect Humans And Animals.[/pullquote]

مٹی ایسی بیماری کو ختم کر سکتی ہے‘ جس کا سبب بیکٹیریا کے جراثیم بنتے ہیں اور وہ انسانوں اور جانوروں کو متاثر کر دیتے ہیں۔
پروفیسر شیلے مزید لکھتے ہیں:

[pullquote]Clay is often used as a beauty treatment for skin, but in the future, we may be able to use it to fight skin infections.[/pullquote]

یعنی یہ مٹی اس قدر شفا کی حامل ہے کہ وہ مہلک امراض کو بھی ختم کر دیتی ہے اور جسم میں اینٹی بیکٹیریل ہارمونز کے ساتھ مل کر وائرل انفیکشن کے خلاف لڑنے میں مدد دیتی ہے۔ اسی طرح یہ Methicillin-resistant Staphylococcus aureus (MRSA) یعنی ایسے کیڑے مکوڑوں یا جانداروں کے کاٹنے سے کہ جن سے جِلد پھول جائے۔ سرخ ہو جائے اور پیپ تک پڑ جائے۔ اسے بھی درست کرنے میں معاون ہو جاتی ہے۔

قارئین کرام! پروفیسر شیلے مزید کہتے ہیں کہ ہم ہی نہیں ‘بلکہ عالمی سطح پر مٹی پر تجربات نے واضح کر دیا ہے کہ یہ اینٹی بیکٹیریل ہے۔ فرانس کی سبز مٹی کو لوگ ٹب میں ڈال کر غسل کرتے ہیں۔ زخموں کے استعمال میں جدید میڈیکل دنیا اس کو اختیار کر چکی ہے۔ اللہ اللہ! یہ سائنسدان مزید آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ ہاتھوں کو صابن‘ ڈیٹول اور سینی ٹائزرز سے دھونے کی بجائے صاف مٹی سے دھو لیا جائے تو جراثم کش صفائی کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔

اللہ کے رسولؐ کی زوجہ محترمہ ہم مسلمانوں کی روحانی اماں جان حضرت میمونہؓ بتاتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ”پھر اپنا ہاتھ مبارک کچی دیوار پر رگڑا‘ پھر اسے دھو لیا‘‘ ۔(بخاری:260)

جی ہاں! امام محمد بن اسماعیل بخاری ؒنے مندرجہ بالا حدیث پر جو باب باندھا ہے ‘اس کا عنوان ہے ”مٹی کے ساتھ ہاتھ کو رگڑنے کا باب کہ اس سے ہاتھ انتہائی حد تک پاک صاف ہو جاتا ہے‘‘ ۔یاد رہے! ”اَنْقٰی‘‘ کا لفظ ہے ‘جس کا مطلب ہے کسی قسم کا جراثیم اور وائرس باقی نہ رہے۔ جی ہاں! یہ ہے مٹی کی خصوصیت‘ جو حضورﷺ سے چودہ سو سال قبل ثابت ہے۔ اب‘ قرآن ملاحظہ کرتے ہیں۔قرآن کی سورت ”والْمُرْ سَلَاتْ‘‘ہے۔ اللہ تعالیٰ ان ہواؤں کی قسم اٹھا رہے ہیں‘ جنہیں جانے پہچانے معمول کے مطابق چھوڑا جاتاہے۔ قسم اٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ اے انسانو! تم اپنی زمین کی فضاؤں کو اپنی آلودگیوں سے آلودہ کر دیتے ہو۔ ہماری یہ ہوائیں ان آلودگیوں سے فضا کو صاف کرتی ہیں ‘تاکہ تم آکسیجن شفاف حاصل کرو۔ ان کی وجہ سے بارشیں برستی ہیں۔ زمین دھل جاتی ہے۔ فضا صاف ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے شکمِ مادر میں انسان کی پیدائش کا ذکر کیا۔ اسے یاد دلایا کہ پانی کا ایک خلیہ جو خوردبین سے ہی نظر آتا ہے۔ اس میں پانچ کھرب کے قریب معلومات ہوتی ہیں۔ یہ ریسرچ انسان کی ہے۔ جی ہاں! اے انسان! ہر انفارمیشن اپنے اپنے وقت پر ایکٹیویٹ ہوتی چلی گئی۔ اعضا بنتے چلے گئے اور انسان‘ نو ماہ بعد زمین پر آ گیا‘پھر اگلی آیت میں اس زمین کے بارے میں فرمایا: ”کیا ہم نے اس زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا‘ زندوں کیلئے بھی اور فوت ہونے والوں کیلئے بھی‘‘ (المرسلات: 26,25)۔

یعنی انسان خود بھی مٹی سے بنا۔ ساری زندگی مٹی سے نکلنے اور اگنے والی چیزوں پر پرورش پاتا رہا۔ ترقیاں کرتا رہا۔ جب یہ مر گیا تو اسی زمین نے اس کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔ زمین اس کو کھا گئی۔ پانی کے ایک خلیے سے آغاز ہوا تھا۔ تب حضورﷺ کے فرمان کے مطابق‘ ریڑھ کی ہڈی کے آخر پر ”عجب الذّنب‘‘ کے نام سے ایک ذرّہ باقی رہ گیا۔ قیامت کے دن یہی ایکٹیویٹ ہوگا۔ روح اس سے ملے گی اور انسان کھڑا ہو جائے گا۔

یہود و نصاریٰ اہل ِکتاب ہیں۔ وہ بھی تدفین کرتے ہیں۔ مسلمان بھی فوت شدگان کو دفن کرتے ہیں۔ ہندوؤں کا ایک فرقہ بھی اپنے مُردوں کو دفن کرتا ہے۔ بیشمار جاندار جو انتہائی زہریلے ہیں‘ اسی زمین کے سپرد ہوتے ہیں۔ جنگلوں میں زمین پر پڑے پڑے مٹی ہو جاتے ہیں۔ بارش آتی ہے‘ ان کی باقیات سے زمین کو صاف کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ گارنٹی دیتے ہیں کہ زمین اپنے اندر سب کو سمیٹنے والی ہے‘ جو اس کے اندر چلا جائے گا‘ اس کا جراثیم بھی ساتھ ہی مٹی میں حصہ بن جائے گا۔ انسان کی تکریم کا تقاضا یہی ہے کہ وہ قبر میں اتارا جائے۔ کورونا کے بارے میں تحقیق یہی ہے کہ یہ نیم مُردہ قسم کا وائرس ہے۔ انسانی جسم میں داخل ہو کر زندگی پاتا ہے۔ جب انسان ہی فوت ہو گیا۔ اب‘ یہ بھی بے بس ہو گیا۔ مُردہ ہو گیا‘ اگر کوئی تھوڑی بہت سکت رکھتا بھی ہوگا تو جس کے اندر ہے وہ تو نا سانس لے رہا ہے۔ نہ چھنک مار رہا ہے۔

اب یہ وائرس کیا کرے گا؟ لہٰذا فوت ہونے والے مسلمان اور مومن کے وقار کو بے وقار نہ کرو۔ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق ؛وہ شہید ہے۔ نہ جانے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا مقام کس قدر بلند ہے؟ ہندو جلاتے ہیں‘ان کی راکھ گنگا کو آلودہ کرتی ہے تو دھواں فضا کو آلودہ کرتا ہے۔ وہ آلودگی زندہ انسانوں کو اجیرن بناتی ہے۔ فوت شدگان کو زمین کے حوالے کرو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے اس انسان کو زمین سے پیدا کیا۔ اس میں واپس لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھا کھڑا کریں گے‘ لوگو! زمین کی شئے کو زمین میں واپس کرو۔ایک جلیل القدر صحابی طاعون کے مرض سے شہید ہوئے‘اسی زمین کے سپرد ہوئے۔ زمین کے سپرد اچھے طریقے سے کرو کہ جس قدر ممکن ہو سکے‘ لیکن ان ناپسندیدہ طریقوں کو سوشل میڈیا پر وائرل تو نہ کرو۔ خوف و ہراس تو نہ پھیلاؤ۔

مسلمان‘ مومن اور ایک انسان کی تکریم کو تا ر تار تو نہ کرو۔ ایسی حرکتیں کرنے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ کیا انہیں معلوم ہے کہ ان کا کیا حشر ہوگا؟ اس دنیا میں کیا ہو گا اور انسانی توہین پر اگلے جہان میں اس کا کیا حال ہوگا؟ میں کہتا ہوں ملعون ہے ‘وہ موبائل جس نے ایک مومن انسان کی توہین کا مذاق بنایا۔ نفرت‘ خوف اور آبرو کی بربادی کا سوداگر بنا۔ آہ! وہ بدبخت ہاتھ کہ جس میں یہ موبائل تھا۔ آخری بات یہی ہے کہ شریعت اور میڈیکل سائنس کے علم کی یکجائی جلانے کی اجازت نہیں دیتی۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔ (آمین)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے