اسکاچ ٹیپ کا ٹکڑا

وہ خود کشی کی تیسری ناکام کوشش کے بعد ہمت ہار گیا اور اس نے اپنی زندگی عام لوگوں کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا‘ وہ آج اس فیصلے کو دنیا کا بہترین فیصلہ سمجھتا ہے اور ورجینیامیں اپنے گھر کی بالکونی میں بیٹھ کر کافی کے مگ کے کنارے چپکی جھاگ پر ہونٹ رگڑ کر کہتا ہے ’’میں خود کشی کی تیسری کوشش کے بعد زندگی کے ہاتھوں شکست تسلیم نہ کرتا تو آج علاج کا یہ نیا طریقہ ایجاد نہ ہوتا اور سیکڑوں‘ ہزاروں بلکہ لاکھوں بیمار بچے قہقہوں کے ذریعے دکھوں کا مقابلہ نہ کرتے‘کاش دنیا کے وہ تمام لوگ جو خود کشی کرنے کے لیے گھر سے نکل رہے ہیں وہ ایک بار میرے اسپتال کا دورہ کر لیں‘ وہ پیچ ایڈمز کی ویب سائٹ دیکھ لیں اوریہ ایک بار میرے مریض بچوں سے مل لیں تو یہ نہ صرف مرنے کا فیصلہ واپس لے لیں گے بلکہ یہ میری طرح زندگی کو بڑے معانی‘ بڑے مقصداور بڑے پیڈسٹل سے دیکھیں گے‘‘۔

اس کے ساتھ ہی وہ قہقہہ لگاتاہے‘ اپنی لمبی‘ گھنی اور سفید مونچھوں پر ہاتھ پھیرتا ہے اور گہری آنکھوں سے مخاطب کو دیکھ کر کہتا ہے ’’دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط ’’وِل پاور‘‘ خود کشی کرنے والے شخص کی ہوتی ہے‘ دنیا کا کوئی جان دار مرنا نہیں چاہتا لیکن خود کشی کرنے والا شخص زندگی کی خواہش پر بھی قابو پا لیتا ہے‘ یہ اپنی موت کا وقت اور طریقہ کار تک طے کر لیتا ہے‘ اس سے بڑی اور مضبوط قوت ارادی کس کے پاس ہو گی؟‘‘۔

وہ ساتھ ہی مخاطب کو گھور کر دیکھتا ہے اور مسخروں کی طرح قہقہہ لگا کر کہتا ہے ’’اور یہ شخص اگراپنی قوت ارادی کو موت سے زندگی کی طرف شفٹ کر دے تو یقین کیجیے یہ پہاڑ کو اپنے قدموں پر کھڑا کر سکتا ہے کیونکہ زندگی میں اعلیٰ اور ارفع مقصد پانے کے لیے جنون درکار ہوتا ہے اور خود کشی کرنے والاشہ رگ تک جنون سے بھرا ہوتا ہے‘‘ وہ قہقہہ لگا کر کہتا ہے ’’پوری دنیا کو جنت بنانے کے لیے ایسے سو شخص چاہییں جو میری طرح خود کشی میں ناکام رہے ہوں اور اس کے بعد انھوں نے نظام سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا ہو‘ یقین کیجیے اس سے لوگوں کے دکھ اور مسئلے ختم ہو جائیں گے‘‘۔

یہ ہنٹر کیمبل ایڈمز ہے‘ یہ ایک ناکام اور محروم انسان تھا‘ اس کا والد1961ء میں کوریا کی جنگ میں مارا گیا‘ یہ اس وقت سولہ سال کا تھا‘ یہ خاندان کے ساتھ کوریا سے واشنگٹن آ گیااور اس نے واشنگٹن میں ناانصافی‘ جنگ اور محرومی کے خلاف مہم شروع کر دی‘ یہ سڑکوں پر ’’جنگیں بند کرو‘‘ کے نعرے بھی لگاتا تھا اور اسکول میں تعلیم بھی حاصل کرتا تھا‘ اس کا جنون اسکول میں مذاق بن گیا‘ تمام بچے اسے پاگل سمجھ کر ’’اوئے اوئے‘‘ کے نعرے لگاتے تھے‘ اس کی ماں اور بہن بھائی غربت میں زندگی گزار رہے تھے‘ یہ ان کی حالت دیکھ کر کڑھتا تھا‘ خاندان کی غربت اور ساتھی طالب علموں کے مذاق نے اسے نفسیاتی مریض بنا دیا۔

اس کے اندر خود کشی کے رجحانات سر اٹھانے لگے‘ اس نے خود کشی کی پہلی کوشش کی‘ وہ اس میں ناکام ہو گیا‘ چھ ماہ بعد اس نے دوسری کوشش کی وہ اس میں بھی ناکام رہا‘ اس نے تین ماہ بعد تیسری کوشش کی لیکن وہ اس کوشش میںبھی ناکام رہا۔ تین لگاتار کوششوں کے بعد ڈاکٹروں نے اسے نفسیاتی مریض ڈکلیئر کر دیا اور اسے پاگل خانے میں داخل کر ادیا‘ یہ پاگل خانے میں پاگلوں کے ساتھ رہتا تھا‘ پاگل خانے میں ایک سائنس دان بھی تھا‘ یہ شخص مطالعے کے جنون کی وجہ سے پاگل خانے پہنچ گیا تھا اور یہ وہاں اب ہر وقت مختلف تجربے کرتا رہتا تھا‘ ہنٹر کیمبل کو اس میں دلچسپی محسوس ہوئی اور وہ اکثر اوقات اس کی ’’لیبارٹری‘‘ میں چلا جاتا جہاں سائنس دان فرضی تجربے کرتا رہتاتھا۔

وہ ایک دن سائنس دان کے ساتھ بیٹھا تھا تو اس نے دیکھا سائنس دان کی کافی کے کپ میں ہلکا سا سوراخ ہے اور اس سوراخ سے کافی کے قطرے میز پرٹپک رہے ہیں‘ پاگل خانوں میں پاگلوں کو کاغذ کے کپوں اور پلیٹوں میں کھانے پینے کی چیزیں دی جاتی ہیں تا کہ یہ چینی یا دھات کے برتنوں سے اپنے آپ اور دوسروں کو نقصان نہ پہنچا سکیں‘ سائنس دان کی کافی کا مگ بھی کاغذی تھا‘ ہنٹر کیمبل ایڈمز نے ٹیبل پر لگی اسکاچ ٹیپ کا ایک چھوٹا سا پیس توڑا اور کپ کے ٹوٹے ہوئے حصے پرچپکا دیا‘ کافی کے قطرے رسنا بند ہو گئے۔

سائنس دان نے حیرت سے کپ کی طرف دیکھا‘ کپ پر لگے ’’پیچ‘‘ پر نظریں گاڑھیں اور ہنٹر کیمبل ایڈمز کو ’’پیچ‘‘ کا خطاب دے دیا یوں ہنٹر کیمبل ایڈمز کا نام ’’پیچ ایڈمز‘‘ ہو گیا اور یہ اس وقت پوری دنیا میں اسی نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے‘ اس واقعے سے ایڈمز نے اندازہ لگایا قدرت نے دراصل اسے دنیا میں پیچ (پیوند) لگانے کے لیے بھیجاہے اور وہ اگر دکھی انسانیت کے رستے ہوئے زخموں پر پیوند لگا دے تو نہ صرف اس کی زندگی کا مقصد پورا ہو جائے گا بلکہ ہزاروں‘ لاکھوں انسانوں کے دکھ درد بھی ختم ہو جائیںگے۔

پیچ ایڈمز پاگل خانے کے سپرنٹنڈنٹ کے پاس گیا‘ میڈیکل ٹیسٹ کرائے‘ صحت مند ڈکلیئر ہوا اور پاگل خانے سے باہر آ گیا۔ پیچ ایڈمز کا خیال تھا میڈیکل سائنس میں سب کچھ ہے‘ اس میں طبی ٹیسٹ بھی ہیں‘ ادویات بھی ہیں‘ آپریشن کے جدید ترین آلات بھی ہیں اور طبی سہولتوں کی مشینیں بھی ہیں لیکن اس میں جذبات‘ احساسات اور انسانیت نہیں اور ایک مریض کو بیماری کے عالم میں دوائوں‘ ٹیسٹوں اور مشینوں سے زیادہ ہمدردی‘ پیار اور قہقہے درکار ہوتے ہیں‘ مریض اگر بیماری کی حالت میں روزانہ پانچ دس مرتبہ قہقہے لگا لے‘ یہ بستر پر بیٹھ کر خوشی سے تالیاں بجا لے تو یہ جلد صحت یاب ہو سکتا ہے۔

اس کا خیال تھا ڈاکٹروں اور طبی عملے کو ماں‘ بہن‘ بیوی‘ باپ اور بچے کی طرح ہمدرد اور مہربان ہوناچاہیے اور ہمارے اسپتالوں میں یہ چیز کسی جگہ دکھائی نہیں دیتی‘ مریض ڈاکٹر کے پاس آتا ہے اور ڈاکٹر مکینیکل انداز میں اسے چند کیپسول‘ چند نیلی پیلی گولیاں اور ٹیسٹوں کی لمبی چوڑی فہرست تھما کر واپس بھجوا دیتا ہے‘ اس سے مریض کا مرض بڑھ جاتا ہے اور وہ زندگی سے بے زار ہو جاتا ہے‘ اس کا خیال تھا لوگ تھیٹروں میں بار بارکیوں جاتے ہیں‘ یہ ایک ہی قسم کے کارٹون پروگرام بیسیوں مرتبہ کیوں دیکھ لیتے ہیں اور یہ پچاس‘ پچاس سال پرانے جوکس پر بار بار قہقہے کیوں لگاتے ہیں؟

کیونکہ یہ چیزیں انھیں ریلیکس کرتی ہیں چناںچہ ڈاکٹروں کو بھی کارٹون کریکٹر ز کی طرح ہونا چاہیے‘ انھیں تھیٹروں کا مزاحیہ اداکار ہونا چاہیے اور یہ ’’جوک ماسٹرز‘‘ ہونے چاہییں تا کہ مریض خوشی سے ان کے پاس آئیں اور دوا کے ساتھ ساتھ قہقہے اور تالیوں کا تحفہ بھی لے کر جائیں‘ پیچ ایڈمز نے ایک ایسی نئی طب ایجاد کرنے کا فیصلہ کیا جس میں دوا کے ساتھ قہقہے بھی ہوں چنانچہ یہ پاگل خانے سے نکلا اور میڈیکل کالج میں داخل ہو گیا‘ یہ دن کو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرتا تھااور رات کو مختلف کارٹون کریکٹرز کے کپڑے پہن کر اسپتال کی مختلف وارڈز میں چلا جاتاتھا اور انتہائی بیمار مریضوں کے سامنے کھڑے ہو کر سرکس کے بونوں کی طرح اچھل کود کرتاتھا۔

مریض اسے دیکھ کر قہقہے لگاتے تھے اور یوں ان کی تکلیف‘ ان کا دکھ کم ہو جاتاتھا ‘ یہ بچوں کی وارڈ میں بہت مقبول ہوگیا‘ کینسر کے انتہائی سیریس بچے رات اور پیچ ایڈمز کا انتظار کرتے تھے‘ یہ ’’کلون‘‘ بن کر وارڈ میں آتا تھا اور سارے مریض بچے مل کر اس کے ساتھ خوب اودھم مچاتے تھے‘ پیچ ایڈمز کے اس نئے طریقہ علاج کا دلچسپ نتیجہ نکلا ‘اس سے مریضوں کی ’’ریکوری‘‘ کی شرح بہتر ہو گئی‘ میڈیکل کالج کی انتظامیہ نے پیچ ایڈمز کے طریقے کی شدید مخالفت کی‘ اسے کئی بار میڈیکل کالج سے نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن مریضوں اور ساتھی طالب علموں کے شدید احتجاج پر کالج انتظامیہ اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو گئی۔

ہالی ووڈ نے پیچ ایڈمز پر ’’پیچ ایڈمز‘‘ کے نام سے فلم بھی بنائی چناںچہ انڈیا کی مشہور فلم ’’منا بھائی‘‘ بھی پیچ ایڈمز کے اصلی کردار پر بنی ہوئی ہے‘ بہرحال جیسے تیسے پیچ ایڈمز نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد اس نے 1972ء میں “Gesundheit” انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے نام سے ایک طبی ادارے کی بنیاد رکھی‘ اس ادارے میں والنٹیئرز ڈاکٹرز خدمات سرانجام دیتے ہیں اور یہ سب لوگ پیچ ایڈمز کی طرح سرکس کے جوکرز‘ کارٹون کیریکٹرز اور مزاحیہ اداکاروں کے کپڑے پہن کر مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔

پیچ ایڈمز کے اسپتال میں تمام مریضوں کا علاج مفت ہوتا ہے اور اس کے مریضوں کی ریکوری کی شرح دنیا کے تمام اسپتالوں سے کہیں اچھی ہے‘ پیچ ایڈمز اور اس کے ساتھی ہر سال سرکس کے جوکروں کے کپڑے پہن کر دنیا کے مختلف ملکوں میں بھی اپنے طریقہ علاج کی پروموشن کرتے ہیں اور ڈاکٹروں کو نیا طریقہ ’’اڈاپٹ‘‘ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ پیچ ایڈمز کا خیال ہے مرض صرف ایک مریض تک محدود نہیں رہتا‘ یہ مرض مریض کے خاندان‘ اس کے بعد سوسائٹی‘ اس کے بعد ملک اور اس کے بعد پوری دنیا کو بیمار کر دیتا ہے چناںچہ ہمیں اپنے ماحول کو اتنا خوشگوار بنا دینا چاہیے کہ بیماریاں دوسرے لوگوں پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔

کاش ہم سب لوگ پیچ ایڈمز کی طرح سوچ سکیں‘ ہم خود کشی کے بجائے پیچ ایڈمز کی طرح معاشرے کا پیوند بن جائیں‘ ہم اپنی زندگی کو اسکاچ ٹیپ کا ایک ایسا چھوٹا سا ٹکڑا بنا لیں جو کسی کے دکھوں کے رستے ہوئے کپ کا پیوند بن جائے‘ جو موت کے سرہانے بیٹھے کسی مریض کے چہرے پر مسکراہٹ لے آئے۔ کاش ہم میں بھی دوچار پیچ ایڈمز ہوتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے