تین ملکوں کے ترانوں کا ایک ہی شاعر

ہماری قومی زندگی میں جہاں اور سب کچھ تاخیر کا شکار ہوا، قومی ترانہ تیار ہونے میں بھی سات سال لگ گئے۔ 15 اگست 1947 کو پاکستان قائم ہونے کے فوراََ بعد سے قومی ترانے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔14جنوری 1948 کو کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ زیڈ ۔ اے ۔ بخاری نے تجویز پیش کی کہ سورۃ فاتحہ کو پاکستان کا قومی ترانہ قرار دے دیا جائے۔ جنوبی افریقہ میں مقیم ایک مسلمان تاجر اے آر غنی نے پیشکش کی کہ وہ پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے اور اس کی دھن بنانے والے کو پانچ ہانچ ہزار روپے انعام دیں گے ۔

2جون 1948 کو حکومت پاکستان نے اس پیشکش کو قبول کر لیا۔14 جولائی 1949 کو وزیر مواصلات سردار عبدالرب نشتر کی زیرِ صدارت اجلاس میں قومی ترانے کیلئے پیش کی گئی دھنوں اور نظموں کا جائزہ لینے کیلئےدو کمیٹیاں بنائی گئیں۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ نغمہ، زبان، بحر، دھن اور موسیقیت میں مسلم قوم کی روایات کا خیال رکھا جائے۔

21 اگست 1949 کو ترانے کیلئے ممتاز موسیقار احمد علی غلام علی چھاگلہ کی تیار کردہ دھن منظور کرلی گئی۔اسے ریڈیو پاکستان میں بہرام رستم جی نے اپنے پیانو پر بجا کر ریکارڈ کرایا۔ اس کا دورانیہ80 سیکنڈ تھا اور اسے بجانے میں21 آلاتِ موسیقی اور 38 ساز استعمال ہوئے۔

یکم مارچ1950 کو شاہِ ایران پاکستان آئے تو پہلی بار ،سرکاری طور پر پاک بحریہ کے بینڈ نے وارنٹ آفیسرعبدالغفور کی قیادت میں کراچی ائیر پورٹ پر قومی ترانے کی یہ دھن بجائی لیکن پاکستان کی مرکزی کابینہ نے اس دھن کی باقاعدہ منظوری 2 جنوری1954 کو دی۔ اس کے خالق جناب چھاگلہ یہ دن نہ دیکھہ سکے۔ وہ گیارہ ماہ قبل 5 فروری 1953 کو وفات پا چکے تھے۔ ان کی اہلیہ قمر النسأ چھاگلہ اور بیٹے عبدالخالق چھاگلہ نے ترانے کے جملہ حقوق حکومت پاکستان کو دےدئیے۔

منظور شدہ دھن پر ترانہ لکھوانے کیلئے اس کے گراموفون ریکارڈ ملک کے تمام اہم شعرأ کو بھجوائے گئے۔ ہر رات ریڈیو پر بھی اسے نشر کیا جاتا رہا تاکہ شاعر اس پر بول لکھہ سکیں۔

قومی ترانہ کمیٹی کو کل 723 ترانے موصول ہوئے۔ کمیٹی کو حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کےلکھے ہوئے ترانے سب سے زیادہ پسند آئے۔
4 اگست 1954 کو مرکزی کابینہ نے جناب حفیظ جالندھری کے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کرلیا۔

قومی ترانہ مخمس میں ہے۔ اس میں کل 15 مصرعے ہیں۔ اسے ممتاز گلوکاروں شمیم بانو، کوکب جہاں ، رشیدہ بیگم، نجم آرأ، نسیم شاہین، احمد رشدی، زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیراور اختر وصی علی کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ پورا قومی ترانہ بجنے میں ایک منٹ بیس سیکنڈ لگتے ہیں۔
13 اگست 1954 کوقومی ترانہ پہلی بار ریڈیو پاکستان سے سے نشر ہوا۔

آزاد کشمیر کا ترانہ ’’ وطن ہمارا آزاد کشمیر ‘‘ بھی ابو الاثر حفیظ جالندھری نے لکھا۔

یاد رہے کہ بھارت نے رابندر ناتھہ ٹیگور کا لکھا ہوا ترانہ ’’ جن من گن ‘‘24 جنوری 1950 کو ہی اختیار کر لیا تھا۔ یہ پہلی بار 27 دسمبر 1911 کو کانگریس کے کلکتہ سیشن میں گایا گیا تھا۔ بنگلہ دیش نے بھی اپنے قیام کے فوراََ بعد1971 میں رابندر ناتھہ ٹیگور ہی کا 1905.6 کا لکھا ہوا گیت ’’ امار شونار بانگلا ‘‘ قومی ترانے کے طور پر اختیار کر لیا۔

سری لنکا کا قومی ترانہ بھی رابندر ناتھہ ٹیگور کی نظم پر مبنی ہے بلکہ بعض لوگ تو کہتے ہیں یہ ٹیگور نے خود لکھا۔ اسکی موسیقی بھی ان سے اور ان کے ایک شاگرد آنندا سمراکون سے منسوب کی جاتی ہے۔ یہ ترانہ ایک ہی دھن میں ملک کی دونوں سرکاری زبانوں تامل اور سنہالی میں ہے۔ بلجئیم ، سوئٹزر لینڈ ، جنوبی افریقہ ، سورینام اور کینیڈا کے قومی ترانے بھی ایک سے زیادہ زبانوں میں ہیں۔ کینیڈا کا ترانہ تو غیر سرکاری طور پر پنجابی سمیت کئی زبانوں میں گایا جاتا ہے۔

سورس : پاکستان کرونیکل، انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے