کورونا کا کوئی مذہب نہیں،خودکشی نہ کریں!

کورونا وائرس ، متعدد وائرسز ، جس کو سائنس کی زبان میں ( وائی رولجی Virology ) کہتے ہیں ، کی ایک قسم ہے – یہ ننگی انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتے ، اس لیے اس سے متعلق علم کو MICROBIOLOGY کہتے ہیں جو صرف خورد بین MICROSCOPES سے دیکھے جاتے ہیں – وائرس کا لفظ لاطینی اور اس سے پہلے یونانی طب میں استعمال ہوا ہے جس کے معنی زہر ہیں جو مختلف بیماریوں اور وباؤں کا باعث ہوتے ہیں –

اطباء نے ہر وائرس کے لیے احتیاط و پرہیز اور اگر ہو جائے تو مختلف نسخے تجویز بھی کیے ہیں اور آزمائے بھی ہیں – کورونا وائرس مختلف ملکوں یا علاقوں میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور لوگ اس کا شکار ہو کر شفا یاب ہوتے رہے لیکن جن لوگوں کی قوت مدافعت کمزور ہوتی تھی وہ لقمہ اجل بھی بن جاتے رہے –

اس سال اس نے ایک ہمہ گیر وبا کی صورت اختیار کر لی ہے جو اس وقت تک دوسو ملکوں میں پھیل گیا ہے اور ہزاروں جانیں بھی نگل گیا ہے ، اسی لیے اس کو PANDEMIC ، یعنی عالمگیر وبا کہاجاتا ہے -اس نے بلا لحاظ مذہب و جغرافیہ ، ہر عمر کے مرد وزن کو نشانہ بنایا ہے – دنیا بھر کے اطباء اور ماہرین صحت و وبائی امراض نے صرف “ احتیاط “ کے اصول کے نسخے پر اتفاق کیا ہے ، جس میں ہمہ وقتی صفائی، اجتماعات ، اختلاط اور غیرضروری سفر سے اجتناب، بیٹھنے چلنے میں فاصلہ ، کھانے پینے میں اعتدال اور قوت مدافعت بڑھانے والی خوراک کا استمعال ہے –

اس کی باوجود اگر کوئی اس وبا میں مبتلا ہوجائے تو نزلہ ، زکام ، بلغم کی عام دوائیں ہی استعمال ہوتی ہیں کیونکہ ابھی تک اس کا کوئی ویکسین یا اینٹی بیاٹک نہیں بنا ہے – چین ، جہاں سے مبینہ طور اس وبا کی ابتدا ہوئی ، اسی اصول کو اپناتے ہوئے اس وبا پر قابوپانے میں کامیاب ہوا ہے ۔ اسی طرح جو باقی ملک اس اصول پر عمل کررہے ہیں وہ کامیاب اور جو نہیں کررہے وہ جانیں گنوارہے ہیں –

ایک بات ذہن نشین کر لیں اس وبا کے علاوہ بھی ہر انسان ہر بیماری کا بلا لحاظ مذہب شکار ہو سکتا ہے ، جس کے اسباب اورعلاج ایک جیسا ہی ہو گا ، کیونکہ ہر انسان کی ساخت اور بلڈ گروپ ایک جیسے ہوتے ہیں -اس میں مسلمان اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں –

اسلامی دنیا میں بد قسمتی سے صرف مملکت پاکستان میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے بجائے رخ شیعہ ، سنی ، تفتان ،انگلستان اور اٹلی سے آنے والوں کی نذر ہوگیا ہے – ان ملکوں سے آنے والے سارے پاکستانی تھے اور ہیں ، جنہوں نے بہرحال اپنے ملک ہی واپس آنا تھا لیکن حکومت ان کو احتیاطی تدابیر کے عمل سے گزارنے میں نا کام رہی جن کے اپنے اپنے علاقوں میں چلے جانے کی وجہ سے اس متعدی وبا کے پھیلنے کی شروعات ہوگئی – اس میں شیعہ سنی کے الجھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی – ہر ملک سے آنے والا جس میں اس وائرس نے جگہ بنائی تھی اس کی وجہ سے ہر وہ شخص متاثر ہوا جو اس سے ملا ، بغل گیر ہوا ، اس کےسانس ، کھانسی یا نزلہ سے نکلنے والے پانی کے ذرات نے یہ زہر پھلایا –

یہ وبا متعدی ہے ، چھوٹ چھات والی ہے ، قربت ، اکھٹے میل ملاپ اور ملنے جلنے سے ایک دوسرے تک پہنچتی ہے – یہ وبامذہب یا فرقہ دیکھ کر نہ تو لگتی اور نہی کسی کو چھوڑتی ہے – اس کا کوئی مذہب اور کوئی سرحد نہیں ، اس لیے اس سے بچنے اورلگ جانے کی صورت میں شفایابی سے دنیا بھر میں ایک ہی قسم کی تدابیر اور نسخے کارگر ہوسکتے ہیں –

اسلامی نصاب تعلیم علم الایمان اور علم الابدان میں منقسم ہے – ایمان، دین یا مذہب سے تعلق رکھنے والے مسائل علم دین میں مہارت رکھنے والے ہی بہتر جانتے ہیں اور بدنی مسائل سے تعلق رکھنے والے معاملات کی مہارت صرف علم طب یا سائنسی علم رکھنے کے ماہرین ہی جانتے ہیں – جب نیم خواندہ لوگ علمی ، بالخصوص دینی علم میں مہارت دکھانا شروع کرتے ہیں یا نیم خواندہ یاسیاست زدہ مولوی ہر معاملہ میں اپنی ٹانگ اٹکاتے ہیں تو عام لوگ کنفیوز اور علم اور طب پر فتوے خلط ملط ہو جاتے ہیں ، جو فساداور ہلاکت کا باعث بنتے ہیں –

نبی کریم ( ص) کے زمانے سے پہلے بھی متعدد وبائیں پھیلتی رہی ہیں جن سے بچنے کی تدابیر اور اس زمانے کے مروج نسخہ جات استعمال ہوتے رہے جن میں سے اکثر کو نبی پا ک (ص ) نے اپنا کر بنی نوع انسان کے لیے ان کو مستند اور معتبرترین نسخے کے طور رائج کر دیا جس کا اتباع مسلمانوں کے لیے احتیاطی سنت کا مقام حاصل ہو گیا اور بنی نوع انسان جس مذہب سے بھی تعلق رکھتی ہے اسی کو preventive treatment یا احتیاطی علاج یا پرہیز کے طور استعمال کرتی ہے – وہ ایک بہت ہی سادہ اور قابل عمل نسخہ ہے کہ ” جس علاقے میں کوئی متعدی وبا ( جو اس زمانے میں طاعون اور کسی حد تک کوڑ و جزام بھی تھا ) پھیلی ہو ، جو اس علاقے کے اندر رہتا ہو وہ باہر نہ آئےتاکہ دوسرے علاقے کے لوگ اس متعدی وبا کے شکار نہ ہو جائیں اور جو اس سے باہر رہتے ہیں وہ اس کے اندر نہ جائیں تاکہ وہ اس میں مبتلاء نہ ہو جائیں -”

چین کے شہر ووہان ، جہاں سے اس وبا کے پیدا ہونے اور پھیلنے کی ابتدا ہونی بتائی جاتی ہے ، کو مکمل طور سیل ، یا لاک ڈاؤن کردیا گیا ، جس وجہ سے اس وبا پر قابو پالیا گیا – اسی طرح عمل کرنے والے دوسرے شہروں اور ملکوں میں بھی اس وبا پرقابو پایا گیا – اس کے بعد یہ وبا اٹلی اور ایران پہنچی – اٹلی والوں نے تو موج مستی کی وجہ سے اور ایران والوں نے اللہ توکل پرزیارات کے لیے زائرین کو موت و زیست اللہ کے ہاتھ کے عقیدے کی بنا پہ زیارات کو دیدار کے کے لیے کھلا چھوڑے رکھاجس کا نتیجہ موت کے بے لگامی کی صورت میں نکلا اور ان ملکوں سے آنے والوں نے موت کی یہ سوغات باقی ملکوں کے علاوہ پاکستان میں بھی لائی ، جبکہ نبی (ص) اور زمانہ قدیم کے علاوہ چین کے تازہ ترین عمل کو نظر انداز کیا – اللہ اپنی سنت نہیں بدلتا ، چنانچہ وبا اس وقت تک دو سو ممالک میں پھیل گئی ہے – یہ سزا ہم نے خود خریدی ہے ، بلکہ اپنے آپ کو خود ہلاکت میں ڈالاہے –

اب اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ صحت بھی حرکت میں آگیا جس نے احتیاطی تدابیر کے لئے دنیا بھر کے علم الابدان کے ماہرین کے مشورے سے ہدایات جاری کرنا شروع کردیں جس پر حکومت پاکستان بھی عمل پیرا ہونے پر کمر بستہ ہے -اس ادارہ کی ہدایات ان ہی اصولوں کا اس زمانے کے حالات کے مطابق تجدید ہے جو زمانہ قدیم اور بالخصوص نبی کریم (ص ) کے فرمان سےمطابقت رکھتے ہیں ، یعنی وبا زدہ علاقے میں داخل یا خارج نہ ہوں، غیر ضروری سفر ، اجتماعات و اختلاط سے اجتناب ، ملنے جلنےسے احتیاط ، اگر ناگزیر ہو تو مناسب فاصلہ رکھنا اور منہ ، ناک ہاتھ ڈھانپ کے رکھنا، مصافحہ نہ کرنا، بغل گیر نہ ہونا ، گھروں کی حدتک محدود رہنا ، وائرس سے متاثرہ شخص کو الگ تھلگ رکھنا ، صفائی بالخصوص ہاتھ ، نا ک ، منہ کا بار صابن سے دھونا اور وائرس کش لوشن کا استعمال ، کھانے پینے کی چیزوں کا صاف ستھرا رکھنا ، وغیرہ –

قرنطینہ کا لفظ آجکل عام ہو گیا ہے – یہ اطالوی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب چالیس دن ہیں – اس کا پس منظر یہ ہے کہ جبتیرویں صدی عیسوی میں یورپ میں طاؤن کی وبا نے کروڈوں لوگوں کی جان لی تو وینس کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہونے والے جہازوںپر پابندی لگائ گئ کہ چالیس دن تک لوگ جہاز سے باہر نہیں نکل سکتے تاکہ اس عرصہ کے دوران ان لوگوں کی وجہ سے وہاں وبا نہپھیل سکے – اب یہ مدت چودہ دن پر محیط ہو گئ ہے اور یہ اسی فلسفہ کی توسیع ہے کہ وبا زدہ علاقوں میں نہ کوئ دا مل ہو آر نہ نکلے اوریہ مدت چالیس دن تک ہو سکتی ہے –

ان احتیاطوں کو یقینی بنانے کے لیے دنیا بھر میں تدریسی ادارے اور جان و مال بچانے والے اداروں کے علاوہ باقی سارےادارے، کارخانے ، جہاز ، پبلک ٹرانسپورٹ حتی کہ الہامی مذاہب کے تینوں بڑے مراکز حرمین شریف ین، بیت المقدس، دیوار گریہ ، روم کا چرچ ، دنیا بھر کے مذاہب کی عبادت گاہیں بازار وغیرہ بند کیے گئے ہیں – یہی وہ مقامات ہیں جہاں سب سے زیادہ اجتماعات اور لوگوں کا میل ملاپ ہوتا ہے اور اسی سے یہ وبا متعدی صورت اختیار کر کے پھیلتی ہے اور پھیلی ہے –

افسوس کا مقام ہے کہ توکل علی اللہ کے نام پر ایرانی حکمرانوں نے زیارات پر پابندی نہ لگائی جس وجہ سے اجتماعات ہوئے وہاں یہ وبال چین اور اٹلی کے برابر پھیلی – اسی طرح دہلی اور رائے ونڈ میں اللہ کی راہ میں نکلنے والے انبوہ نے توکل علی اللہ کے نام پہ اجتماعات جاری رکھے وہاں بھی یہ حالت ہوئی، حالانکہ اونٹ کو رسی سے باندھ کر اور گھر کو کنڈی لگانے کے بعد اللہ کے سپردکرنا توکل علی اللہ ہے، ایسے موذی اور متعدی مرض سے بچنے کی تمام تر احتیاط کے بعد معاملہ اللہ کے سپرد کرنا توکل ہے ورنہ توصریحاً ہلاکت ، اللہ ، اس کے رسول اور علم الابدان کے ماہرین اور حکومت کے احکامات کی ہدایات کے خلاف عمل ہے جوجہالت کی انتہا ، خود کشی اور خود سوزی ہے –

پاکستان میں جمعہ ، تراویح اور عیدین کی مسجدوں میں باجماعت نماز پر بھی علماء نے مباحثے شروع کردیے ہیں – جب دنیا بھرکے ماہرین نے یہ کہہ دیا اجتماعات اور باہمی میل جول سے احتیاط اور اجتناب ہی اس متعدی وبا سے بچنے کا واحد طریقہ، حل اورعلاج ہے ، اس میں مساجد ہوں ، درگاہیں ہوں، بازار یا کوئی بھی دوسرا مقام ہو سب پر یہ اصول لاگو ہوتا ہے – نماز ہر حال میں فرض ، مسجد میں با جماعت افضل ترین لیکن ہر حال میں مسجد میں پڑھنا فرض نہیں ، جبکہ جان بچانا ہر حال میں فرض اور جان کوہلاکت میں ڈالنا اللہ کے حکم کی خلاف ورزی – ایسے حالات میں نمازیں صرف گھر میں پڑھنی چاہییں ، احتیاط کا یہ واحد ذریعہ ہے- مسجد کے امام، خادم ، اور اس میں رہائش رکھنے والے مسجد کے اندر ہی قیام کر کے مسجدوں کو آباد رکھیں –

قرآن پاک اور احادیث نبوی میں ہر موقع کے لیے ہدایات پائی جاتی ہیں – جان بچانے کے لئے قرآن میں مطلقا بیان کی گئی غذائیں ، جن میں غلیظ ترین خنزیر کا گوشت ہے – یہ بھی اضطراری کیفیت میں جان بچانے کے لیے کھانا فرضیت کا درجہ رکھتا ہے -قرآن پاک میں متعدد آیات میں جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے بچانا لازم قرار دیا گیاہے خواہ احتیاطی تدابیر یا ترکیب سے ہو ، دوا یا احتیاط سے ہو – ایسا نہ کرنا خودکشی ہے جو حرام قرار دی گئی ہے –

اس سائنسی اور تحقیقی دور میں بیماریوں اور و بائوں کے علاج اور احتیاط اپنے عروج پر ہے گو اس کی ہر دم ضرورت موجود بھی ہے – لہذا یہ معاملات ان کی ہدایت کے مطابق حل ہونے چاہییں – اطباء مقررہ دنوں تک قرنطینہ اور Isolation میں رکھ کے کورونا کا مرض لاحق ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں – اور اگر لاحق ہو جائے تو اس کے علاج کے لیے دنیا بھر کے سائنسی لٹریچر درج ذیل دواؤں اور غذاؤں کی تجویز پیش کرتے ہیں:

سب سے اہم دوا قوت مدافعت بڑھانے والی غذائیں ہیں جن میں ، گرم مشروب جس میں شہد اور لیموں ملایا جائے تو سونے پرسہاگہ ہے

بغیر چربی کے گوشت ، سبزیوں اور کالے چنے کا کالی مرچ ،تھوم اور ادرک کا سوپ ،

ہری سبزیاں، حسب استطاعت موسمی پھل،

ہلدی اور کلونجی دودھ یا پانی میں ملا کے

بار بار گرم پانی کے گھونٹ لینا،

اگر مرض لاحق ہوجائے جس کی علامت تیز بخار، مسلسل کھانسی ، گلا خشک ہونا اور بلغم نہ نکلنا، سانس پھول جانا ہے ، تو ؛

ڈاکٹروں کی ہدایت پر سختی سے عمل کرنا

الگ کمرے میں رہ کر ، دستانے، ماسک پہن لینا ،

صرف پیناڈول / پیراسیٹا مول استعمال کریں،

بلغم کو تحلیل کر کے نکالنے والا کھانسی کا شربت یا ایسی دیسی جڑی بوٹیوں کا جو شاندہ جو سانس اور پھیپھڑوں کی نالیوں کو گرم اورنرم کر کے نکالے –

وِکس ملے گرم پانی کے بھاپ،

کمرے میں moisture ہونا ،

شفاء اور زندگی دینا صرف اللہ پاک کی ذات کا اختیار ہے جو ہماری احتیاط ، علاج ، دواؤں اور دعاؤں سے بہر حال ممکن ہے – دنیا میں کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا علاج نہ ہو اس لیے جدید طب کا استفادہ کریں –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے