آئیے منہ کا ذائقہ بدلیں

پچھلے تقریباً ڈیڑھ مہینے سے ہمارے اس ’’چشمِ تماشا‘‘سمیت بیشتر کالم گھوم پھر کر کورونا کے حوالے سے ہی لکھے جارہے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سب ایک دوسرے کو مایوس ، بددلی، خوف ، فرسٹریشن اور غصے میں مبتلا کرتے چلے جارہے ہیں جب کہ کورونا سمیت دنیا کی ہر ذہنی اور جسمانی بیماری کے خلاف اصل قوتِ مدافعت ’’آفت زدگان‘‘ کا حوصلہ اور روّیہ ہوتا ہے۔

ان دنوں میری طرح گھروں میں بیٹھی ہوئی کم و بیش ساری دنیا کا بیشتر وقت کتابوں اور میڈیا کے ساتھ گزر رہا ہے مگر امرِ واقعہ یہی ہے کہ روائتی میڈیا سے خیر کی کوئی خبر دیکھے سنے اب ایک عرصہ ہوگیا ہے البتہ سوشل میڈیا پر اس کی تمام خرابیوں کے باوجود کہیں کہیں کچھ ایسا سیکھنے یا پڑھنے کو مل جاتا ہے جس سے چند لمحوں کے لیے ہی سہی ، طبیعت ہلکی اور بشاش ہوجاتی ہے اور دانش کی کئی ایسی باتوں سے بھی آگاہی ہوجاتی ہے جن کی طرف پہلے اس قدر توجہ نہیں تھی ۔

اپنے بک کارنر جہلم والے دوستوں کی شایع کردہ ایک کتاب ’’شاعروں ، ادیبوں کے لطیفے‘‘ مرتّبہ شاہد حمید صاحب سرہانے تو رکھی تھی مگر بوجوہ اُس کی باری نہیں آپا رہی تھی آج اچانک اُس کی ورق گردانی شروع کی تو بہت دن بعد مسلسل اور کہیں کہیں دل کھول کر ہنسنے کی صورت پیدا ہوئی اور خیال آیا کہ کیوں نہ اس خوشگوار تجربے میں آپ کو بھی شریک کیا جائے اور اس کالم کی وساطت سے کچھ منتخب لطائف ملے اور واقعات شیئر کیے جائیں۔

کورونا کی کوئی باقاعدہ دوا تو ابھی تک دریافت نہیں ہوئی مگر یہ نسخہ ہماری ذہنی قوتِ مدافعت کے لیے یقیناً کارآمد ثابت ہوسکتا ہے مگر اس کے آغاز سے پہلے چند باتیں جو فیس بک اور واٹس ایپ کی معرفت جمع ہوئیں اور ان کا ذکر ضروری بھی ہے سب سے پہلے اپنے شیخ زائداسپتال لاہور کے سابق سربراہ برادرم ڈاکٹرفرید کی ایک بات جو ہے تو کورونا ہی کے بارے میں مگر اس میں ’’خوف‘‘ کے ساتھ جس خوبصورتی سے نمٹا اور اسے ایک منفرد رنگ دیا گیا ہے اُس کا مزا اپنی جگہ ہے ، کہتے ہیں،

’’لوگ پوچھتے ہیں کیا Covid19واقعی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے؟

جواب ملا، پہلی بار جوا خانے اور عبادت خانے ایک ساتھ بند ہوئے ہیں اگر دوزخ اور جنت کسی ایک بات پر متفق ہوجائیں تو اس سے زیادہ سنجیدہ مسئلہ کیا ہوگا۔‘‘

اسی طرح ہمارے پیارے اور محترم دوست میاں اعجاز الحسن (جو اپنی سیاست اور مصورّی دونوں کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں، نے یوگنڈا کے سابق صدر موگابے کے مختلف مواقع پر کہے گئے کچھ جملے شیئر کیے ہیں جو اپنی ذکاوت، حسنِ مزاح، طنز کی کاٹ اور مخصوص نقطہ نظر کے حوالے سے ایسے دلچسپ اور خیال افروز ہیں کہ انھیں پڑھتے ہوئے انورمسعود کی یہ بات بار بار یاد آتی ہے کہ مزاح ایک ایسا پھل ہے کہ جسے نچوڑیں تو ہاتھ اور آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتی ہیں۔ میرے خیال میں رابرٹ موگابے کے یہ جملے اور تبصرے بھی مزاح کی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُردو ترجمہ بوجوہ قدرے آزاد رکھا گیا ہے۔

(1 اگر تمہارے کپڑے گھاس اور پتوں سے بنے ہوئے ہوں تو کھلی بکریوں سے دوستی مت کرو۔

(2 اگر تم بدصورت ہو تو تم بدصورت ہو، سو اندرونی خوبصورتی کی باتیں مت کرو کیونکہ لوگ تمہارے باطنی حسن کو دیکھنے کے لیے گھر سے ایکسرے کی مشین ساتھ لے کر نہیں نکلتے!

(3 جب کسی کی بکری گم ہوجاتی ہے تو اُسے ہر ہمسائے کے گھر میں بننے والے سُوپ کی خوشبو میں اُس کے ممیانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔

(4 اپنے تولیئے کے ہر حصے کی ایک جیسی حفاظت اور عزت کرو کیونکہ اُس کے جس حصے سے آج تم اپنی پیٹھ صاف کرتے ہو کل اُسے تمہیں اپنے چہرے کو صاف کرنا ہے۔(5 بھی کبھی جب تم اُن لڑکیوں کو دیکھتے ہو جن پر تم نے وہ دولت خرچ کردی جو تمہیں اپنی ماں پر خرچ کرنی چاہیے تھی تو کالے جادو کی سچائی پر یقین سا آنے لگتا ہے۔

(6 اگر صدر اوباما چاہتا ہے کہ میں اپنے ملک میں ہم جنسوں کی شادی کی اجازت دے دوں تو اُسے چاہیے کہ وہ میرے ملک یعنی زمبابوے میں آئے اور مجھ سے ملے تاکہ سب سے پہلے میں اس سے شادی کرسکوں۔

(7 سگریٹ کاغذ میں لپٹا ہوا تمباکو کا ایک ایسا ٹکڑا ہوتا ہے جس کے ایک طرف آگ ہوتی ہے اور دوسری طرف ایک بے وقوف!

(8 ’’صدرِ محترم آپ زمبابوے کے لوگوں کو کب خداحافظ کہیں گے؟‘‘

رابرٹ موگابے نے جواب دیا’’کہاں جارہے ہیں وہ‘‘؟

(9 نسل پرستی اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک سفید رنگ کی موٹروں میں سیاہ رنگ کے ٹائر لگائے جاتے رہیں گے ! جب تک سیاہ رنگ کو برائی اور سفید رنگ کو امن کا نشان سمجھا جائے گا اور جب تک لوگ سفید رنگ کے کپڑے شادیوں پر اور سیاہ رنگ کے لباس جنازوں پر پہنتے رہیں گے ! لیکن مجھے ان سب باتوں کی اُس وقت تک کوئی فکر نہیں جب تک میرے ہاتھ روم میں استعمال ہونے والے ٹشو پیپر کا رنگ سفید ہے ۔

(10 تم اپنی اگلی نسلوں کو کیسے اس بات پر قائل کرو گے کہ تعلیم ہی کامیابی کی کنجی ہے جب کہ اُنکے چاروں طرف بے شمار غریب پڑھے لکھوں اور گنتی کے چند امیر بدمعاشوں کا ہجوم ہے ۔

(11 اگر آدم اور حوّا چینی نسل کے ہوتے تو کبھی جنت سے نہ نکلتے کیونکہ اُس صورت میں وہ ضرور سانپ کو کھاتے اور سیب کو نظر انداز کردیتے۔

(12 کوئی شخص اپنے محبوب سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے دھوکا بھی دے سکتا ہے کیا ہم خدا کو مانتے ہوئے جرم نہیں کرتے؟

14)کسی شراب خانے میں چوری کرتے وقت خدا کے بارے میں سوچنا اس بات سے کہیں بہترہے کہ تم چرچ میں بیٹھ کر شراب کے بارے میں سوچو۔

(15اگر مجھے 1946میں واپس جانے کا موقع ملے تو میں ڈونلڈ ٹرمپ کے باپ کو بچے نہ پیدا کرنے کا مشورہ دوں گا۔

اسی طرح شوکت فہمی نے مولانا چراغ حسن حسّرت سے منسوب ایک بہت مزیدار واقعہ شیئر کیا ہے جس کے ساتھ آج کے اس کالم کو ختم کرتے ہیں انشاء اللہ اگلے کالم میں شاعروں اور ادیبوں کے کچھ منتخب لطیفوں سے بھی استفادہ کریں گے ۔

’’مولانا چراغ حسن حسرت نے کافی ہائوس میں کافی کا آرڈر دیا مگر بہت دیر تک نہ تو کافی آئی اور نہ ہی وہ بیرا دوبارہ دکھائی دیا ، تنگ آکر مولانا اپنی جگہ سے اٹھے اور مینیجر سے شکائت کی ۔ مینجر نے پوچھاکیا آپ اُس بیرے کو شکل سے پہچان سکتے ہیں جس کو آپ نے آرڈر دیا تھا مولانا نے کہا بالکل ۔ مینیجر بولا اچھا یہ بتایئے وہ کلین شیو تھا یا داڑھی والا؟

مولانا بولے بھائی جس وقت میں نے آرڈر دیا تھا اُس وقت تو اس کی داڑھی نہیں تھی ۔ اب کا میں کچھ نہیں کہہ سکتا!‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے