کورونا کے لئے بددعائیں!

تنگ آمد، بجنگ آمد والا محاورہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا۔ بس سمجھ لیں کہ آج سے میں نے اس پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ کر لیا ہے، اس لعنتی کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی اور اس سے بھی زیادہ خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔

سائنس دان اس کا علاج تلاش کرتے کرتے ’’پھاوا‘‘ ہو گئے ہیں، اس کے خلاف مانگی جانے والی سب دعائیں ابھی تک بےاثر ثابت ہو رہی ہیں چنانچہ یہ وائرس اگر اتنا بے غیرت ہے اور اپنی بدمعاشی سے باز نہیں آ رہا تو اب اسے بددعائیں دے کر دل کی بھڑاس تو نکالی جا سکتی ہے۔

میں نے ایک اسٹیج ڈرامے میں کچھ ’’بددعائیں‘‘ سنی تھیں جو اس ڈرامے کے کردار ایک دوسرے کو دے رہے تھے، ان میں سے مجھے سب سے زیادہ جو بددعا پسند آئی تھی وہ یہ تھی کہ اللہ کرے تمہیں جسم کے اس حصے میں خارش ہو جہاں تک تمہارا ہاتھ نہ پہنچ سکتا ہو! مگر گزشتہ روز عزیزم گل نو خیز اختر سے ملاقات ہوئی تو وہ کورونا کو وائرس سمجھنے کے بجائے اسے اس انداز میں بددعائیں دے رہا تھا جیسے ایک عاشق اپنے رقیب کو دیتا ہے۔

مثلاً تم دنیا میں جس کسی کو بھی فرینڈ ریکوسٹ بھیجو وہ اسے نفرت سے ٹھکرا دے۔ اللہ کرے لاک ڈائون میں تیرا انٹرنیٹ خراب ہو جائے، اللہ کرے تیرا پچاس کروڑ کا انعام نکلے تو پیسے زمین میں دبا دے اور تیری یادداشت گم ہو جائے۔ اللہ کرے تو چکن کھائے اور تجھے مونگ کی دال کا سواد آئے۔

اللہ کرے تو کسی ضروری میٹنگ میں جانے کے لیے دفتر پہنچے اور تیری زپ خراب ہو جائے، اللہ کرے سگنل پر آٹھ کھسرے تیری گاڑی کے قریب اکٹھے ہو جائیں اور تیری گاڑی کا شیشہ اوپر نہ ہو، اللہ کرے تیرے سامنے بھنا ہوا قیمہ مٹن اور پیزا پڑا ہو اور تیری بھوک مر جائے!

اس کے علاوہ کچھ براہِ راست بددعائیں ہیں جو ہر مسلمان پر لازم ہیں کہ وہ بعد از نماز اس منحوس کے لیے مانگے، مثلاً کورونا وائرس تجھے سینی ٹائزر کی موت نصیب ہو، بیس سیکنڈ تک صابن کا عذاب ہر پانچ منٹ بعد سہنا پڑے، تیری سات نسلوں کو بھی اپنا شکار نصیب نہ ہو، تجھ پر سرجیکل ماسک کی پھٹکار پڑے، تیری آل اولاد اپنی کم نصیبی پر گھٹ گھٹ کر مر جائے، اللہ کرے تجھے کتے کی موت نصیب ہو، اللہ کرے تجھے فیصل آباد والے جگتیں مار مار کے تیرا بیڑا غرق کر دیں اور تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے، اللہ کرے تجھے ایک بھی انسانی راشن نہ ملے۔

اللہ کرے تیرا پورا پورا میڈیا ٹرائل ہو، اللہ کرے تیرے خلاف ایک ایسا گانا بنے اور تو کانوں پر ہاتھ رکھ کر ’’نہیں نہیں‘‘ چلاتا پھرے، اللہ کرے تیری ساری زندگی قرنطینہ میں گزرے، اللہ کرے تو بھی اپنی فیملی کو بتاتا پھرے کہ انسانوں کو لگنا نہیں، ان سے ڈرنا ہے۔ اللہ کرے تجھے بھی گھر میں قید ہونا پڑے اور دس گھنٹے سونے کے بعد مجبوراً پھر سونا پڑے!

مجھے امید ہے کہ ان بددعائوں سے قارئین کے دل کی بھڑاس نکل گئی ہو گی اور اب یہ بے غیرت بھی ذرا سی غیرت کا مظاہرہ کرکے چلو بھر پانی میں ڈوب مرے گا۔ میرے خیال میں مجھے یہاں یہ وضاحت کر دینا چاہئے کہ یہ حرام خور وائرس ان لوگوں کو زیادہ شکار بناتا ہے جن کی نیندیں اس کے خوف سے اڑی ہوئی ہیں، چنانچہ میں ان دنوں لوگوں کو خوش باش رکھنے کے لیے جو ہلکے پھلکے کالم لکھ رہا ہوں، یہ کالم بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

مجھے پتا ہے کہ میرا یہ کالم میرے اور دیرینہ دوستوں غمگین سلیمانی اور خوش باش عیش پوری دونوں کو پسند نہیں آئے گا، میرا دوست غمگین سلیمانی صرف خوفناک اور زندگی سے بیزار کرنے و الی کتابیں پڑھتا اور پھر ان کتابوں کے جراثیم آگے پھیلاتا ہے۔

اسی طرح خوش باش عیش پوری بھی یہ کالم پڑھ کر مجھ سے ناراض ہو گا کہ یہ وہ شخص ہے جو ’’بابر بہ عیش کوش‘‘ کا قائل ہے، اسے اس پر غصہ آئے گا کہ میں نے اس میں اس مردود وائرس کے خلاف استعمال کی جانے والی احتیاطات اور ان سائنس دانوں کا مذاق کیوں نہیں اڑایا جو دن رات اس کی سرکوبی میں لگے ہوئے ہیں۔

چلیں! ان دونوں پر لعنت بھیجتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم نے اس مردود سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے، پھر وہ احتیاطی تدابیر استعمال کرنا ہیں جو سائنسی طور پر منظور شدہ ہیں۔

آپ کی دلی بدعائیں آپ کے دلی سکون سے زیادہ اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے ہیں، بس آپ اس کے خلاف لڑتے رہیں یہ ان شاء اللہ بہت جلد عبرتناک موت مرے گا، میں پیرزادہ ہوں، آپ میری بات پر یقین کرلیں، اس سے میری پیرزادگی کا ذرا بھرم رہ جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے