کیا یہ کام بھی امریکا کرے گا ؟؟

مسلم قوم استعماری طاقتوں کے گرداب میں؟

دنیا کہ کئی تہذیبوں میں ماضی قریب تک غلامی کا تصور پایا جاتا تھا جس میں مرد کو بطور غلام اور عورت کو بطور کنیز خریدنے اور بیچنے کا رواج تھا۔ اس طرح انسانوں کی خرید و فروخت کے لیے بھی باقاعدہ مارکٹیں لگتی تھیں۔ آج ایسی مارکٹیں افراد کی خرید و فروخت کے لیے تو نہیں سجتی تاہم اقوام کی خرید و فروخت کے لیے سجتی ہیں۔ یوں کہہ لیجیے آج افراد کو نہیں بلکہ اقوام کو غلام بنایا جاتا ہے۔ قوموں کے خریدار کو استعمار کہا جاتا ہے، جو ترقی اور فلاح و بہبود کے دلنشین نعروں کے ذریعے اقوام کی خود مختاری خرید لیتے ہیں۔ غلام چاہے ایک فرد ہو یا ایک قوم اس کی اپنی کوئی رائے ہوتی ہے اور نہ ہی آزادی، اس کو حق ملکیت حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی کسی چیز میں تصرف کا حق،بس اس کے پاس صرف ایک چیز جرم ضعیفی ہے اور اس کا صرف ایک ہی کام ہے ؛ خدمت خدمت اور خدمت۔

ایسی قوم کو اپنے آقا کی طرف سے جو کام سونپا جائے وہ وہی کام کرنے پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔ اس لیے ان کو اعلیٰ تعلیم سے غرض ہے ، نہ ترقی سے، تسخیر کائنات سے لینا دینا ہے اور نہ ہی تخلیق اور ایجادات سے، تحقیق کے رموز سے بھی نا آشنا ۔ قوموں کی قیادت و رہبری بھی اس قوم کے منصبی دائرہ کار سے باہر ہے۔

میدان تعلیم کا ہو، یا تحقیق کا ، صحافت کا ہو یا معیشت کا، غلام اقوام انہی تصورات پر کھڑی ہوتی ہیں جہاں سے برتر اقوام جگالی کر کے آگے بڑھ چکی ہوتی ہیں۔ نہ وہ فکر کی گہرائی اور نہ سوچ میں وسعت، نہ مزاج میں توازن اور نہ طبیعت میں تحمل۔ بس آقا جس کام پر لگادے اسی میں مگن، ضرورت پڑی تو اسے دین کا لبادہ بھی چڑھا دے، تقدس کے پیرائے میں اسے پیش کرے ، اپنی جان پیش کرنا ہو یا تھوک کے حساب سے دوسروں کی جان لینی ہو، اسے کوئی پروا نہیں کیونکہ وہ اسی کام پر مامور ہے۔ کبھی فرقہ کے نام پر، کبھی نسل کے نام پر، کبھی رنگ کا مسئلہ تو کبھی صنف کا۔ ہاں ایک دفعہ کاروبار چل پڑے تو خریدار بھی زیادہ اور منافع بھی زیادہ۔ طلب کے مطابق رسد بھی زیادہ۔ اس کا ثمرہ غربت، جہالت، افلاس، بیماریاں اور زبوں حالی کی صورت میں نکلتا ہے جس سے سارے فیضیاب ہوتے ہیں۔ دہشت، وحشت، تشدد و بربریت کا کاروبار میں خود کفیل ہونے کے بعد اب ایسی قوم یہی گوہر نایاب دیگر ممالک کو برآمد بھی کرنے لگتی ہے۔ چونکہ یہی سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔ اسی سے اسلحے کی فیکٹریاں چلتی ہیں، مفتوحہ علاقوقں کے تیل، گیس سمیت قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، بہت سے ممنوعہ اشیاد کی بلیک مارکٹنگ ممکن ہوتی ہے، بہت سوں کا کاروبار اور روزگار چلتا ہے، وغیرہ وغیرہ ۔

تجربہ یہ کہتا ہے کہ غلام قوموں کی آپس میں دوڑ اس بات پر لگی رہتی ہے کہ کون اپنے آقا کی بہتر غلامی کر سکتی ہے ۔ جب کوئی پوری قوم غلام بن جائے تو اس کی ثقافت بھی غلامی کی زد میں آتی ہے اور اس کی تاریخ بھی۔ چنانچہ کھانا، لباس ، زبان ، ادب اور مصنوعات سب وہی کچھ برتر اور بہتر سمجھا جاتا ہے جس کی نسبت آقاؤں کی طرف ہو۔ ایسی قوموں میں ایک طرف شعور اندھی تقلید و عقیدت سے زنگ آلود ہوجاتا ہے تو دوسری طرف صلاحیتوں اور فرصتوں کو باہمی رقابت سے فراغت حاصل نہیں ۔ جس سے اندرونی طور پر مختلف گروہوں کے درمیان سماجی رقابت بڑھتی جارہی ہے۔
خود مختاری سے محروم غلام قوم اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں رکھتی کہ اپنی غلطیوں کی ذمہ داری اٹھائے۔محراب و منبر سے اٹھنے والی منافرت کی شعلہ بیانی ہو یا اقتدار کی کھینچاتانی، اداروں کی بدعنوانی ہو یا لاقانونیت کا راج، پتھر چاہے جدھر سے آئے، آگ بھلے جدھر سے برسائے ، سارا الزام استعمار پر عائد کر کے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے۔ ذمہ داریوں سے بھاگ دوڑ سے ماحول میں تناؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ معاشرتی گھٹن کی ایسی صورت حال میں ہر چھوٹے بڑے واقعات پر اپنے ہی گلی محلے میں اور اپنے ہی سڑکیں بند کر دینا، استعماری طاقتوں کے خلاف نعرے بلند کرنا، وال چاکنگ کرنا، جلسے جلوس نکالنا ، چیخ وپکار ، جذباتی اجتماعات اور شعلہ انگیز خطابات شروع ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنانا، تشدد پر اُتر آنا، انتہاپسندی کا راستہ اختیار کرنا اور صبح شام سازشوں کا ورد کرتے رہنا ایک معمول بن جاتا ہے۔ آج کل کے دور میں ایسے رویوں کو ایک شکست خودرہ قوم کی علامت سمجھے جا سکتے ہیں۔

آپ عالمی سیاست کے طول و عرض پر نظر دوڑائیں تو آپ با آسانی دیکھ سکتے ہیں کہ استعماری طاقتیں اپنی طفیلی حکومتوں کو ٹشو پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ استعماری طاقتیں اپنے معاشی و سیاسی مفادات کے حصول اور مختلف خطوں میں اپنے اثر رسوخ بڑھانے کے لیے ہمیشہ سے باہم سرد اور گرم جنگوں کا سہارا لیتی رہی ہیں۔عام طور پر یہ جنگیں وہ اپنی سرزمینوں پر نہیں بلکہ اپنی کٹھ پتلی ریاستوں میں کھیلتی ہیں۔ ان ممالک میں ان کے لیے میدان ، زرخرید افرادی قوت اور مواقع سب حاضر ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا، ان کا استحصال کرنا اور ضرورت پڑی تو پوری طاقت کے ساتھ حملہ کرنا ان طاقتوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ طفیلی ممالک کی سالمیت، خود مختاری اور استحکام ان بڑی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ حتی کہ طاقت کو حق کا درجہ بھی دیا جاتا ہے یعنی جو طاقتور کرے وہی حق قرار پاتا ہے اور عدالتیں اس کی تائید توثیق کرتی ہیں۔ طاقتور مطلق العنان بن جاتا ہے اور اس کے جرائم پر جواب دہی کا تصور ختم ہوجاتاہے۔

تاریخ میں کم و بیش ہر مذہب اور نظریاتی نظاموں پر مبنی ریاستوں نے استعمار کا کردار ادا کرتے ہوئے بزور تلوار مختلف خطوں، علاقوں اور ممالک میں فتوحات کی ہیں۔ قدیم قبائلی نظام ہو، یا ماضی قریب کے یہودی، مسیحی، ہندو اور مسلم بادشاہتیں، مسلم تاریخ کے بنو امیہ ہو یا بنو عباس، بنو فاطمہ ہو یا ترکی کی عثمانیہ سلطنت یا ہندوستان کی مسلم ریاستیں سب وہی کچھ کرتی رہی ہیں جو آج یورپ، امریکہ، روس اور چین کر رہے ہیں۔ مسلمان قوم گزشتہ کئی صدیوں سے مسلسل استعماری طاقتوں کے دست نگر ہے۔ آج زیادہ تر عرب ممالک امریکی استعمار کی کاسہ لیسی کو عبادت سمجھتے ہیں چنانچہ وہاں ہر بڑی تبدیلی میں توثیق نامہ واشنگٹن سے آتا ہے، برصغیر کے مسلمان برطانوی استعمار کو ظل الہی قرار دیتے رہے ہیں ۔ جبکہ نیٹو کا اتحادی ملک ترکی کئی دہائیوں سے پورپی یونین میں شامل ہونے کی آس لیے اس سے قبول نامے کے انتظار میں ہے۔ شام اور لبنان سمیت کئی ممالک پر فرانسیسی استعمار نے کئی دہائیاں حکومت کی ہے ۔ ایشیا کوچک کی مسلم ریاستیں روسی استعمار کا حصہ رہی ہیں۔ ایران انقلاب سے پہلے امریکی استعمار کا حصہ اور انقلاب کے بعد روسی استعمار کے ساتھ بیٹھنے کو اپنی فتح سمجھ رہا ہے۔ چین مشرق وسطی تک کم خرچ پر تجارتی رسائی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کا زمینی راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ پاکستان چینی استعمار کی اس خدمت کو ہمالیہ سے بھی اونچی اور سمندر سے گہری دوستی کا نام دے رہا ہے۔ استعمار کا طریقہ واردات بھی وہی، اور غلام قوم کا مزاج بھی کم و بیش ایک جیسا ہی ہے۔

عراق اور افغانستان پر حملے کے بعد اس وقت مشرق وسطیٰ استعماری طاقتوں کے مفادات کی جنگ کا میدان ہے۔ لہذا امریکہ نواز سعودی اتحاد یمن پر حملہ آور ہے، بشار الاسد کے مخالف امریکی اتحاد کا دعویٰ ہے کہ وہ شام میں اسد مخالف تنظیموں کی پشت پناہی اور داعش کی سرکوبی کے لیے سرگرم ہے۔ روس نواز ایرانی اتحاد شام میں بشار الاسد کی حمایت میں میدان جنگ میں ہے۔ روس کا دعویٰ ہے کہ امریکی اتحاد داعش کو مزید مضبوط بنا رہا ہے۔ نیٹو کا اتحادی ملک ترکی بشار الاسد کو فارغ کرانے کے لیے داعش سمیت دیگر اسد مخالفین کا پشت پناہ ہے۔ اس پوری الجھن اور مسلمانوں کی باہمی جنگ سے صہیونی ریاست اپنے آپ کو ماضی کی نسبت زیادہ محفوظ محسوس کر رہی ہے اور موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے اور وہ گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے انتظار میں ہے۔ جبکہ مسلم ممالک اس آگ و آہن کے کھیل میں میں یا کھلاڑی ہیں یا تماشائی۔

استعمار کی اس غلامی سے نکلنے کا حل باہر سے در آمد نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کا حل ہمارے معاشرے سے ہی نکل سکتا ہے۔ اس سرداب سے نکلنے کا راستہ وہی ہے جس طرح کچھ صدیاں قبل یورپ نکل آیا، امریکہ نکل ٓیا اور چین نکل آیا، حالانکہ ان کی حالت زار ہم سے بھی بدتر ہوچکی تھی۔ یعنی تعمیر و ترقی کا راستہ امن اور ہم آہنگی کا راستہ، تعاون اور مثبت مقابلے کا راستہ۔ اس کا حل ہر ایک کے پاس ہے۔ آپ کے پاس ہے اور میرے پاس بھی۔ مثبت سوچ، بہہ سے بہتر اور بہتر سے بہترین کی طرف سفر کرنے کا عزم، دلنشین گفتار اور عملی کردار اس کا نقطہ آغاز ہے۔ اس گرداب سے نکلنے کا راستہ انفرادی ذمہ داری کی ادائیگی ہے۔ سماجی سطح پر شرح خواندگی میں اضافہ، سب شہریوں کے لیے یکساں معیاری تعلیمی نظام کی تشکیل، امن کا فروغ، باہمی تعاون، سماجی ہم آہنگی اور اسی طرح ریاستی سطح پر قانون کی بالا دستی ، سماجی انصاف کی فراہمی، انسانی وسائل پر سرمایہ کاری، ترقی کے مواقع کی تلاش، جمہوری اقدار کی ترویج ، شہریوں کے انسانی حقوق کا تحفط، اور بہتر طرز حکمرانی اس کا حل ہے۔ فلسفہ، مذہب، سماجیات میں عصری تقاضوں اور ضروریات کے تحت اجتہاد اور اجتماعی دانش کے ذریعے مطابقت پیدا کرنا اس کا حل ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کو مسخر کر کے انسان کے اور کائنات کے مخفی امکانات کو سامنے لانے میں اس کا حل ہے۔ وسائل کو باہمی انتشار پر لگانے کے بجائے باہمی تعاون اور اجتماعی ترقی پر لگانے میں اس کا حل پنہاں ہے۔اس کا حل ہر وقت عالمی سازش کے خوف کو خود اعتمادی میں بدلنے میں ہے۔ عالمی سطح پر یہ باور کرانا ہے کہ ہم جنگ کے نہیں امن کے خوہاں ہیں، تشدد کے بجائے ترقی پر یقین رکھتے ہیں۔

کیا یہ کام بھی استعمار کرے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے