ام المؤمنین خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا

نام خدیجہ، والد کا نام خویلد بن اسد قرشی، والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ جو قبیلہ بنو عامر سے تعلق رکھتی تھیں۔ کنیت ام القاسم اور لقب طاہرہ ہے، زمانہ جاہلیت میں ہی آپ کی پاکدامنی، عفت اور اخلاق کریمانہ کا معاشرہ معترف رہا یوں آپ کو طاہرہ کے لقب سے ملقب کیا گیا۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی زوجہ محترمہ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متصل قبول اسلام میں بھی آپ کا نمبر پہلا ہے۔ سلسلہ نزول وحی کے اوائل میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تورات اور انجیل کے عالم اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں، ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی آخر الزمان ہونے کی بشارت دی۔

عام الفیل سے تقریبا پندرہ سال قبل مکہ مکرمہ میں آنکھ کھولی، آپ کی تربیت انتہائی معزز اور شریف خاندان میں ہوئی، والد قبیلہ بنو اسد کے شرفا اور اجلائ میں سے تھے۔ خویلد کو حد درجہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ حضرت خدیجہ کا آبائی پیشہ تجارت تھا یوں والد اور شوہر کی وفات کے بعد ذریعہ معاش تجارت کو اپنایا اور معاوضہ دے کر مال تجارت شہر سے باہر مختلف منڈیوں میں بھیجا کرتی تھی۔

کافی جانچ پڑتال کے بعد ہی کسی دیانتدار اور مخلص کو سامان تجارت دے کر روانہ کرتی تھی، کسی نے آپ کو محمد بن عبد اللہ (رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کی دیانت، امانت اور صداقت کی خبر دی یوں ایک بار آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے غلام میسرہ کی معیت میں تجارتی مال دے کر ملک شام کے تجارتی شہر بصرہ کی منڈی میں بھیجا۔ اس مرتبہ گزشتہ سالوں کی نسبت دوگنا منافع ہوا۔ اور حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طے شدہ معاہدے کی رو سے دوگنا معاوضہ دیا۔

واپسی پر میسرہ نے حضرت خدیجہ کو احوال سفر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت، امانت، صداقت اور شرافت سے آگاہ کیا۔ یوں آپ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نفیسہ بنت مینہ کے ذریعے نکاح کا پیغام بھجوایا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاورت کے بعد پیغام نکاح کو قبول فرمایا۔ تاریخ معین پر حمزہ بن عبد المطلب اور حضرت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد کی موجودگی میں حضرت ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا۔باہمی مشاورت سے پانچ سو طلائی درہم مہر مقرر ہوا اور حضرت خدیجہ محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم میں آگئیں۔ واضح ہو اس سے پہلے آپ یکے بعد دیگرے ابو ہالہ بن زرارہ الاسیدی اور عتیق بن عابد مخزومی کے عقد میں بھی رہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ابراہیم باندی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے، باقی تمام زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ، قاسم اور عبد اللہ (جو طاہر اور طیب کے لقب سے ملقب تھے) رضی اللہ عنہم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد نرینہ صغر سنی میں ہی دنیا سے رخصت ہوئی۔

ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا السابقون الاولون میں سے ہیں، اوائل نزول وحی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت بندھائی اور خوشخبری دی۔ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رہیں اور وفادار زوجہ کا ثبوت دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی چند ایک بہترین خواتین میں شمار کیا۔ اللہ تعالی نے حضرت جبرائیل کے ذریعے آپ کو سلام بھیجا اور جنت میں ایک خوبصورت محل کی خوشخبری سنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے حد درجہ عقیدت تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ کی جب تک حیات تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری زندگی آپ کا تذکرہ اور آپ کی سہیلیوں کا خیال رکھتے رہے۔

ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی بت پرستی سے نفرت ہو گئی تھی، آپ عفت و پاکدامنی، دیانت، امانت، ذہانت، دانائی، اعلی اخلاق، عزم و ہمت اور صبر و رضا کا مجسم نمونہ تھیں۔ دنیائے عالم کی خواتین کے لئے آپ کی ذات بابرکات زندگی کے ہر شعبے میں بہترین نمونہ عمل ہے۔

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دسویں سال10 یا 11 رمضان 64 سال 6 ماہ کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود آپ کو قبر میں اتارا اور اپنی وفادار اور سب سے بڑھ کر غمگسار زوجہ کو الوداع کیا، ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی قبر حجون کے مقبرے میں ہے، آپ رضی اللہ عنہا کی وفات کا سال "عام الحزن” مشہور ہوا کیونکہ اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چہیتے اور غمگسار چچا حضرت ابو طالب کی جدائی کا غم بھی برداشت کرنا پڑا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے