خیبرپختونخوا: بچوں کے حقوق اور تحفظ کےلئے قانون فائلوں تک محدود ہوکر رہ گیا

خیبرپختونخوا میں بچوں کے حقوق اور تحفظ کےلئے قانون فائلوں تک محدود ہوکر رہ گیا۔ قانون کی رو سے قائم کردہ کمیشن کا سربراہ گزشتہ چھ سال سے بھی حکومتی سردمہری اور عدم دلچسپی کے باعث تعینات نہ ہوسکا، اسی طرح بارہ اضلاع میں بچوں کے حقوق کےلئے کام کرنےوالے چائلڈ پروٹیکشن یونٹس بھی فنڈز کی عد م فراہمی کے باعث عملی طورپر غیر فعال ہوچکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں بچوں کےخلاف جنسی اور جسمانی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافے کے باوجود قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث حکومت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

[pullquote]چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کیا ہے؟؟[/pullquote]

2010ءمیں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کی منظوری کے بعد اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کےلئے ایک خود مختار 9 رکنی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائےگا، جس کے چیئرمین سماجی بہبود کے صوبائی وزیر ہونگے، اسی طرح باقی سات ممبران بھی خزانہ ، داخلہ ، پارلیمانی امور، بلدیات، تعلیم اور صوبائی اسمبلی کے سیکرٹری ہونگے۔اس میں سب سے اہم عہدہ چیف پروٹیکشن آفیسر کا ہے، جس کےلئے حکومت ایک سرچ کمیٹی بنائے گی ، کمیٹی تین ناموں کو وزیراعلیٰ کے پاس منظوری کےلئے بھجوائے گا جس کے بعد کابینہ سے اس کی منظوری لی جائےگی۔ قانون کی روسے چیف پروٹیکشن افیسر کی عدم موجودگی کے باعث کمیشن عملاً غیر فعال ہوتاہے۔

قانون کی رو سے چائلڈ پروٹیکشن کمیشن بچوں کے حقوق اور ان پر تشدد سے متعلق قوانین اور احکامات کو وضع کریگا ، انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطہ رکھے گا۔ بچوں کے تحفظ بالخصوص قائم کردہ یونٹس کےلئے حکومت کی جانب سے فنڈز کی منظوری اور دیگر امور کی نگرانی کریگا۔ ایکٹ میں کہا گیاہے کہ کمیشن نہ صرف چائلڈ پروٹیکشن یونٹس بنائے گا بلکہ اس کی نگرانی بھی کریگا۔ تشدد کے شکار بچوں کےلئے مختلف قسم کے مراکز کے قیام کے علاوہ ان کی تعلیم اور دیگر اخراجات کا بھی خیال رکھے گا۔ بچوں کے تشدد سے متعلق ڈیٹا جمع کریگا اور یہ کمیشن عملاًحکومت کے دائر اختیار کی بجائے خود مختار رہےگا۔

[pullquote]چائلڈ کمیشن کے ساتھ کیا ہوا؟؟[/pullquote]

2010ءمیں منظور کردہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت 2011ءمیں کمیشن قائم کیا گیا اور اس وقت کی سماجی بہبود کی صوبائی وزیر ستارہ ایاز کے قریبی رشتہ دار کو اس کمیشن میں چیف پروٹیکشن افیسر کی ذمہ داریاںدی گئیں۔2014ءمیں تین سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے چیف پروٹیکشن افیسر کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت کی بعدازاں جب اس محکمے کا قلمدان تحریک انصاف کے اتحادی قومی وطن پارٹی کے زمرے میں آیا تو انہوں نے پارٹی کے ایک اہم شخصیت کو چیف پروٹیکشن افیسر بنانے کےلئے لابنگ شروع کی لیکن انہیں دنوں قومی وطن پارتی کو حکومت سے نکال دیا گیاجس کے باعث یہ کمیشن خالی رہ گیا اور 2014ءسے اب تک چیف پروٹیکشن افیسر کی تعیناتی نہ ہوسکی۔

[pullquote]اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کا کیا بنا؟؟[/pullquote]

2011ءمیں قانون کی رو سے کمیشن کی منظوری کے بعد خیبرپختونخوا کے 25میں سے صرف 8اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس قائم کئے گئے ۔ تحریک انصاف نے مزید 4اضلاع میں یونٹس قائم کئے ۔2016ءمیں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کی مالی معاونت سے متعلق یونیسف نے خیبرپختونخو احکومت کومراسلہ بھیجا کہ اب صوبائی حکومت خود ان یونٹس کی انتظامی امور کے علاوہ مالی امور کی بھی ذمہ داری سنبھالیں تاہم صوبائی حکومت نے درخواست کی یونیسف مزید کچھ عرصہ کےلئے ان یونٹس کی مالی معاونت کریں۔تاہم دسمبر 2018ءمیں یونیسف نے 12اضلاع میں قائم چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کی مالی معاونت سے ہاتھ اٹھالئے۔

2019ء میں خیبرپختونخوا حکومت نے چائلڈ پروٹیکشن یونٹس نے 4 کروڑ 60لاکھ روپے مختص کئے اور فیصلہ کیا یونٹس کو ازسر نو بحال کیا جائےگا، جس کے لئے اخبارات میں اشتہارات بھی دئیے گئے، لیکن بدقسمتی سے حکومت کا یہ فیصلہ فائلوں سے آگے نہ بڑ ھ سکا۔ کمیشن کا دعوی ہے کہ انہوں نے 12اضلاع میں ایک ہزار سے زائد رضاکار فورس قائم کئے ہیں، لیکن عملی طورپر تمام یونٹس غیر فعال ہیں۔ اس وقت نہ تو کمیشن کے سہ ماہی اجلاس ہوتے ہیں نہ ہی بچوں سے متعلق کسی قسم کا ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس متعلق کسی قسم کا دوسرا ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت غیر ملکی امداد کے ذریعے صوبے کے مختلف علاقوں میں 4 عدالتیں قائم کئے گئے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے