حصہ اول
ہار چکے تھے جب ہر اک محاز پر
قتل کہاں کرتے سوائے نماز میں
قارئین کرام؛ آج میرا موضوع سخن کریم آقا ﷺ کے یار، حیدر کرار ؓ حضرت علی کرم اللہ وجہؓ ہیں جن کی صفت و توصیف کرنا میرے جیسے عاجز کی بساط سے باہر ہے، مگر ثواب کی خاطر اپنا حصہ بقدر جسُہ ڈال رہا ہوں ، ورنہ حضرت علیؓ کا مرتبہ و توصیف یا مصطفیﷺ جانے یا خدائے لم یزل ہی جانے۔
کون حضرت علی ؓ جو مواخاتی بھائی رسول ﷺ ، جو سرتاج خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؑ ، پدر سرداران جنت حسنین کریم ؓ ، اصحاب البشرہ ؓ، اصحاب البدرؓ اور بیت رضوان کی مقدس اور محترم ہستیوں میں باوصف ہستی جن کو حضور نبی کریمﷺ نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوشخبری دی، وہ علیؓ جن کو السابقون الاولون میں خاص مرتبہ دیا گیا، وہ علی جو خلافت راشدہ کی امانت کے امین، وہ علیؓ جو گفتار کے غازی اور کردار کے دھنی، جن کا نام علیؓ، لقب حیدر و مرتضیٰ، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب جو نسبی طور پر بھی قربت رسول ﷺ کی سعادت سے سرخرو اور دلی طور پر بھی آقا کریم ﷺ کے ہمراہی۔
وہ علیؓ جو ماں باپ دونوں طرف سے دنیا کے سب سے اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ یعنی ہاشمی النسل، جو فصاحت و بلاغت کے پیکر، اعلیٰ درجے کے خطیب، شجاعت و بہادری میں ضرب المثل، میدان جنگ میں تلوار کے دھنی، فاٹتح خیبر، اللہ کے گھر میں زاہد شب بیدار، مفتی، عالم، متقیٰ، جود و سخا کے سمندر، زہانت و دیانت میں اعلیٰ و عرفہ، خلیفہ وقت ہونے کے باوجود عاجزی و انکساری کے پیکر بلکہ دنیا کی تاریخ میں آپ کے علاوہ کوئی اور ایسا نہیں ہوا جو خانہ کعبہ میں مولود ہواء اور مسجد میں شہادت سے سرفراز ہوا ایسی ہستی جن کو کریم آقا ﷺ نے ہجرت کے وقت جب کفار لہو کے پیاسے تھے تو اپنے بستر پر سلانے کی سعادت بخشی اور فرمایا، علیؓ امانتیں واپس کر کے آنا، اور حضرت علیؓ کا برضا و رغبت اس حکم کو شرف کے طور پر قبول فرمانا یہ عظیم سعادت ہی تھی۔
حضرت سعد ابن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا، کہ تم میر ی طرف سے اس مرتبے پر ہو جس مرتبے پر حضرت ہارون ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ کی طرف سے تھے مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ (بحوالہ بخاری و مسلم)
حضرت علیؓ کا بدن دوہرا، قد میانہ، چہرہ روشن و منور، داڑھی گھنی اور حلقہ دار، ناک بلند، رخساروں پر گوشت، غلافی اور بڑی آنکھیں، پیشانی کشادہ، کاندھے بھاری اور چوڑے، بازو اور کلائیاں پُر گوشت، سینہ چوڑا، چہرہ پر مسکراہٹ اور ماتھے پر سجدوں کے نشاں، لباس معمولی مگر صاف ہوتا، آپؓ کا عبا اور عمامہ سادگی کا مظہر تھے، گفتگو علم و حکمت سے بھر پور۔
آقا دو عالم ﷺ نے فرمایا،
میں علم کا شہر ہوں اور ابو بکر ؓ اس شہر کی بنیاد ہے، اور عمر ؓ اس کی دیوار ہے، اور عثمان ؓ اس کی چھت ہے اور علی ؓ اس کا دروازہ ہے۔ (بحوالہ بخاری جلد ۲، صفحہ ۴۱۲)۔ اب آپ جیسے زہین و فطین قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں جب تک بندہ دروازے میں داخل نہ ہو تب تک کسی شہر میں داخلہ مشکل ہوتا ہے، تو اس بات سے مقام علیؓ کی وضاحت ہو جاتی ہے۔
آپ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلا م قبول کرنے کا شرف حاصل کیا۔ نبی کریم ﷺ جب حضرت علیؓ کی ولادت ہوئی تو آپ ؓ کو دیکھنے گئے ، آپ ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے حضرت علیؓ نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں، آپ ﷺ نے جب حضرت علی ؓ کو ہاتھوں میں اُٹھایا تو حضرت علی ؓ نے آنکھیں کھول دیں، کریم آقا ﷺ نے اپنا لعاب دہن حضرت علیؓ کے منہ میں ڈالا، یہ سعادت بھی حضرت علیؓ کے نصیب میں آئی، جب حضرت علیؓ جوان ہوئے تو آقا ﷺ نے پوچھا علی ؓ جب پیدا ہوئے تو آنکھیں کیوں نہ کھولتے تھے تو سبحان اللہ حضرت علی ؓ نے کیا جواب دیا، میں چاہتا تھا سب سے پہلے آپ کے رخ انور ﷺ کو دیکھوں۔
اللہ اللہ یہ تھا عشق رسول جو عمر کے تقاضوں سے ماوراء تھا۔ آپ کے ساتھ نبی پاک ﷺ کی اتنی محبت تھی کہ اپنا جگر گوشہ حضرت فاطمہ زہرؓا کو آپ کی زوجیت میں دیا۔ داماد رسول ﷺ ہونا کتنی سعادت کبرٰی تھی۔ یہ تو کوئی حضرت علی ؓ سے پوچھے۔ حضرت علی ؓ کی زندگی انتہائی سادگی کا مظہر تھی۔ سوکھے روٹی کے ٹکڑوں کو بھی پانی میں بھگو کر کھا لیتے، نمک کھجور، دودھ اور گوشت سے رغبت تھی مگر کئی دفعہ ایسا ہواء کہ افطاری کھانے بیٹھے تو کسی سوالی نے صدا لگائی تو سب کچھ اپنے آگے سے اُٹھا کر راہ خدا میں ہدیہ کردیا اور خود پانی سے روزہ افطار کر لیا۔ آپ کھیتوں میں مزدوری فرماتے باوجود کہ خلیفتہ المسلمین تھے، کنویں سے پانی نکالتے، غلاموں کو آزاد فرماتے، خلافت کے دوران بازاروں کا چکر لگاتے تاکہ قیمتوں کی نگرانی کی جا سکے، گداگری کی لعنت سے لوگوں کو منع فرماتے۔
دوسروں کا دکھ بٹانے والے تھے۔ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ایسا سمجھتے جیسے بارگاہ بے کس پناہ میں رب العامین کے سامنے کھڑے ہوں، تو آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا اور چہرے پر زردی کھنڈ جاتی، کسی نے وجہ پوچھی تو آپ ؓ نے فرمایا، کہ یہ امانت کی ادائی کا وقت ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس بوجھ کو اُٹھانے سے عاجز ہوگئے۔ آپ اپنے عہد خلافت میں بازاروں میں تشریف لے جاتے بھولے ہوؤں کو راستہ دکھاتے، بھاری بوجھ والوں کی مدد فرماتے، آپ ایک بار قبرستان میں بیٹھے تھے، کسی نے کہا اے ابو الحسن آپؓ یہاں کیوں بیٹھے ہیں، آپؓ نے فرمایا، میں ان لوگوں کو بہت اچھا ہم نشین پاتا ہوں، یہ کسی کی بد گوئی نہیں کرتے، اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں۔
(جاری ہے)