سجدہ سہو

عمران خان صاحب کا رومان تمام ہوا اور نواز شریف صاحب کا بھی۔ اب کیا کیا جائے؟

گزشتہ چند دنوں میں، دو نامور کالم نگاروں کی نگارشات نظر سے گزریں۔ صفِ اوّل کے ان لکھاریوں نے کئی سال اپنی قلمی توانائیاں یہ ثابت کرنے میں صرف کر ڈالیں کہ عمران خان کی صورت میں وہ مسیحا آ گیا ہے جس کا اس قوم کو انتظار تھا۔ اب انہوں نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ وہ خان صاحب سے کسی کارنامے کی توقع نہیں رکھتے۔ یہ اُن کی طرف سے اعلانِ عام ہے کہ اب بھی کوئی انہیں مسیحا سمجھنا چاہے تو اپنی ذمہ داری پہ سمجھے۔

دوسری طرف نواز شریف ہیں۔ مجھے چونکہ اِن کالم نگاروں کی ہم سری کا دعویٰ نہیں، اس لیے میں اپنا شمار بعد کی کسی صف میں بیٹھے لکھاریوں میں کرتا ہوں‘ جنہوں نے نواز شریف صاحب میں ایک صاحبِ عزیمت کو دیکھا اور یہ گمان کیا کہ وہ شاید اُس مقدمے کے وکیل بن کر کھڑے ہو گئے ہیں جسے جیتے بغیر اس ملک میں جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں۔ میں بھی آج یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا اعزاز اگر نواز شریف کو نہیں تو نون لیگ ہی کو ملا ہے، باوجود اس کے کہ اس کی صفوں میں شاہد خاقان جیسے لوگ ہیں۔

تجزیہ کاروں کو یہ غلطی کیوں لگی؟ کیا اس دوران میں کوئی انہونی ہوگئی؟ کیا اُن لوگوں کا شاکلہ یکسر تبدیل ہو گیا جن سے توقعات باندھی جارہی تھیں؟ کیا ملک کے حالات اچانک تبدیل ہوگئے؟ جغرافیہ، تاریخ، کیا چیز بدل گئی کہ سب اندازے غلط ثابت ہوگئے؟ میں ان سوالات پرغور کرتا ہوں اور اہلِ علم سے رجوع بھی۔ جو سمجھ پایا، خیال ہوا کہ اسے پڑھنے والوں کے سامنے رکھ دوں۔ میں اپنے سیاسی تجزیوں کا عذر یا جواز رکھتا ہوں۔ اسی طرح دوسرے بھی رکھتے ہوں گے‘ مگراس وقت میں اس معاملے کو عمومی حوالے سے دیکھ رہا ہوں۔

تجزیہ وہی صائب ہوتا ہے جو سماجی حرکیات کی درست تفہیم پر کھڑاہو۔ فرد مجبور ہے کہ سماجی حرکیات کے تابع ہو کراپنا کردار ادا کرے۔ بلا شبہ ان حرکیات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی بھی ایک سائنس ہے جس کوجانے بغیر کسی تبدیلی کا ڈول نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس سے بے نیاز ہو کر سطحِ زمین پر ایک وقتی ارتعاش تو پیدا کیا جاسکتا ہے، اس کی ہیئت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے کم درجے کا زلزلہ جو اتنا غیر محسوس ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا نہ بتائے تو اس کے آنے کی خبرتک نہیں ہوتی۔

قرآن مجید اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی سرگزشتِ انذار ہے۔ قرآن مجید پڑھیے تو معلوم ہوتا کہ اپنے بنیادی مقدمے، انذارِ قیامت پر عالم کے پروردگار نے دلائل کے انبار لگادیے ہیں۔ انسانی شخصیت کی کوئی جہت ایسی ہو نہیں سکتی جس کا لحاظ رکھتے ہوئے، قرآن مجید نے اپنا استدلال مرتب نہ کیا ہو۔ عقلِ عام، تاریخ، انفس، آفاق۔ ہر پہلو سے دلائل دیے گئے ہیں۔ یہی نہیں، انہیں اس کثرت سے دہرایا کہ انہیں نظر انداز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اللہ نے بتایا کہ رسول کی مخاطب قوم کے لیے اسی دنیا میں قیامتِ صغریٰ برپاہوتی ہے۔ ماننے والوں کو اجر ملتا ہے اور انکار کرنے والوں کو عذاب۔ اسی طرح، جس طرح قیامتِ کبریٰ کے دن ہونا ہے۔ یہ تو ایک نوشتے کا معاملہ ہے جو پہلے سے لکھ دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود، اللہ نے بتایا کہ اس قیامتِ صغریٰ کی بھی ایک سائنس ہے۔ قرآن مجید نے واضح کیا کہ یہ قیامت جس طرح پہلے رسولوں کی قوموں کیلئے برپا ہوئی، بالکل انہی خطوط پر آخری رسولﷺ کی قوم کے لیے بھی برپا ہوگی۔ پھریہ قیامت برپا ہوئی۔ جس نے اس سائنس کو جان لیا، اس کے لیے قیامت کا مقدمہ سمجھنے میں کوئی مشکل باقی رہی نہ قانونِ عذاب کو سمجھنے میں۔

اسی طرح کی سائنس کا علم، آج کے معاشروں کی تفہیم کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہرسماج کسی قانون کے تحت آگے بڑھتا اور تبدیل ہوتا ہے۔ اس سائنس کو سماجی علوم کے ماہرین دریافت کرتے اور پھر بیان کرتے ہیں۔ ایڈورڈ گبن نے رومی سلطنت کے عروج و زوال کو سمجھا۔ ابن خلدون نے مسلم سماج کی حرکیات کو جانا۔ مارکس نے یورپ کی سماجی حرکیات کا تجزیہ کیا۔ ٹوئن بی نے متعدد تہذیبوں کے احوال پر لکھا۔ سپنگلر نے مغرب کے زوال کو موضوع بنایا۔ دورِ حاضر میں پال کینیڈی اور پھر فوکویاما وغیرہ نے لکھا کہ قوموں کے عروج اور زوال کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔

سماجی علوم، نیچرل سائنسز کی طرح نہیں ہوتے، لیکن ہوتے سائنس ہی ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ جس طرح نیچر کچھ قوانین کی پابند ہوتی ہے، اسی طرح سماج بھی چند قوانین کا پابند ہوتاہے۔ اسی کو اس کالم میں سماجی حرکیات کہا گیا۔ تجزیہ وہی درست ہو سکتا ہے جو ان حرکیات کی درست تفہیم اور صحیح اطلاق پر مبنی ہو۔ جب ہم اسے اپنی خواہشات کے تابع کرنا چاہتے ہیں تو وہ ہمارے تجزیوں کو اگل دیتا ہے۔

مغرب کی ترقی ممکن نہیں تھی اگر وہاں ایسے صاحبانِ فکر جنم نہ لیتے جنہوں نے معاشرے کا سائنسی بنیادوں پر مطالعہ کیا۔ میکس ویبر کے سامنے جب یہ حقیقت آئی کہ جرمنی اور بعض دوسرے یورپی ممالک کے بڑے بڑے سرمایہ دار اور کارخانہ دار، پیشہ ور ماہرین اور جدید تجارت کے آداب و احوال کاگہرا علم رکھنے والوں کی غیر معمولی اکثریت، پروٹیسٹنٹ ہے تو اس نے کھوج لگانے کی کوشش کی کہ پروٹیسٹنٹ اخلاقیات اور سرمایہ داری کا باہمی تعلق کیا ہے؟

ایرک فرام نے جب ایک عاقل سوسائٹی کے خدوخال کو موضوع بنایا تو اس کی کتاب کا پہلا باب اس سوال سے شروع ہوتا ہے: کیا ہم عاقل ہیں؟ اس جملے میں ‘ہم‘ کا لفظ بہت اہم ہے۔ یہاں ‘ہم‘ سے مراد مغربی معاشرہ ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان خطوط پر اپنی معاشرتی بنت کا کبھی سنجیدگی سے جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ آج بھی ہماری بے مائیگی کا عالم یہ ہے کہ جب ہم معاشرے اور مذہب یا سرمایہ داری اور مذہب کے باہمی تعلق کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ویبر اور فرام کو پڑھتے ہیں۔ پھر ان کا اطلاق اپنے معاشروں پر کرتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ ان کتابوں میں جنہیں ‘ہم‘ کہا گیا ہے، وہ ہم نہیں، ہیں۔

میرے علم کی حد تک برصغیر کے مسلم معاشرے کو سماجی حرکیات کے تحت سمجھنے کی پہلی سنجیدہ کوشش سر سید احمد خان نے کی اور دوسری علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد میں۔ یہ کوشش مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی ‘تحریکِ آزادیٔ ہند اور مسلمان‘ میں کی۔ مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی اپنے اپنے نظامِ فکر کے تحت سماجی حرکیات کو سمجھا اور اس کا اطلاق برصغیر کی سیاست پر کیا۔

پاکستان بننے کے بعد سبطِ حسن اور حمزہ علوی جیسے چند افراد نے سماجیات کے علم کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی معاشرے کا تجزیہ کیا۔ ان کا ذہنی سانچہ مارکس کے نظامِ فکر کے تحت بنا تھا لیکن ایک ذہنی سانچے کا ہونا کم غنیمت نہیں تھا۔ میرے علم میں نہیں کہ پاکستان کی موجودہ معاشرتی بُنت کو سمجھنے کی کوئی ایسی کوشش کی گئی ہوجس میں سماجی تبدیلی کے عمل کو سائنسی انداز میں دیکھا گیا ہو اور پھر اس کا اطلاق سیاست پر کیا گیا ہو۔

اس ذہنی مشقت سے گزرے بغیر ہم نہیں سمجھ سکتے کہ ایک سرمایہ دارانہ پس منظر رکھنے والا، اگر تاریخ کے کسی جبر کے نتیجے میں صاحبِ عزیمت ہو سکتا ہے تو کس حد تک؟ یا یہ کہ کھیل یا فنونِ لطیفہ سے وابستہ ایک مقبول چہرے کو جب ‘سٹیٹس کو‘ کی قوتیں اچک لے جائیں، جبکہ اس کا اپنا کوئی نظامِ فکر بھی نہ ہو، تووہ کسی تبدیل کی علامت نہیں بن سکتا۔ گویا جب سماجی سائنس کو نظر انداز کیا جاتاہے تو تجزیہ کاروں کے ہاتھ ندامت کے سوا کچھ نہیں آتا۔

اگر ہم نے سماج کی سائنس کو جانے بغیر سیاسی تجزیوں کا کام جاری رکھا تو یہاں کا لکھاری اور کالم نگار، سال دو سال بعد، صرف سجدہ سہو کرتا دکھائی دے گا۔ ہمارے مسائل کا حل سجدہ سہو نہیں، نئی فکری امامت ہے۔

بشکریہ دنیا نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے