زمین سے جڑے رہنا معنی رکھتا ہے
بہت سے لوگ پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں اور وہیں سیٹل ہو جاتے ہیں اور یہ کوئی بری بات نہیں ہے، امریکا،برطانیہ یا پھر دیگر سیکنڈے نیوین ممالک کا طرز زندگی اپنے اندر خاص کشش رکھتا ہے۔ تیسری دنیا کے لوگ چند دِن کے لیےوہاں چلے جائیں تو اپنی تصویریں فخر کے ساتھ فیس بک پوسٹ کرتے ہیں۔ان کے ہم وطن ان تصویروں کو رشک و حسد کے مِلے جُلے جذبات سے دیکھتے ہیں اور یہ معمول کی بات ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جسے سرکاری طور پر آزادکشمیر کہا جاتا ہے ، وہاں کی بڑی تعداد بیرون ملک مقیم ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جن نے ان سیاسی جماعتوں، گروہوں یا تحریکوں کے ساتھ تعلق ظاہر کر کے بیرون ملک پناہ لی ہے جنہیں پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ پسند نہیں کرتی، ڈیپ اسٹیٹ اور اس کی ایجنسیوں کا خیال ہے کہ یہ تنظیمیں یا گروہ ریاستی مفاد سے الگ ڈگر پر سرگرم ہیں۔
کئی لوگوں نے جھوٹی دستاویزات بنا کر اپنے ’خوابوں کی سرزمین‘ پر قدم جمائے ہیں یا جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔بلاشبہ ایک قابل ذکر تعداد ایسی بھی ہے جس نے جینوئین مسائل کی بنا پر سیاسی پناہ لی ہے، ان کے اس اقدام پر کوئی کلام نہیں۔
بیرون ملک مقیم ان پاکستانی یا کشمیری نژاد لوگوں کے ساتھ ایک المیہ یہ رہتا ہے کہ یہ لوگ وہاں کی سوسائٹی میں گُھلنے ملنے اور وہاں کے مقامی لوگوں کی ساتھ مل کرآگے بڑھنےکی بجائے مسلسل پیچھے مُڑ مُڑ کر دیکھتے رہتے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر پیچھے کسی پہاڑی پر واقع گاؤں یا پنجاب کے چک نمبر 18ایم بی کی سڑک نہ بننے پر یہاں کی حکومتوں کو بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں۔
ان لوگوں نے اپنے تئیں جس ملک کی پرسکون یا لیوش طرز زیست کو اختیار کیا ہے، اس کے دیگر پہلوؤں کو اپنانے سے گریز کی بنیادی وجہ شناخت کا بحران ہے۔ ایسے افرادعموماً ذہنی، علمی، سماجی اور ثقافتی پسماندگی کی وجہ سے اس اہل ہی نہیں ہوتے کہ ان ترقی یافتہ معاشروں میں ایڈجسٹ ہوسکیں، ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھ سکیں۔ یہی پسماندگی انہیں دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیے رکھتی ہے۔
اس قسم کے پسماندہ شخص کی ترقی یافتہ معاشرے میں ہم آہنگ ہونے کی خواہش اس معاشرے کے اصولوں کے خلاف نفرت پر منتج ہوتی ہے اور وہ اپنی حیثیت کو ثابت کرنے کےلئے مذہب، قومیت، نسل وغیرہ کا سہارا لیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں جٹ جاتا ہے کہ وہ اس معاشرے سے زیادہ منفرد و ممتاز ہے، اس لیے وہ اس معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہی نہیں چاہتا۔اسی احساس محرومی کو چھپانے کےلئے وہ اپنے ماضی کو تلاشنے اور اس میں پناہ لینے کی سعی شروع کردیتا ہے۔
یوں مالی آسودگی کا سنگ میل عبور کرنے کے بعد وہ سابق جائے سکونت کے پسماندہ معاشرے میں عزت اورسماجی مرتبہ بنانے کی کوشش شروع کردیتا ہے۔ پھراسے ہم وطنوں کو شہری اقدار، سیاسی و جمہوری ثقافت وغیرہ وغیرہ پر لیکچر دینا بھی ضروری محسوس ہونے لگتا ہے۔
اس معاملے میں بڑے اچھے اچھے اُجلے لوگ بے قیمت ہوتےدیکھے گئےہیں، کئی رائے ساز اور سیاسی کارکن جو بیرون ملک سیٹل ہوئے اور پکا ہونے کے بعد انہوں نے اپنے خاندانوں کو بھی وہیں بلا لیا، انہیں جب جب فرصت ملتی ہے تو وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پیچھے اپنے سابق ہم وطنوں کو بھاشن دیا کرتے ہیں، یہاں کے سیاست کاروں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں اور کچھ تو یوٹیوب چینل بنا کر ضلع فلاں کے گاؤں بٹنگی میں پانی کی ٹینکی لیک ہو جانے پر یہاں کی حکومتوں کو لتاڑتے نظر آتے ہیں۔ کچھ متنازع بن کر سوشل میڈیا پر زندہ رہنے کے جتن کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کا شاٹ کٹ فارمولا یہ ہے کہ کسی بھی مشہور یا سماجی حیثیت کے حامل شخص پر زور دار تنقید شروع کر دیں تو آپ کا دھندہ چل نکلے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ان بدیسی دوستوں کو یہاں کے سنجیدہ حلقے زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اپنی مٹی سے دور ہونے کی وجہ سے ان کے تبصرے اور تجزیے عموماً معنویت سے عاری ہوتے ہیں، جو لوگ اس زمین پر چلتے پھرتے اور یہاں سانس لیتے ہیں، یہاں کے باسی ان کی باتوں یا تجزیوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور یہ فطری بات ہے۔ایکٹوسٹ قسم کے بدیسی ہوئے’ دیسی‘ احباب توجہ پانے کے لیےفیس بک اور ٹویٹر پر چاند ماری کر کر کے ہلکان ہوجاتے ہیں ، ہاں کسی دن کوئی ’بڑا شاٹ‘ کھیل دیں تو وہ دن سوشل میڈیا کی حد تک اُن کا ہو جاتا ہے۔بس یہی ان کی’چھوٹی چھوٹی خوشیاں‘ ہیں۔
اگلے دن اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی دوست سے فون پر بات ہو رہی تھی۔ ہم نے اپنے کچھ ایسے مشترک دوستوں کو بھی یاد کیا جن کی سوچ اور ان کے کام کی وجہ سے ان کے لیے زندگی یہاں کافی تلخ ہے لیکن انہوں نے اس سب کے باوجود ملک چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا، ہم دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایسے لوگوں کی بات کو یہاں worthy سمجھا جاتا ہے ، ان کی کریڈیبلٹی وہ اثاثہ ہےجس کا کوئی بدل نہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہاں رہ کر وہ جو بات کریں گے اس کا کہیں نہ کہیں اثر ہو گا اور وہ خود بھی مطمئن ہوں گے۔مضبوط شخصیت کے حامل لوگ ہی ایسا کر سکتے ہیں۔
دو چیزیں ہیں hapiness اور self- satisfaction ، اول الذکر لمحاتی سا ایک احساس ہے جبکہ دوسری چیز دیر پا ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس دوسری چیز کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک اور مخلوق بھی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مشرق وسطیٰ کے ممالک میں نوکری کرنے جاتے ہیں، وہاں کچھ عرصہ لگا کر جب کسی حد تک سیٹل ہو جاتے ہیں انہیں خیال آتا ہے کہ اب پیچھے اپنے گاؤں میں کچھ’ ٹہکا شہکا ‘بھی ہونا چاہیے ۔ پھر یہ لوگ مقامی اخباروں میں اپنی تصویروں کے ساتھ خبریں چھپوانا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں علاقائی اخباروں کے لیے معیشت اور ان پردیسیوں کے لیے شناخت کا در کھل جاتا ہے۔
ان لوگوں میں سے جو زیادہ اسمارٹ ہیں، وہ اچھے پیسے بنانے کے بعد ملک میں واپس آ کر ’نیتا‘ بننے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی بری بات نہیں کیونکہ وہ بہرحال ان لوگوں میں جینے کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنا سمجھتے ہیں۔ایسے لوگ اگراستقامت سے لگیں رہے تو کچھ نہ کچھ سماجی مرتبہ حاصل کر ہی لیتے ہیں۔
مجھے توان بدیسی ہوئے دیسی لوگوں کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے جن نے نئے سماجوں میں ہجرت کے بعد وہاں کی زندگی کے دھارے میں شامل ہو کر اپنی کوئی نمایاں حیثیت بنائی ہو،خود کو منوایا ہو،کوئی ایسا کام کیا ہو جسے زیادہ انسانوں کے ساتھ relate کیا جا سکے۔ انہیں اپنے نام کے ساتھ بریکٹ میں امریکا یا برطانیہ لکھ کر پیچھے رہنے والے سابق ہم وطنوں پر رعب نہ ڈالنا پڑے۔ ایسی بھی کچھ مثالیں موجود ہیں لیکن زیادہ نہیں ہیں۔
وطن یا علاقہ پرستی آج کی دنیا میں ایک فرسودہ قسم کا آدرش سمجھا جاتا ہے اورمعقول لوگ اس بات کے حق میں ہیں کہ آدمی کواب دنیا میں جہاں بھی اپنی پسند اور سہولت کی جگہ ملے،وہاں رہ لینا چاہیے اور پوری کلیرٹی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا چاہیے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بہت سے بدیسی ہوئے دیسی احباب تذبذب میں عمر خرچ کر دیتے ہیں۔ وہ اس حالت میں مرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں یہ اپنی صلاحیتیوں کی لگائی گئی بہت کم قیمت ہے۔
ساٹھ ستر سالہ اوسط زندگی کو اس کے پورے نہ سہی maximum پوٹینشل کے ساتھ جینے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ جب آپ احساس کمتری پر قابو پاتے ہوئے فروعی، نسلی، قومی اور مذہبی تعصبات کم سے کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بدیسی ہوئے دیسی لوگوں کی بڑی تعداد ان تعصبات سے اوپر اٹھنے میں ناکام رہتی ہے۔