ارتغرل کے فینز کے لیے

جس دلجمعی اور دل چسپی سے آپ یہ ڈرامہ دیکھتے ہیں بلکل اسی لگن سے ہم ” غرناطہ” "آخری چٹان” "صلاح الدین ایوبی” "اور تلوار ٹوٹ گئی”وغیرہ وغیرہ جیسے ناول ڈھونڈ ڈھونڈ کے پڑھتے تھے، یہ ڈرامہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی کے سوا کچھ نہیں بس تھوڑا سا وقت نکال کر یہ تحریر پڑھ لیں کہ مجھے یہ اپنے دل کی آواز لگی ہے ۔

آج کل پاکستان میں سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی ترک ٹی وی سیریل بہت مقبول ہیں۔ جری گھڑ سوار ، تیر انداز ی اور تیغ زنی کے ماہر ترک بہادرں کی کہانیاں زبان زدعام ہیں۔ لیکن ہر مہارت کا ایک دور ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ نئی چیزوں میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہو تا ہے۔ اگرقومیں ایسا نہ کریں تو طاقت کا توازن الٹ جاتا ہے۔

سلطنت عثمانیہ اور روسی سلطنت صدیوں سے مشرقی یورپ اور بحیرہ اسود کے علاقے میں ایک دوسرے کے حریف تھے۔ لیکن عثمانی اپنی جدید بحریہ اور توپ خانے کی وجہ سے ہمیشہ حاوی رہے۔ بحیرہ اسود کاخطہ اور تمام بندرگاہیں سلطنت عثمانیہ کے زیر انتظام تھیں اور اس سمندر میں صرف عثمانی جہازوں کی آمدورفت ہوتی تھی۔ روس قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود سلطنت عثمانیہ سے مقابلہ تو ایک طرف، سوئیڈن جیسے چھوٹے سے ملک کے ہاتھوں بے بس تھا جس نے بحیرہ بالٹک میں روس کا داخلہ بند کر رکھا تھا۔

1682 میں جب پیٹر زار روس بنا تو اس نے یورپ کے طویل مطالعاتی دورے کیے۔ ان دوروں میں اس نے ترقی یافتہ ممالک کی صنعتوں، تجربہ گاہوں اور تعلیمی اداروں کا بغور مشاہدہ کیا۔ زار پیٹر یہ جان گیا کہ روس اپنے وسیع رقبے اور قدرتی وسائل کے باوجود صرف تعلیم اور سائنس میں پسماندہ ہونے کی وجہ سے اس قدر کمزور ہے۔

اس دور اندیش بادشاہ نے رشین اکیڈمی آف سائنسز بنائی اور یورپ بھر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نامور سائنسدانوں کو بہترین مراعات ، اعلیٰ سہولیات اور شاہی عہدے دے کر روسی اکیمڈمی میں کام کرنے کی دعوت دی۔ اس دور کے کئی نامور سائنسدان اپنے ملکوں سے روس آکر رشین اکیڈمی آف سائنسز سے منسلک ہو گئے۔ یوں نہ صرف روسی نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لگے بلکہ زار پیٹر کو ملک کو جدید بنانے اور ترقی سمت لے جانے کے لیے بہترین مشیر مل بھی گئے ۔

زار کے ان اقدامات کے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ چند ہی سالوں بعد روس نے سویڈن سے بحیرہ بالٹک کا ساحل چھینا جہاں پیٹر نے سینٹ پیٹرز برگ کا شہر آباد کیا۔ کچھ عرصہ بعد روس نے عثمانیوں سے بحیرہ اسود میں ازوو کی بندر گاہ چھینی اور رفتہ رفتہ حالت یہ ہو گئی کہ عظیم سلطنت عثمانیہ روس کے خلاف اپنے دارالحکومت قسطنطنیہ (استنبول) کے دفاع کے لیے بھی برطانیہ اور فرانس کی فوجی مدد کی محتاج ہو گئی (جنگ کریمیا)۔

اس عرصے میں عثمانی ترکوں کی بہادری یا جنگی صلاحیتوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی بلکہ صرف یہ ہوا تھا کہ پہلے ترک ٹیکنالوجی میں آگے تھے لیکن پیٹر کے بعد روس کو یہ سبقت حاصل ہوگئی۔ صرف ایک عقلمند حکمران اور چند سائنس دانوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ زار پیٹر کو اسی لیے اسے پیٹر دی گریٹ کہا جاتا ہے۔

ہمارے خطے میں بھارت کو آج جو صنعتی اور اقتصادی سبقت حاصل ہے اس میں آزادی کے بعد جواہر لعل نہرو کے قائم کردہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ گوگل ، فیس بک ، امازون اور ٹیسلا جیسی بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں بھارتیوں کی کثیر تعداد کلیدی کردار ادا کر رہی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک کی بلند پایہ یونیورسٹیاں بھارتی اساتذہ اور طلبہ سے بھری پڑی ہیں۔ ان میں سے بہت بڑی تعداد انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے۔

ادھر پاکستان میں نہ اعلیٰ تعلیی اداروں کو اور نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو کبھی ملکی ترقی کے لیے اہم سمجھا گیا ہے۔ پاکستان میں یونیورسٹیاں تعلیم کے لیے نہیں بلکہ صرف دنیا کو یہ دکھانے کے لیے شو پیس کے طور پر بنائی گئی ہیں کہ یہاں بھی تعلیم پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں یونیورسٹیوں کی اہمیت بس ایسی ہی ہے جیسے بعض لوگ اپنے گھر میں ایک الماری کتابوں سے سجا کر رکھ دیتے ہیں تاکہ ملنے جلنے والے انھیں پڑھا لکھا سمجھیں۔

بلند بانگ دعووں کے باوجود اس وقت بہت سی سرکاری جامعات کے پاس تنخواہیں ادا کرنے کے پیسے نہیں، اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) کے مالی وسائل میں ناقابل برداشت کٹوتیوں سے اس کا بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر رہ گیا ہے۔ HEC کا 2002 سے جاری ٹینیور ٹریک سسٹم (TTS) ، جس کے تحت اس وقت تقریباً 4500 PhD اساتذہ پاکستان کی مختلف جامعات میں کام کر رہے ہیں، پانچ سال سے تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے اور بہت سے دوسرے انتظامی و مالی مسائل کی وجہ سے سنگین بحران کا شکار ہے۔ HEC کی طرف سے واضح سمت متعین نہ ہونے ، متضاد اور آئے دن تبدیل ہوتی پالیسیوں سے کی وجہ سے TTS اساتذہ غیر یقینی مستقبل سے پریشان ہیں۔ دوسری طرف جامعات کی جانب سے TTS اساتذہ کے استحصال، غیر مساویانہ سلوک اور برطرفیوں سے بھی بددلی پھیلی ہوئی ہے۔

ان مسائل پر TTS اساتذہ اور HEC کے درمیان دو سال سے جاری مذاکرات تعطل کا شکار ہو کر ناکام ہو چکے ہیں۔ HEC اس دوران میں اپنی کسی یقین دھانی پر بھی عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ان حالات سے دل برداشتہ ہو کر اب تک بہت سے قابل اساتذہ پاکستان سے باہر جا چکے ہیں۔ جو پاکستانی طلبا اس وقت پاکستان سے باہر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا ان حالات میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے۔

پچھلے 18 سال میں اضافے کے باوجود ،ابھی بھی پاکستان میں PhD اساتذہ کی تعداد باقی دنیا سے بہت کم ہے اور موجود بے چینی سے اس تعداد میں اضافے کی بجائے کمی کا امکان ہے۔ دوسری طرف بجائے پہلے سے موجود جامعات اور ان کے حالات کار کو بہتر بنانے کے، ہر چھوٹے بڑے شہر میں زور شور سے نئی یونیورسٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔ آخر ان عمارتوں میں پڑھائے گا کون؟

اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کا یہ عالم ہے کہ حکومت اور HEC سرکاری جامعات کی مالی معاونت کے بجائے ان سے اپنے وسائل خود پیدا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب تعلیمی ادارے شوگر ملیں تو لگانے سے رہے ،انھیں لامحالہ فیسوں میں ہی اضافہ کر نا پڑے گا اور یوں کم آمدنی والے خاندانوں پر تعلیم کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ کیا اس جدید دور میں ملک اس کا متحمل ہو سکتاہے؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

کیا کبھی پاکستان کا کوئی حکمران بھی پیٹر دی گریٹ جیسا دور اندیش ثابت ہوگا؟ یا پھر ہم اسی طرح اکیسویں صدی میں اٹھارویں صدی کی مصنوعات کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے اپنی معیشت کی ترقی اور برآمدات بڑھانے کے خواب ہی دیکھتے رہیں گے۔ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کی علامتی اہمیت تو ہو سکتی لیکن بحری جہازوں اور تجربہ کار جہازرانوں کے بغیر سمندوں کی تسخیر نہیں ہو سکتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے