ڈائجسٹ رائٹرز کی کہانی

ہر کہانی کی اپنی ایک داستان ہوتی ہے۔ ہر داستان کا ایک پس منظر ہوتا ہے اور اس پس منظر میں ایک اہم کردار ہوتا ہے جو اس کہانی کے جنم کا باعث ہوتا ہے۔

پاکستان میں بالعموم ڈائجسٹ رائٹرز کے ساتھ متعصبانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ نہ انکو ادبی سطح پر شناخت ملتی ہے نہ ادبی رسالے انکی تخلیقات کو چھاپنے کی زحمت کرتے ہیں نہ انکی سرکاری سطح پر کوئی پذیرائی ہوتی ہے نہ انکو معاشرے میں ایک مصنف کی اہمیت ملتی ہے۔ ڈائجسٹ رائٹرز کے حوالے سے نہ کوئی تحقیقی مواد ہمیں ملتا ہے نہ ان کہانی کاروں پر کبھی کسی نے سنجیدہ کام کیا ہے۔ ڈاکٹر کرن نذیر احمد نے پہلی بار اس اہم موضوع پر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں بات کی ہے۔ انکا پی ایچ ڈی کا یہ مقالہ امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹیکساس ایٹ اوسٹن (Texas at Austin)کے تعاون سے مکمل ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ انکے مقالے پر بات کی جائے کچھ تعارف کرن نذیر احمد کا ہو جائے۔ اس وقت وہ قائداعظم یونیورسٹی میں جینڈر اسٹیڈیز کے شعبے میں اسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دے رہی ہیں۔ اس سے پہلے وہ اینتھرو پولوجی فلاسفی اور بین الاقوامی تعلقات عامہ میں پاکستان، کینیڈا اور امریکہ سے ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کر چکی ہیں۔ انکے زیر بحث مقالے کا عنوان ہے Stories with oil stainsجس کا اردو ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ ’’میلے ہاتھوں سے لکھی روشن کہانیاں‘‘۔ اس پنج سالہ تحقیقی پروجیکٹ میں ڈاکٹر کرن نذیر احمد نے پاکستان کے دو صوبوں کے کئی شہروں اور گائوں میں جا کر ان کہانی کاروں سے ملاقات کی، کچھ کے گھر قیام کیا، کچھ سے گھنٹوں فون پر بات کی، پبلشرز سے ملاقات کی، اس نوع کی کہانیوں کے قارئین سے گفتگو کی اور پھر اس مقالے کوتحریر کیا۔ انکی تحقیق میں کچھ انوکھی باتیں دریافت ہوئیں جن پر بات کرنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر کرن اپنے مقالے میں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ڈائجسٹ رائٹرز کو اس معاشرے میں ہم وہ مقام نہیں دے سکے جو ان کا حق بنتا ہے۔ وہ صرف یہ گلہ ہی نہیں کرتیں بلکہ اس رویے کی کچھ وجوہات بھی بیان کرتی ہیں کہ جن کی بنا پر یہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے بہت محنت سے ان ڈائجسٹوں میں لکھی کہانیوں کی نوع اور موضوع پر بھی گفتگو کی ہے۔ ان کے مطابق ابتدا میں ان کہانیوں کے موضوعات بالی عمر کے رومان کے گرد ہی گھومتے رہے۔ رفتہ رفتہ ان موضوعات میں تنوع آتا گیا ہے۔ محبت کے موضوع کے علاوہ اب ان کہانیوں میں عورت کے حوالے سے معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ خواتین کے حقوق پر بھی بات ہوتی ہے۔ بیٹی کی پیدائش کو باعث شرمندگی سمجھنے والے رویے کو بھی موضوع بنایا گیا۔ ڈائجسٹ رائٹرز نے مذہب کو بھی موضوع بنایا اور معاشرت کو بھی مگر سیاست کے حوالے سے ان کی تحریریں بے توجہی کا شکار رہیں۔ ان رائٹرز نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے تو بات کی ہے مگر سیاسی شعور بیدار کرنے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ عام خیال یہی ہے کہ چونکہ خواتین کی زندگی کا زیادہ تر حصہ گھر کی چار دیواری میں گزرتا ہے اسلئے یہ کہانیاں گھروں کی کہانیاں ہوتی ہیں۔ اسی اسلوب میں لکھی جاتی ہیں۔ اسی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔ ان کہانیوں کا ہیرو بھی بدلتا رہا ہے۔ لمبے تڑنگے جاگیردار یا یونیفارم آفیسر کی جگہ اب ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے والے ہیرو نے لے لی۔

تحقیق کے مطابق یہ کہانیاں بے پناہ اثر آفرینی رکھتی ہیں۔ لاکھوں خواتین یہ کہانیاں ذوق و شوق سے پڑھتی ہیں۔ ڈائجسٹ میں لکھنے والی خواتین کا حلقہ اثر بے حد وسیع ہوتا ہے۔ ان کہانیوں پر ردعمل ملک بھر سے مدیران کو موصول ہوتا ہے۔ کشمیر کی خواتین، گلگت کی عورت، کراچی کی ورکنگ وومن، لاہور کی استانی اور اسلام آباد میں این جی او میں کام کرنے والی خواتین ان ڈائجسٹوں کی کہانیوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ مڈل کلاس گھرانے کی خواتین بھی یہ کہانیاں بڑے ذوق شوق سے پڑھتی ہیں اور ارب پتی خواتین بھی انہی کرداروں میں کھوئی رہتی ہیں۔ سندھ کی ایک ایسی فیملی کا بھی اس ریسرچ میں تذکرہ ہے کہ جن کی چار نسلیں اس تخلیقی کام سے وابستہ ہیں مگر ان کو وہ قبولیت عام نصیب نہیں ہوئی جو ایک ادیب کے حصے میں آتی ہے۔ ہر تحقیق کرنیوالے کی تحقیق میں خود اسکی ذات بھی عیاں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کرن نذیر احمد چونکہ خواتین کے حقوق کی بڑی علمبردار ہیں اسلئے انکی تحقیق کا نتیجہ یہی ہے کہ ہر کہانی کی اپنی ایک داستان ہوتی ہے۔ ہر داستان کا ایک پس منظر ہوتا ہے اور اس پس منظر میں ایک پُراسرار اور مرکزی کردار ہوتا ہے جو اس کہانی کے جنم کا باعث ہوتا ہے عموماً یہ پراسرار کردار خود کہانی کار ہوتا ہے۔ بقول ڈاکٹر کرن نذیر احمد کے ہم بھلے ان تحریروں کو ادبی شاہکار کی منزلت نہ دیں لیکن کم از کم ایک تخلیق کار کی عزت اور احترام ان ڈائجسٹ رائٹرز کا استحقاق ضرور ہے۔

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے