نئی تقویم

وقت پہلے تین ادوار میں منقسم تھا۔ ماضی، حال اور مستقبل۔ ادوار اب بھی تین ہی ہیں مگرکہتے ہیں ان کی صورت بدل گئی ہے۔ اب یہ قبل از کورونا، دورانِ کورونا اور بعد از کورونا ادوار میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ اس نئی تقسیم کو سمجھنے کے لیے،چند سوالات کے جواب اہم ہیں:

1۔ کورونا کا دورانیہ کتنا ہے؟

2۔ کورونا کے اثرات کیا صنعتی انقلاب جیسے ہوں گے؟

3۔ کورونا کے اثرات،کیا ساری دنیا پر یکساں ہوں گے؟

آج تک کی معلومات کی روشنی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ بن بلائے آنے والا مہمان کب تک قیام کر ے گا۔ اگر یہ چند ماہ میں واپس چلا جاتا ہے تو پھر اس کے اثرات ناقابلِ ذکر ہوں گے۔ زندگی جلد پرانی ڈگر پر چل نکلے گی۔ انسانی سماج میں بڑی تبدیلی اسی وقت آتی ہے جب وہ تادیر ایک جیسے کیفیت سے گزرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی قوم نسلوں تک غلام رہے تو اقبال کے الفاظ میں اس کا ضمیر بدل جاتا ہے۔ غلامی کی فضا میں جنم لینے والی نسل، جب آزادی کے ذائقے ہی سے آشنا نہ ہو تواس کا حصول اس کی نظر میں کوئی معنویت نہیں رکھتا۔

سوویت تسلط میں رہنے والی اقوام فراموش کر چکی تھیں کہ مذہب بھی کوئی سماجی قوت ہے۔ تبلیغی جماعت ہندوستان کی ایک مسلم آبادی میوات سے شروع ہوئی۔ وہاں کے مسلمان بھول چکے تھے کہ نماز روزہ بھی اسلام کا حصہ ہیں۔ انہیں یہ سمجھنے میں بہت وقت لگا حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، ایک پرانی بات ہی کا احیا تھا۔ کچھ ایسی ہی محنت، ایک مذہبی معاشرے کو لبرل بنانے کے لیے بھی چاہیے۔ مذہبی سماج کے لیے ایک ایسی کائنات کا تصورکرنا محال ہے جس کا کوئی خدا ہی نہ ہو۔

کورونا اگر طویل عرصہ رہتا ہے تو یہ یقیناً عادات پر اثر انداز ہو گا اورذرائع پیداوار پر بھی۔ تجارت آن لائن ہوجائے گی اور گلی بازار کا دکاندار بھی مجبور ہو گا کہ آن لائن سودا بیچے۔ یہ خاندان کے ادارے کے احیا کا باعث بھی بن سکتا ہے، اگر اس کا شعوری سطح پر احساس کیا جائے۔ ہمارے ہاں معاشی عمل اب اسی ڈگر پر چل نکلا ہے جو سرمایہ دارانہ معاشروں کا ہے۔ اس معاشرے میں گھر کا ہر فرد معاشی مشقت میں شریک ہے اور یہ لازم نہیں کہ سب کے اوقاتِ کار ایک جیسے ہوں۔ ہر فرد گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہے اور اس سے اہلِ خانہ میں میل جول کم ہو رہا ہے۔ اس سے خاندان کے ادارے کو جو مسائل درپیش ہیں، وہ سب پر واضح ہیں۔

کورونا نے جب سب کو گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے توان تعلقات کے بحالی کا امکان پیدا ہوگیاہے جنہیں معاشی دوڑ نے کمزورکر دیا تھا۔ اب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں۔ اگر اسے مجبوری سمجھا گیا تو خطرہ ہے کہ تعلقات میں تلخی گھل جائے۔ اگر اسے غنیمت سمجھا جائے تو ان تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے جو حالات کی نذر ہو گئے تھے۔ میں تو یہی چاہوں گا کہ اپنی تہذیبی روایت کو سامنے رکھتے ہوئے، اس موقع کو غنیمت سمجھا جائے اور باہمی روابط کو مضبوط بنایا جائے۔ اس سے یقیناً زندگی کی خوشیاں لوٹ سکتی ہیں۔ وہ خوشیاں جن کا متبادل معاشی اسباب کی فراوانی نہیں ہے۔

اب آئیے دوسرے سوال کی طرف۔ اس کا ایک تعلق پہلے سوال سے بھی ہے۔ اگر یہ معاملہ طویل ہوتا ہے تو ذرائع پیداوار بدل جائیں گے۔ مارکس کا کہناہے کہ ذرائع پیداوار ہی تہذیبی رویوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ حیثیت اب ٹیکنالوجی کو حاصل ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو اس میدان میں آگے ہوں گے، وہی معاشی ذرائع پر بھی قابض ہوں گے۔ اس کے ساتھ یہی ٹیکنالوجی طے کرے گی کہ سماجی رویے کیا ہونے چاہئیں۔

ٹیکنالوجی کو جغرافیائی حدود میں قید کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر امریکی موبائل فون اب چین میں بن رہے ہیں اور ان کی مارکیٹ ساری دنیا ہے۔ یوں ایک فون دنیا کے کسی کونے میں بکتا ہے، اس کا منافع امریکہ پہنچ جاتا ہے۔ اگر اس ٹیکنالوجی میں کوئی امریکہ کا مدِمقابل آگیا، جیساکہ چین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے؛ تاہم یہ طے ہے کہ کورونا کے بعد ٹیکنالوجی کی وہ صورت غالب رہے گی جس کا تعلق سائبر سپیس کے ساتھ ہے۔ انسانی آمدورفت کم ہوگی توروایتی ذرائع نقل و حمل کے پھیلاؤ میں کمی آ جائے گی۔ ہوٹلز کا کاروبار ماند پڑ جائے گا۔ آن لائن کاروبار کی عالمگیریت کے باوجود مقامی سرگرمیوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

اب آئیے تیسرے سوال کی طرف۔ کورونا کے اثرات میرا خیال ہے کہ ہر جگہ یکساں نہیں ہوں گے۔ اگرکورونا سے پہلے کی زندگی ہر جگہ ایک جیسی نہیں تھی تو، وہ بعد میں بھی ایک سی نہیں ہو گی۔ اس بات کا امکان ہے کہ ترقی یافتہ دنیا بقائے اصلح (survival of the fittest) کے اصول پراپنے لیے ایسے مواقع تلاش کرلے جوبہتر زندگی کی ضمانت بن سکیں۔ یعنی اگر وہاں لوگ پہلے بہتر زندگی گزار رہے تھے تو بعد از کورونا بھی تقابلی اعتبار سے بہتر زندگی گزاریں گے۔

کورونا میں البتہ یہ ہواہے کہ ترقی یافتہ دنیا کو انسانی جانوں کے ضیاع کے اعتبار سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے اسباب کاجائزہ لیاجا رہاہے۔ مثال کے طورپر قوتِ مدافعت کا تقابل شروع ہو چکا اور اس کے اسباب کا بھی۔ یہ جائزہ لیا جارہا ہے کہ ایشیائی ممالک میں اگر اموات کی تعداد کم رہی ہے تواس کا تعلق موسمی عوامل سے ہے یا مقامی لوگوں کی قوتِ مدافعت سے۔ فی الحال گرم سرد علاقوں میں کوئی فرق تلاش نہیں کیا جا سکا۔

عالمی ادارہ صحت نے اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ یہ مہمان زیادہ دیر مہمان نہ رہے، گھر کا مستقل فرد بن جائے۔ اس صورت میں ہمیں کورونا کے ساتھ رہنے کا ڈھنگ سیکھنا ہو گا۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ہمارے لیے نیا تجربہ نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے بھی تو ہم ایسے کئی بن بلائے مہمانوں کو طویل عرصہ برداشت کرتے رہے ہیں، جیسے ایڈز کا وائرس۔ ساتھ ہی لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کورونا (COVID19) پہلے آنے والے وائرس سے بہت مختلف ہے۔ اس کے ساتھ رہنے کی ایک ہی صورت ہے: انسانی قوتِ مدافعت اتنی بڑھ جائے کہ وہ کورونا کی تاخت کا مقابلہ کر سکے۔

ایک اچھی خبر یہ آئی ہے کہ کورونا کے پیداکردہ مرض کا علاج دریافت ہوگیا ہے اور پاکستان کی ایک کمپنی کو بھی اس کی دوا تیار کرنے کا اجازت نامہ مل گیا ہے۔ اب مریض کا علاج ممکن ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بعد از کورونا دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مرض کے علاج کا مطلب اس کے محرک پر قابو پانا ہے۔ محرک ظاہر ہے کہ کورونا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو ہم ایسی زندگی کا تصور کر سکتے ہیں جس میں کورونا تو ہو مگر خطرۂ جان نہ ہو۔ گویا ویساہی ایک مرض ہو جیسے دوسرے قابلِ علاج امراض ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ مرض اور وبا میں فرق ہے۔ مرض کے ساتھ جینا ممکن ہے مگر وبا کے ساتھ نہیں۔

وقت کی یہ نئی تقسیم کیا ایک نئے تصورِ وقت کو جنم دے گی؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کی افادیت مزید واضح ہو گئی ہے؟ ان سوالات کے جواب فزکس کا کوئی ماہر ہی دے سکتا ہے۔ اقبال نے اشارہ کیا تھا کہ
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

کیا ہم ایک نئی تقدیم میں داخل ہو رہے ہیں؟ زمان اور مکان کے تصورات کیا بدل رہے ہیں؟ میں ان سوالات کے جواب دینے کا اہل نہیں۔ جو اہل ہیں، وہ اس پر یقیناً غور کر رہے ہوں گے۔ کیا معلوم کہیں کوئی وقت کی تاریخ کا نیا باب لکھ رہا ہو، جس کا عنوان ہو ‘بعد از کورونا‘۔میں توابھی تک ماضی، حال اور مستقبل کی گرفت میں ہوں۔

بشکریہ دنیا نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے