مغربی بیانیوں کی عینک اتارے بغیر چین کو نہیں سمجھا جا سکتا. عبدالرحمان تارڑ

بریگیڈئیر ریٹائرڈ عبدالرحمان تارڑ۱۹۸۸تا ۲۰۱۷پاک فوج میں خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ اقوام متحدہ کے ببینر تلے ایسٹ تیمور میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے امریکہ، یورپ اور خطے کے اہم ممالک جیسے انڈونیشیا، ملائشیا، تھائی لینڈ فلپائن اور جنوبی کوریا کی افواج کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ۔ پاک فوج اور پیپلز لبریشن آرمی کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹیوں سے قومی اور بین الاقوامی دفاع اورسلامتی کے مضامین میں ماسٹرز کی ڈگریان حاصل کیں۔ بیجنگ میں پیپلز لبریشن آرمی کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے ڈگری کے حصول کے دوران چینی افواج اور معاشرے کو قریب سے دیکھنے کے علاوہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کورس کے شرکاٗ کے ساتھ تبادلہ خیال ہوا ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چینامی کے نام سے بین الاقوامی سیاست پر کتاب قلم بند کرنے کافیصلہ کیا جس کا محور چین ہے۔ چینامی کے بارے میں مزید جاننے کیلئے ہم نے ان کا انٹرویو کیا ۔ جو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

[pullquote]سوال: کتاب لکھنے کا مقصد کیا تھا، اوراس کے لیے اردومیڈیم کا انتخاب کیوں کیا ؟[/pullquote]

جواب : میں سمحھتاہوں کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیوکے بعد چین حکومت کی سطح سے اب عوام کی سطح پر تعلقات کے دور میں داخل ہوچکاہے۔ یعنی اب وہ اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ سے جنوب میں جارہاہے۔ میری خواہش ہے اور میں چاہتاتھا میرے ملک کے لوگ اس قوم اور ملک کو جان پائیں جن کے ساتھ وہ ہر سطح پر تعاون کرنے جارہے ہیں۔جن کے ساتھ ان کا مستقبل بڑی حد تک منسلک ہے۔اب وہ لوگ اردوبولتے پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔کتاب لکھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میں اپنی سوچ میں کافی حد تک صحیح تھا کیونکہ اسلام آباد میں اکثرلوگوں کاسوال یہی رہا کہ انگریزی میں کیوں نہیں لکھا۔ کیونکہ میں سمجھتاہوں کہ وہ لوگ بھی جو انگریزی پڑھتے اور سمجھتے ہیں اردو پڑھ سکتے ہیں چاہے تھوڑی مشکل ہو لیکن وہ لوگ جنھیں چین کو سمجھنا چاہیے وہ انگریزی نہیں پڑھ سکتے۔

میں نے اس کتاب میں کچھ ایسے پہلووں پر بات کی ہے کہ اگر انگریزی میں اس کا ترجمہ ہوجائے توتیسری دنیا کیلئے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ خاص طور پر جو میں نے پاکستان کو ان کیلئے ایک ماڈل کے طور پر لکھاہے۔ اور جوغلط بیانیے اس وقت چین کے بارے میں پھیلائے جارہے ہیں یا جو پہلے سے موجود ہیں کہ چین ایک نئی نو آبادیاتی طاقت بننے جارہاہے۔ یا قرضوں کے جال میں غریب ممالک کو پھنسا رہاہے تو ان کے بارے میں لوگوں کو کچھ آگاہی ہو۔

[pullquote] سوال :چینامی کےموضوعات کیاہیں ؟ [/pullquote]

جواب : چینامی کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔پہلے جصے میں میں نے مختصرا چین کی تاریخ کے ان پہلووں کا ذکر کیاہےجس سے ان کی قدیم چینی روایات سمجھی جاسکتی ہیں۔ جدید چین کی تاریخ کو تین انقلابوں میں تقسیم کیاہےجن میں چئیرمین ماوزے تنگ، ڈنگ ژیاو پھنگ اور موجودہ صدر شی جن پھنگ کے دور کا ذکرہے۔ اور انقلاب کے بعد چینی قوم کن خصوصیات کی حامل رہی ہے جن کو جان کر چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں رہنمائی مل سکتی ہے۔جیسے موجودہ کورونا پر ایک مضمون میں نے لکھا جوچینی اخبارات چائنا ڈیلی اور گلوبل ٹائمز میں بھی شائع ہوا۔جس میں میں نے لکھا کہ دنیا کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ وبا سب سے پہلے چین میں پھیلی کیونکہ چین ایک ایسی قوم ہے جس نے اس کے اوپر قابو پالیا ورنہ یورپ اور امریکہ کی طاقتور قوموں کے حالات سب کے سامنے ہیں

اس کے بعد ایک حصہ جس کو لکھ کر میں خود بڑا خوش ہوں وہ تحقیق کے قوائد و ضوابط اور ان خلاقیات سے متعلق ہے جو مغرب کی یونیورسٹیوں اور ان کے تحقیقی اداروں کے طے کردہ ہیں۔اورآج ان کے بغیر کوئی تحقیق آزاد اور مستند نہیں سمجھی جاتی۔اس حصے میں میں نے بحث کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر ان ہی کے طے کردہ اصولوں کو مدنظر رکھاجائے تومغرب میں جو لکھا جارہاہے یا جوان کے تاریخ دان لکھ رہے ہیں وہ درست ہے۔کہ چین مستقبل کی نو آبادیاتی قوت بنے گا کیاتاریخی شواہد اور باقی عوامل جن پر وہ خود بھی متفق ہیں،ان کے اس بیانیے کاساتھ دیتے ہیں؟ یا یہ بھی ایک اور چین مخالف بیانیہ ہے۔ میں نے ان عوامل پر مختصر بات کی ہے کہ ماضی میں بڑی قومیں یا مختلف جنگجو قومیں کیسی نو آبادیاتی تسلط کی طرف بڑھیں۔تو اس میں مذھب کا پہلو ہے، روایات کا پہلو ہے، خوراک کی کمی ہے،۔پرانی دشمنی ہے، یہاں تک کہ ایک قوم نے دوسری پر اپنے آپ کو بڑی جنگجو قوم ثابت کرنے کیلئے ایسا کیا یا کسی پرانی شکست کا بدلہ لینا تھا، لیکن کیا چین نے ماضی میں اس طرح کا کوئی ایڈونچر کیاہے کہ اس نے اپنی سرحد سے باہر کسی ملک پر قبضہ کیاہواگر ایسانہیں ہے تو پھر اس بیانیے کا مقصد کیا ہے؟

تیسرے حصے میں دنیا کے مختلف ممالک ،خطے کے ممالک اورجو بڑی قوتیں اس وقت دنیا میں حکومت کررہی ہیں ان کی چین کے ساتھ دشمنی کی کیا وجوہات ہیں اس کے اوپر بحث کی ہے اور آخری حصے میں چین کے ماضی میں مختلف اقوام کے ساتھ تعلقات اوراس کی ترجیجات کے اوپر بحث کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ مستقبل میں اس کے مختلف اقوام کے ساتھ ممکنہ تعلقات کی نوعیت اور سمت کے متعلق بات کروں۔ اس کتاب میں خطے کے باہر کی جو طاقتیں ہیں ان کا اور جو خطے کے مختلف ممالک ہیں جہاں پر ان کا اثر ورسوخ ہے ان کا چین کے ساتھ جو رویہ ہے اس پر تفصیلی بات کرسکوں۔

بریگیڈئیر ریٹائرڈ عبدالرحمان تارڑ

ایک لحا ظ سے ایک مکمل کتاب ہے جس سے آپ چین کے بارے میں کچھ جان سکتے ہیں اور میں مسقبل میں جو لکھوں گا وہ اسی سلسلے کو آگے بڑھاکر لکھوں گا۔

[pullquote]سوال: چینامی لکھنے کا فیصلہ کب اور کیوں کیا؟[/pullquote]

جواب : لکھنے کے پیچھے میرا احساس شرمندگی تھا جو مجھے چین دیکھ کر ہوا۔ چین جانے سے پہلے چین کے بارے میں میرا وہی تاثر تھا جو مغربی ذرائع ابلاغ پر بھروسہ کرنے والوں کا ہوناچا ہیے۔لیکن جب چین گیا اور چین اپنی آنکھوں سے دیکھا تو میں حیران رہ گیا۔ لیکن خیال رہے کہ میرے لیے حیرانگی کا پہلو قدرے مختلف تھا۔ میں چین جانے سے پہلے خوش قسمتی سے کچھ مغربی ترقی یافتہ ممالک بھی دیکھ چکاتھا ،ان کے مقابلے میں مجھے چین کی سڑکوں، شہروں اور عمارتوں نے ہی متاثر نہیں کیا بلکہ اس کے اس کے اس پہلو نے کیا جس کو غیر معمولی یا مثالی کہیں تو زیادہ بہتر ہے اور وہ ہے چین کے طول و عرض میں اس کا سوشل آرڈرجس نے مجھے بہت حیران کیا۔ اوربھی بہت سارے ممالک ہیں جہاں سوشل آرڈر ہے لیکن اتنی بڑی اور متحرک آبادی اور سب مطمئن نہ لڑائی، نہ جھگڑا نہ پریشانی۔ ایک سال میں میں نے پولیس کی کوئی گاڑی کو نہیں دیکھا یہ نہیں کہ میں بڑے شہروں کی بات کررہاہوں میں بیجنگ سے ساٹھ کلومیٹر دور دیوار چین کے نزدیک ایک قصبے میں رہتاتھا وہاں بھی اور کئی دیگر کئی گاوں بھی دیکھے کسی کو بے گھر نہ دیکھا، نہ میں نے کسی کو فٹ پاتھ پر سوتے دیکھا نہ ہی کسی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا اور نہ ہی کسی نے مجھے ہتک آمیز نظروں سے دیکھا۔ میں کئی مرتبہ شلوار قمیص پہن کر پھرتارہا اس سے بڑی جمہوریت کیا ہوگی جمہور کے حقوق اس سے بہتر کون ادا کررہاہے؟ میرے لیے یہ پہلو ناقابل یقین حد تک حیران کن رہا کیونکہ چین کی آبادی کو صرف پڑھنے سے اندازہ نہیں ہوتا ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی کواپنی آنکھوں سے دیکھیں تو پھر ہی اندازہ ہوتاہے اور پھر ہی آپ اس کا کسی بھی بہتر سے بہتر ملک کے ساتھ موازنہ کرسکتے ہیں۔اس جذبے کے ساتھ جب میں نے لکھا تو ممجھے بہت اچھا لگا بس مجھے اردو کے سافٹ وئیر نے تھوڑا پریشان کیا ۔حکومت پاکستان یا کوئی دوسرے ایسے ادارے جو اردو کی ترویج کیلئے کام کررہے ہیں ا ن کو چاہیے کہ اس کی سافٹ وئیر کے اوپر کام کریں تاکہ نئے لکھنے والوں کو ایسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

[pullquote] سوال : کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں اب بھی مغرب سے مرعوبیت پائی جاتی ہے اور ہمارے پڑوس میں ترقی کا جو ماڈل موجود ہے اس کو نظر انداز کیا جارہاہے؟[/pullquote]

جواب : یہ ہمارے ملک ہی میں نہیں ہورہا صرف ہم ہی قصور وار نہیں ہیں یہ جتنے بھی ملک ایسے ہیں جہاں کولونیل دور میں مغرب کا قبضہ تھا تو ساری کولونیل پاورز نے ایک پالیسی رکھی تھی جس کے تحت وہ خا ص لوگوں کو اہمیت دیتے تھےانہوں نے ان کو ایسے اختیارات دے رکھے تھے کہ وہ مقامی آبادی کے اوپر ان کے مفادات کا خیا ل رکھیں۔اب جب ملکیں اورقومیں آزاد بھی ہوگئیں تو وہ طاقتور طبقہ ان ملکوں میں اسی طرح رہا یا یہ کہیے کہ نوآبادیاتی قوتیں جاتےہوئے حکومتیں ان کے حوالے کرگئیں۔اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی ان کا اثرورسوخ ختم نہیں ہوسکا۔اور وہ ترقی یافتہ قومیں چونکہ ان کے پاس وسائل ہیں ذرائع ہیں انہوں نے اپنے طریقہ کار کو بدلا۔ ان کو کریڈٹ ضرور جانا چاہیے کہ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے اوپر بہت محنت کی اور میں سمجھتاہوں کہ تیسری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے اوپر ان کا پوری طرح قبضہ ہے۔وہ جو چاہتے ہیں ، لکھواتے ہیں، اسلئے اتنا آسان نہیں ہے کہ ان کے اثر و رسوخ سے نکلا جائے۔ میں یہ بھی سمجھتاہوں کہ چین بھی اس میں کسی حد تک قصور وار ہے کہ اس نے اپنی ترجیحات بدلتے ہوئے حالات کے مطابق نہیں بدلیں آپ پاکستان ہی کو مثال لے لیں پاکستان میں لوگ چین کے بارے میں نہیں جانتے تو ٹھیک ہے ہماری اشرافیہ ہماری قیادت ہماری حکومت میں جو لوگ رہتے ہیں ان کو ذمہ دار ٹھرانا تا چاہیے تاہم چین کو بھی ذمہ دار ٹھرانا چاہیے کیونکہ چینیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستانیوں کو اپنے بارے میں بتائیں۔

[pullquote]سوال : کتاب لکھتےوقت کن تجربات سے گزرے؟[/pullquote]

جواب : مجھے زبان کا تھوڑا مسئلہ رہا کیونکہ جغرافیائی سیاست پر اردو میں کتابیں کم ہیں اور نہ ہی ہماری لغت زیادہ مدد کرتی ہے۔اس کے علاوہ چین کے بارے میں اردو میں لکھی گئی کتابیں کم ہی نہیں ہیں بلکہ زیادہ ایسی ہیں جو انگلش میں لکھی گئی کتابوں سے ماخوذہیں اور ان کتابوں کو پڑھیں تو ایسے لگتاہے جیسے کوئی زیادہ انصاف نہیں ہوا اور ایک تاثر یہ بھی ملتاہے کہ مغرب میں چین کے حوالے سے جو کتابیں لکھی گئیں ہیں ظاہر ہے ان ہی کے حوالے آپ ڈھوںڈتے ہیں تو وہ کسی خاص بیانیے کے تحت چین کے بارے میں گمراہی پھیلانے کے بارے میں لکھی گئیں ہیں۔ چینی بھی اس حوالے سے برالذمہ نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے اس پر زیادہ کام نہیں کیا کہ لوگ ان کے بارے میں جان سکیں اور اگر انہوں نے اس حوالے سے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کچھ کام کیا بھی ہے تو وہ بڑا عامیانہ قسم کا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان ہے کیونکہ میں نے جب یہ کتاب تقسیم کی توجس کسی نے بھی کتاب پڑھی ان کا ایک سوال کامن تھا کہ ہم تو ایسا نہیں سمجھتے تھے کہ چین ایسا ہوگا ہم تو یوں سمجھتے تھے تو جب وہ کہتے تھے کہ ہم یوں سمجھتے تھے وہ بالکل وہی تاثرتھا جو مغرب نے چین کے بارے میں پھیلایا ہوا ہے۔ یہاں آپ پاکستان میں کسی لائبریری میں چلیں جائیں تو آپ کو چین کے بارے میں جتنی کتابیں ملتی ہیں وہ سب کی سب مغربی لکھنے والوں نے لکھی ہیں اور میرا تاثر یہ ہے کہ مغرب کے لکھنے والوں نے انصاف نہیں کیا سوائے ایک کتاب کے مجھے ایسالگا جیسے ہینری کسنجر نے چین پر جو کتاب لکھی وہ مجھے ایک ایسا بندہ لگا جس نے چین کو بڑے صحیح طرییقے سے اور بڑے نیوٹرل طریقے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔

میں نے کوشش کی ہے کہ چینامی چین کے بارے میں ایک آزادنہ اور حقائق پر مبنی تاثر بنانے میں مدد گار ثابت ہو۔ میں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا کیلئے بھی ایک پیغآم دوں کہ اگر مغرب کا بیانیہ چین کے بارے میں درست ہے یا مغرب نے جو تحقیق کی ہے وہ درست ہے یاابھی جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے بعد جو بیانیہ پیش کیا جارہاہے کہ اس کے ذریعے چین ایک نو آبادیاتی طاقت بننے جارہاہے تو میں نے ان کے سامنے ایک ماڈل پیش کیا ہے۔ وہ لوگ اس میں سے اپنے لیے رہنمائی لے سکتے ہیں کہ اگراس حوالے سے ان کے اندر خوف ہے تو وہ پاکستان کو دیکھے کہ کس حد تک اس میں سچائی ہے۔ اگر وہ اس کتاب کو پڑھیں یا اس میں جو حوالے میں نے دیے ہیں ان کو دیکھیں کہ چین کس حد تک دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی کرتاہے۔ اوران میں سے بھی ایک ایسا ملک جسے میرے خیال میں چین کیلئے سب سے اہم ملک کہا جائے تو غللط نہیں ہوگا وہ پاکستان ہے اگر پاکستان کے معاملات میں چین دخل اندازی نہِیں کرتا تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان ممالک میں چین دخل اندازی کرے گا جہاں پر صرف اس کے معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ پاکستان کے ساتھ چین کے صرف معاشی مفادات وابستہ نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ تو چین کے سلامتی کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ اگر پاکستان جیسے ملک میں چین دراندازی نہیں کررہا تو کیا وجہ ہے کہ دوردراز افریقہ کے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرے گا۔

[pullquote] سوال :کتنا خلا موجود ہے چین سے متعلق معلومات اور آگاہی کے بارے میں؟[/pullquote]

جواب : دو پہلوہیں خلا سے متعلق، ہمارے مفادات چین کے ساتھ وابستہ ہیں، ہم ایک لمحے کیلئے چین کو علیحدہ کرتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں بہت سارے ممالک کے ساتھ معاہدے کرکے ان کے ساتھ مل کر کام کرکے دیکھ لیا کہ جس ملک کا اپنا مفاد جس وقت پورا ہوااس نے پاکستان کو اسی طرح چھوڑ دیا۔ اب پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے اور پاکستان کے معاملات میں کبھی دخل اندازی نہیں کی۔ دنیا میں کہیں سے کچھ بھی دباو آیا چین نے پاکستان کے ساتھ دوستی کی اپنی پالیسی کے اوپر اسی طرح عمل کیا جیسے اس نے پہلے دن سےکیا ہے، تو اسلئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے لوگوں کو چین کے بارے میں حقائق سے آگاہی دیں۔ دوسری طرف چین کو بھی چاہیے کہ اب وہ اتنا بڑا منصوبہ جو اس نے شروع کیا ہے پاکستان کے اندرسی پیک کا اس کی کامیابی کیلئے پیسوں کے ساتھ ساتھ ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس کے بارے میں صحیح علم ہو کیونکہ اس منصوبے کے بارے میں منفی بیانیے پھیلائے جاتے ہیں لیکن ان کے جواب میں ایسا بیانیہ نہیں آتا جو اس کے اثر کو زائل کرے۔ دونوں ملکوں کو اوردونوں ممالک کے لوگوں کو مل کر کام کر نا چاہیے کہ جب دونوں ملکوں کے مفادات مشرکہ ہیں، ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، دونوں کا ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے، تاکہ عوام کی سطح پر اور نچلی سطح پر جو شکوک شبہات پیدا ہوتے ہیں یا جو خلا ہے اس کو دور کیا جاسکے۔

کیونکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں سے گفتگو کرکے بھی مجھے مایوسی ہوئی ہے کیونکہ چین کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں چین کے بارے میں کم جاننا اتنا نقصان دہ نہیں ہے جتنا چین کے بارے میں غلط جاننا نقصان دہ ہے۔ نہ تو لوگ چینی نظام کو سمجھتے ہیں نہ چین کے اپنے مسائل کو، اور نہ ہی چین کے مستقبل میں جوترجیحات ہیں ان کو لوگ سمجھتے ہیں۔ لوگ بات ایسے کرتے ہیں کہ لگتاہے کہ ان کے منہ میں مغرب کی زبان ہے۔یا ان بیانیوں کو جانتے ہوئے یا انجانے میں پھیلارہے ہیں جومغرب سے آتے ہیں۔

[pullquote] کووڈ۔۱۹ صورتحال کے تناظر میں بعض مغربی ممالک کے چین کے بارے میں رویے کے بارے میں کیا کہیں گے؟[/pullquote]

جواب : دنیا کے عام لوگوں کی یاداشت بہت کم عرصے کیلئے ہوتی ہے۔ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مغرب پچھلے دو تین سو سالوں سے دنیا پر حکومت کرتاپھر رہاہے۔ اور انہیں کبھی یہ سوچ ہی نہیں آئی کہ ان کے علاہ بھی کوئی ملک بڑا کام کرسکتاہے۔کسی بڑے نظریے پر کام کرسکتاہے۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ اس وقت مغرب کو جو سب سے بڑا نقصان جو ہوا ہے اور جو ہونے والا ہے خا ص طور پر امریکہ کو وہ ان کی انا ہے امریکہ اگر چین کو دیکھتے ہوئے چین سے سبق سیکھتا اور جب یہ وبا پھیلی تو بجائے اس کے کہ الزام تراشی میں وقت ضائع کرتا اسی طرح یورپ الزام تراشی میں وقت ضائع نہ کرتا اور وباکی وجوہات کووبا پر قابو پانے کے بعد دیکھا جاتا اور چین کے اقدامات کو دیکھ کر عمل کرتے توشاید دنیا میں کورونا اتنا زیادہ نہ پھیلتا کیونکہ میں سمجھتاہوں جب امریکہ نے کہا کہ ہمارا جو ہیلتھ کئیر سسٹم ہے وہ دنیا کا سب سے جدید سسٹم ہے ہم یہ کرسکتے ہیں ہم وہ کرسکتے ہیں ہمارے ملک میں ایک بھی مریض نہیں ہے تو اس وقت ہزارنہیں لاکھ نہیں بلکہ ملین میں لوگ امریکہ جارہے تھے اور امریکہ سے ساری دنیا میں پھیل رہے تھے میں ذاتی طور پر یہ سمجھتاہوں کہ یہ وبا جہاں سے پھیلی وہ ایک علیحدہ سوال ہے اس کو بعد میں دیکھنا چاہیے لیکن اس کے پھیلانے میں امریکہ اور یورپ کی انا پرستی نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ جو انہوں نے غلط طرز عمل اپنایا کہ پہلے الزام تراشی کرے اس کے بعد اقدامات کریں میرے خیال میں اگر وہ چین کو دیکھ کر اس کے ماڈل کو اپنالیتے اور اس میں نہ رہتے کہ ہم سب سے بہتر ہیں تو یہ وبا دنیا پر اتنی بری طرح اثر انداز نہ ہوتی اور اتنا بڑا نقصان ان کا اپنا بھی نہ ہوتا۔

[pullquote]مستقبل میں لکھنے کے حوالے سے کیا ارادے ہیں؟[/pullquote]

جواب : میرا ارادہ ہے اور میرا بہت دل ہے کہ میں چین کے اوپر ایک اور کتاب لکھوں اورمیں نے اس کے اوپر آوٹ لائن بھی لکھی ہے ۔اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ چین نے کس طرح کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کو غربت سے نکالا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اتنی مخالفت کے باوجودایک ایسا وقت جب مغرب میں جو جمہوریت ہے اورعوام میں اپنی حکومتوسے سے بے زاری اور مایوسی پھیل رہی ہے تو چین جس کے بارے میں اتنے بیانیے پھیلائے جاتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ مغربی آزاد شماریاتی ادارے بھی جب چین کے بارے میں اعداد و شمار دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہچین کے اسی سے پچاسی فیصد لوگ اپنی قیادت پر بھروسہ کرتے ہیں اور پر امید ہیں کہ ان کا مستقبل آج سے بہت بہتر ہوگا۔

[pullquote] سوال :آئی بی سی اردو کے قارئین کے لیے کوئی پیغام؟ [/pullquote]

جواب : چین کو ایسے زاویے سے دیکھیں جو مغربی ذرائع ابلاغ کے پھیلائے ہوئے تاثر سے ہٹ کے ہو چین کے بارے میں اپنی ایک آزاد رائے قائم کریں چین کے بارے میں ہمارا جاننا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ہماری کوئی مشکل کوئی مسئلہ کے حل میں چین کا نام آتاہے لہذا ہمیں چاہیے کہ چین کے بارے میں ہم اپنا آزادانہ تاثر قائم کریں نہ کہ کسی اور کے بتائے ہوئے پر تاثر بنائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے