کرونا وائرس نے امریکہ میں نسلی عدم مساوات کو بے نقاب کر دیا

گزشتہ ماہ دو اپریل کو مشی گان ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز نے ریاست کے کرونا وائرس کے کیسز کا ڈیٹا جاری اور جو جلد ہی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا، اس جاری رپورٹ میں بتایا گیا کہاس افریقی امریکیوں کی ریاست میں افریقی نژاد امریکیوں کا تناسب بارہ فیصد ہے لیکن محکمے کے پاس کرونا کے تصدیق شدہ 33فیصد کیسز ہیں جن میں سے چالیس فیصد متاثرہ لوگوں کی اموات ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے جو قبل ازیں اعدادوشمار جاری کیئے گئے ان کے مطابق یہ اعدادوشماربالترتیب32فیصد اور 41فیصد رہے ہیں۔ امریکہ میں کرونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں اموات کی شرح گورے امریکییوں میں باون فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ افریقی نژاد امریکیوں میں اموات کی شرح 22فیصد ریکاڑڈ کی گئی، جبکہ لاطینی امریکیوں میں کرونا کے سبب اموات کی شرح سولہ فیصد، اس حوالے سے امریکہ کے بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکزکی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق ایشائی امریکیوں میں کرونا وائرس کے سبب اموات کی شرح 5.7فیصد ریکارڈ کی گئی۔

کرونا وائرس کے حوالے سے امریکہ میں اموات کی شرح سب سے زیادہ افریقی امریکیوں میں مجموعی آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی جو کل آبادی کا بارہ فیصد سے زائد ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں افریقی نژاد امریکی اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہں۔ دوسری جانب ہر امریکی ریاست مٰں ہونیوالی اموات کے ھوالے سے سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق یہ بات ثابت ہو سکتی ہے۔ کہ امریکہ کی سبھی ریاستوں میں افریقی نژاد امریکی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ کینساس میں مجموعی آبادی کا کل 5.2فیصد افریقی نژاد امریکیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود ان میں کرونا کے باعث ہلاکتوں کی شرح سب سے زایدہ بائیئس فیصد ہے، میسوری میں افریقی امریکیوں کی شرح مجموعی آبادی کا گیارہ فیصد ہے۔

لیکن کرونا کے سبب اموات کی شرح سینتیس فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسی طرح سے ایلینوس میں افریقی امریکیوں کی مجموعی آبادی کا تناسب 14.1فیصد ہے لیکن یہاں بھی کرونا کے سبب اموات کی شرح افریقی امریکیوں میں تیس فیصد سے زائد ہے۔ ان اعدادوشمار سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے نسلی امتیازات کے حوالے سے ایک نئی شکل اختیار کر لی لے۔ پہلے مرحلے میں نسل پرستی امریکی سیاستدانوں اور میڈیا کی جانب سے مخصوص نسلوں اور ممالک کی جانب منسوب کی گئی اور وبا کے بیچ کچھ نسلی اقلیتوں پر نسلی عدم مساوات کی شکل اختیار کر لی گئی۔چونکہ وائرس نسلوں کے مابین کوئی فرق نہیں کرتا، لہذا اموات کی شرح سے متعلق نسلی اختلافات، صرف اسی صورتحال کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

جنہیں مختلف نسلی گروہ کا سامنا ہے۔ تجزئے کی بنیاد پر بنیادی بیماریوں، طبی حالات، طبی انشورنس، رہائشی حالات، معاشی حیثیت، صحت سے متعلق آگاہی، طرز زندگی، زہنی تناؤ، وہ بنیادی عوامل ہیں جو وبا کے دوران زیادہ اموات کی وجہ بنتی ہیں اس حوالے سے امریکہ میں نسلی اقلیتوں کا بیشتر عوامل جن میں حیاتایاتی جنیاتی خصوصیات شامل ہیں ان سے کم ہی واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن وہ معاشرتی حالات سے جڑے ہوئے ہیں جب یہ سب نسلی گروہ پر اثرات مرتب کر رہے ہیں تو وہ نسلی عدم مساوات پیدا کرتے ہیں۔ امریکی سینٹر الزبتھ وارن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سخت نسل پرستی کے کئی عشروں نے بہت سارے سیاہ فام اور براؤن خاندانوں کو معیاری صحت کی دیکھ بھال، سستی رہائش، اور مالی تحفظ تک رسائی تک روک دیا ہے۔ اور کرونا وائرس کا بحران ان نسلی عدم مساوات کو کھلی ہوا دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ گورے لوگوں کی طرح امریکی گوروں کی طرح افریقی ماریکیوں کو بھی طبی انشورنس کا سامنا ہے۔

اور لاطینی امریکہ بنیادی طور پر اسی حالات میں ہے۔ طبی انشورنس کیء غیر موجودگی میں یہ لوگ بہتر طبی سہولیات سے محروم رہتے ہیں اور یہ وبائی امراض کے دوران بہتر طبی سہولیات حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ افریقی اور لاطینی کمیونیٹیز کے بیشتر طبی ادارے محدود اقسام کی طبی خدمات مہییا کر سکتے ہیں جو اکثر باشندوں کو بروقت علاج کی سہولیات فراہم نہیں کر سکتے۔

جس کی وجہ سے دائمی امراض میں وقت گزرنے کئساتھ ساتھ مزید اضافہ ریکارڈ ہوتا رہتا ہے۔ امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے الرجی اور متعدی امراض کے ڈائریکٹر انتھونی فوکینے اعتراف کیا ہے کہ کرونا وبا نے امریکہ میں مختلف نسلی گرہوں کے شہریوں میں صحت اور ممکنہ سہولیات کی عدم فراہمی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایک بنیادی انسانی حق کی حیثیت سے بنیادی صحت کا حقاور رسائی ہر ایک کا بنیادی حق ہونا چاہیے۔ بلکہ مساوی تحفظ کے بنیادی اصول پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے نمونیا کی وبا کے دوران افریقیوں اور لاطینی امریکیوں کے نتائج نسلی اقلیتوں کے صحت کے یکساں حقوق اور تحفظ کے لیے ناکامی کی منہ بولتی تصویر پیش کرتا ہے۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے