انصار نقوی کچھ یادیں کچھ باتیں

تاریخ یاد نہیں لیکن مہینہ دسمبر دو ہزار آٹھ کا تھا،فون کی گھنٹی بجی اور بجتی چلی گئی، نیند میں ڈوبی آواز میں ہیلو کہا تو دوسری طرف سے آواز آئی انصار نقوی بول رہا ہوں،سو رہے تھے کیا؟ بس سر اٹھنے والا تھا کچھ دیر میں آفس کے لئے نکلوں گا، یار تمُ آج آف کرو، تمہاری ڈیوٹی کل سے شام کی ہے اور بلیٹن کوارڈینیشن پر ہے ،لیکن انصار بھائی میری ڈیوٹی مین سرور پر ہے، ہاں اس کو بھی دیکھ لیں گے،لیکن تم بلیٹن کوارڈینیشن میں آجاؤ اور تمہیں پیکجز پر کام کرنا ہوگا،ٹھیک ہے انصار بھائی .

یوں ڈیوٹی کے اوقات کیا بدلے سب کچھ بدل گیا، ایک استاد، مینٹور کی طرح انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا،باس نہیں بلکہ ٹیم لیڈر کی طرح غلطیوں پر کھل کر ڈانٹا پھر بتایا کہ دیکھ تو نے یہ غلطی کی تھی اس کو ایسے صحیح کر،کھلی پلئینگ فیلڈ دی، جب جب اسکرپٹ لکھا ہر بار سپورٹ کیا ، کیا نہیں کروایا اسپورٹس، پالیٹیکس،کرائم، انٹرنیشنل اسٹوریز،سماجی مسائل،بلیٹن کی لیڈ اسٹوریز تک پہنچادیا،،کبھی کچھ “خطرناک” لکھ دیا تو ڈھال بن گئے، ارے تو لکھ ،بنا پیکج، کر وائس اوور، کچھ ہوگا تو دیکھا جائے گا، میں بیٹھا ہوں فکر نہ کر، لیکن کوئی فیکچوول غلطی نہیں ہونی چاہیے، بس ایک بار اسکرپٹ مجھے دکھا دینا، اور ہر بار گرین سگنل ،جا کردے پھنسنے کے لیے تو انصار نقوی بیٹھا ہے ناں، ایک بار تو چلادے پھر دیکھا جائے گا.

کیسے کیسے جملے نہیں لکھے، کس کس طرح سے لوگوں کے چہروں سے نقاب نہیں اتارے ، کیونکہ پتہ تھا پیچھے ایک شخص کھڑا ہے ،جو ہر مشکل سے نکال لے گا، جب کبھی شفٹ بدلنے کا سلسلہ ہوا ہر بار آواز آئی کامران مبشر شام کی شفٹ میں ہی رہے گا،ڈانٹ بھی ایسے پڑتی تھی کہ او بھائی کیا سرکاری ٹی وی میں کام کررہا ہے،کیا کیا لکھوں کیا کیا کہوں ، یادوں کا سمندر آنکھوں سے بہے جارہا ہے،بار بار سکھایا کہ مسئلے کا حصہ نہیں اس کے حل کا حصہ بنو کامیاب رہو گے، خود فیصلہ کرو کہ زندگی گزارنی ہے یا زندگی جینی ہے، اگر زندگی جینا چاہتے ہو تو اپنا پیسہ اپنے اوپر لگاؤ ورنہ وہ پیسہ ڈاکٹر لے جائے گا اور تم کچھ نہیں کرسکو گے.

یہ دو تصاویر دو ہزار تیرہ کی وہ یاد ہیں جب کراچی کی طوفانی بارش میں انصار بھائی نے آدھے لوگوں کے ساتھ پوری شفٹ نکلوائی ،سب کچھ سکھا کر کچھ عرصہ پہلے جیو چھوڑدیا، لاہور شفٹ ہوگئے ، لیکن کبھی رابطہ نہیں ٹوٹا ایک فون کال کی دوری پر جو تھے، کبھی نہیں کہا میں مصروف ہوں کچھ دیر بعد کال کرنا،،جب بھی کراچی آتے تو مل کر ایک جملہ ضرور کہتے ہاں بھئی سنتا رہتا ہوں تیری آوازیں لگا رہ.

آخری بار تین ماہ پہلے شاید جیو میں ہی دور سے ہیلو ہائے ہوئی میں اٹھنے لگا تو اشارہ کیا بیٹھ بیٹھ بیٹھ میں آکر ملتا ہوں، بس وہ آخری ملاقات تھی، اب کل سے فون کو تکے جارہا ہوں واٹس ایپ پر آخری بار دوپہر دو بجکر چالیس منٹ کا ہندسہ نظر آرہا ہے، لیکن انصار بھائی کا نمبر مسلسل بزی جارہا ہے، انصار بھائی فون اٹھالیں خدا کا واسطہ ہے، اب تو سولہ گھنٹے ہوگئے ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے