ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری سے جڑی ایک یاد

خدا کی رحمت اگر متوجہ کر لی تو کرائسس کچھ نہیں کہتے!—(کرونا وبا کے تناظر میں)

آپ نے بچپن میں واقعہ پڑھا ہو گا کہ تین آدمی طوفانی موسم میں ایک غار میں پھنس گئے اور ان میں سے ہر ایک نے خدا سے دعا کی اور غار کے منہ کا بڑا پتھر بالآخر ہٹ گیا۔ اس دعا کی اہم بات یہ تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے خدا کے حضور اپنے ایک ایک ایسے نیک عمل کا واسطہ پیش کیا جو اس نے واقعی سو فیصد خدا ہی کے لیے کیا تھا(بعض روایتوں میں ان میں سے ایک شخص کی دعا میں ایسا عمل پیش ہوا ہے جو بچپن میں سمجھ نہیں آتا تو اس کی جگہ دوسری روایتوں کا سہارا لے کر مختلف عمل لکھا گیا ہے)۔ عمل خدا کے لیے کیا گیا تھا اس لیے اسے پکارنے والے تینوں نے یہ چیلنج بھی دیا کہ خدایا اگر تو مانتا ہے کہ میں سچ کہہ رہا ہوں تو پھر رحم فرما، چنانچہ خدا کی رحمت تینوں کے لیے الگ الگ متوجہ ہوتی نظر آئی!

اس میں سبق یہ ہے کہ زندگی میں کچھ ایسے کام بھی ہونے چاہییں جو مشکل حالات میں خدا کے حضور پیش کرنے کے قابل ہوں اور جتنی بڑی مشکل/کرائسس کا ازالہ مقصود ہے اتنا بڑا عمل لے کر آنا بھی ضروری ہے۔ یہ عمل فرائض /ذمہ داریوں کی ڈومین سے ہٹ کر ہونا بھی ضروری ہے۔ اس میں کچھ اور تقاضے بھی ہیں جو میں نے کسی کتاب میں لکھے تھے، (البتہ کمنٹس میں اگر کوئی اس واقعہ کی دونوں روایتوں کا ترجمہ لکھ دے تو اس سے ناواقفوں کو بھی اسے پڑھ کر کئی زاویے سمجھ آئیں گے)

دوسری اہم چیز یہ ہے کہ ایسا ہی کوئی بڑا کام سو فیصد خدا کی رضا کے لیے زندگی کے سفر میں ساتھ چلتے رہنا چاہیے۔ یہ بات استاد ظفر انصاری مرحوم سے سیکھی۔ آپ نے لمبی عمر پائی اور کئی مرتبہ موت کے منہ سے واپس آئے۔حتی کہ ہم دوستوں میں مشہور ہو گیا کہ جب تک بابا جی قرآن کا پراجیکٹ مکمل نہیں کر لیتے فوت نہیں ہوں گے! یہ پراجیکٹ تفہیم القرآن تفسیر کا انگریزی ترجمہ تھا مگر اس میں ترجمانی کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ بارہ سال تو میں بھی انکی معاونت کرتا رہا اور مجھ سے پہلے بھی کئی سالوں سے وہ یہ کام کر رہے تھے۔ انصاری صاحب کو شاید یقین تھا کہ وہ اس کام کو پورا کرنے سے پہلے فوت نہیں ہوں گے۔ اگرچہ انہیں موت کا خوف نہیں تھا لیکن ان کے اس یقین نے انہیں بے پناہ اعصابی و مدافعتی قوت دے رکھی تھی کہ پیرانہ سالی میں بھی کئی سال ڈائلاسس کی شدید تکلیف ان کے ما تھے پر شکوہ و شکن نہ لا سکی۔ دونوں ہاتھوں سے لے کر دونوں بازوؤں تک ہر جگہ سوئیوں کے زخم دیکھ کر میں کئی بار خوف سے چکرا جاتا لیکن آپ مسکرا کر کہتے کہ مصافحہ کی سنت مجھے معاف ہو گئی ہے!

اس نیک معاملے میں وہ اپنے نفس یا خدا کو دھوکا نہیں دیتے تھے اسی لیے قرآن پراجیکٹ کا نوے فیصد تو وہ پورا کر ہی گئے۔ انکی اکلوتی بہو کہتی ہیں کہ آخری دنوں میں وہ ایک دن زاروقطار رو دئیے۔ میں نے کہا ہارٹ اور کڈنی کی تکلیف بڑھ گئی ہے تو ہسپتال لے جاتے ہیں لیکن آپ نہ مانے اور مسلسل کافی دیر رو لینے کے بعد بھرائی آواز میں کہا میرا قرآن پراجیکٹ اب کون پورا کرے گا، میری مہلت تو پوری ہو چکی۔ یہ کہہ کر وہ پھر رو دئیے اور اسی ہفتے انکی وفات ہوئی!

میں نے تو ایک آدھ ایسا پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے جسے سوچ کر ایمانی و مدافعتی قوت بحال ہوتی ہے، آپ بھی قسمت آزمائیے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے