سیاحت کو کرونا وائرس سے بچانے کا نسخہ

سیاحت کے شعبے پر کرونا وائرس کے اثرات کا جائزہ اور اس سے نمٹنے کے لئے چند تجاویز

کرونا وائرس کی وبا سے سیاحت کا شعبہ شاید سب سے برے طریقے سے متاثر ہوا ہے۔ ائیرلائنز اور ہوٹل تو شائد اس مشکل سے کسی حد تک نمٹ لیں گے کیونکہ انکے پاس فنانسز اور لیکویڈیٹی کی کافی سہولیات میسر ہیں۔ مگر پاکستان میں چھوٹے ٹریول ایجنٹس جنکی آمدنی کا بہت بڑا دارومدار عمرہ اور حج کے پیکجز وغیرہ پر ہوتا ہے انکے مالکان اور ملازمین کی صورتحال تقریبا فاقہ کشی کی سمت جا رہی ہے۔

ٹریول ایجنٹس یونینز حکومت سے ریلیف پیکج کا مطالبہ تو کر رہی ہیں مگر یہ متعین کرنے سے قاصر ہیں کہ یہ ریلیف کیسی ہونی چاہیے۔ زیادہ تر انکا مطالبہ ٹیکس ریلیف اور بلا سود قرضوں کا ہے۔ مگر موجودہ صورتحال میں ٹیکس چھوٹ سے کوئی خاطر خواہ بہتری یا ریلیف کے امکانات تو نظر نہیں آتے کیونکہ نہ تو انکی آمدنی شروع ہوگی نہ وہ اس سے ملازمین کی تنخواہیں ادا کر سکیں گے۔ اسی طرح بلا سود قرضے کا مطالبہ بھی کچھ متاثر کن نہیں کیونکہ کوئی بھی فنانشل انسٹیٹوٹ کسی بند یا منجمد کاروبار کو فنانس نہیں کرتا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹریول ایجنٹس کے کاروبار کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے اور ٹریول ایجنٹس کا کاروبار جسکا بہت بڑا انحصار حج اور عمرہ پر ہے انکی travel destinations میں اضافہ کر کے انکے سروس پورٹ فولیو کو مذید متنوع بنایا جائے۔

[pullquote] لیکن اس میں دو بڑے مسائل ہیں۔ [/pullquote]

ایک انسانی سمگلنگ کے معاملات میں بدنامی کی وجہ سے پاکستانی پاسپورٹ پر ویزا کی مشکلات
اور دوسرا براہ راست فضائی رابطوں کا فقدان

میرے خیال میں حکومت کو فوری طور پر ایک سپیشل کمیٹی قائم کرنی چاہیے جو ان دونوں مشکلات کا تفصیلی تجزیہ کرے اور اسکے فوری حل کے لئے حکمت عملی اور لائحہ عمل تیار کرے۔ اس سلسلے میں یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ اب چونکہ آہستہ آہستہ ائرپورٹ کھل رہے ہیں اور بین الاقوامی پروازیں بحال ہو رہی ہیں تو حکومت فوری طور پر جنوبی ایشیائی ممالک (سری لنکا، نیپال وغیرہ)، مشرق بعید(ویتنام، کیمبوڈیا، تھائی لینڈ، سنگا پور، ملائیشیا، انڈونیشیا، فلپائن وغیرہ) ، وسطی ایشیا اور کاکیشیائی ممالک (مثلا آذر بائیجان، ازبکستان ، قازقستان، جارجیا،ترکمانستان، تاجکستان ، کرغیستان وغیرہ) سے مذاکرات کرکے پاکستانی ٹورسٹس کے لئے ویزا فری یا آن ارائیول ویزا کا بندوبست کرے اور فوری طور پر ان ممالک کے ساتھ براہ راست اور کم قیمت بین الاقوامی فضائی رابطے استوار کیے جائیں۔

ان ممالک کا بڑی حد تک دارومدار سیاحتی آمدنی پر ہے قیمتیں بھی مناسب ہیں اور اس وقت شائد یہ ممالک پاکستان کے لئے ویزا نرمی پر راضی ہو جائیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان ممالک کی ٹریول اور ٹور آپریٹر یونینز کے ساتھ رابطے کر کے مناسب قیمتوں کے فیملی ٹریول پیکچ لانچ کئے جائیں ڈائریکٹ فلائیٹس، ویزا کی چھوٹ اور کم قیمتوں کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں پاکستانی سیاح ٹریول ایجنٹس کے ذریعے ان ممالک کی سیر کو جا سکتے ہیں جو سیاحت کے شعبے سے وابستہ تمام سٹیک ہولڈرز کو فائدہ پہنچائے گا۔

اگر یہ ممالک مستقل بنیاد پر ویزا میں نرمی نہیں کرنا چاہتے تو ان سے یہ طے کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ وہ عارضی طور پر یہ چھ یا آٹھ دس ماہ کے لئے یہ سہولت فراہم کر دیں تاکہ سیاحت کا شعبہ واپس اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔ اگر حکومت اوپر دی گئی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرے تو ویزا نرمی اور براہ راست فصائی رابطے استوار ہونے میں کم از کم چھ ماہ لگ سکتے ہیں اسلئے ابھی سے کام شروع کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔

[pullquote]اکثم ڈار[/pullquote]

اکثم ڈار انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ ہیں جنہوں نے گذشتہ بیس برس جے دوران دنیا جی بہترین ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ مختلف ممالک کے نجی اور سرکاری شعبوں میں نہایت اہم منصوبوں پر بطور کنسلٹنٹ کام کیا۔ آج کل متحدہ عرب امارات میں حکومت ہی کی ملکیتی ایک کمپنی میں بطور مشیر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔  گورننس، سٹریٹیجی، پراجیکٹ مینیجمنٹ اور آڈٹ میں تجربہ رکھنے کے علاوہ Leadership، Entrepreneurship اور تعلیم کے موضوعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے