زیادہ سے زیادہ مر ہی تو جائیں گے

تشکیک کے عنصر سے بنے انسانی ذہن کو ہر نئی صورتِحال سمجھنے اور قبول کرنے میں ایک ضروری مدت درکار ہوتی ہے۔

چنانچہ سمجھنے سمجھانے میں ہی اکثر بہت سا قیمتی وقت نکل جاتا ہے اور کوئی بھی واقعہ وقوع پذیر ہو جانے کے باوجود ایک عرصے تک ذہن پر قسط وار کھلتا چلا جاتا ہے۔

نہیں نہیں یہ ان کی بیماری ہے، ہمارا اس سے کیا لینا دینا۔ نہیں نہیں یہ بیماری نہیں سازش ہے۔

ہاں ٹھیک ہے، یہ بیماری تو ہے مگر اتنی بھی خوفناک نہیں جتنا کہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔اس سے کہیں زیادہ لوگ تو روزانہ سڑک کے حادثات یا دل کے دورے میں مر جاتے ہیں۔

مانا کہ کاروبار بند رکھنے اور گھروں تک خود کو محدود کر لینے سے اس بیماری کا پھیلاؤ سست پڑ جاتا ہے مگر ہم کب تک قید رہیں۔

علاج کا بھی کچھ بھروسہ نہیں کب دریافت ہوگا۔ تو کیا زندگی ہمیشہ کے لیے بند رکھیں؟ اب دو راستے ہیں، یا بیماری سے مرو یا بھوک سے۔

ٹھیک ہے جو قسمت میں لکھا ہے وہ تو ہونا ہے۔ کاروبار کھولیے اللہ مالک ہے۔

جب 26 فروری کو پاکستان میں کورونا کا پہلا متاثر سامنے آیا تو اس وقت کافی تشویش پھیلی۔ آج جب روزانہ لگ بھگ تین ہزار مریض سامنے آ رہے ہیں اور اموات کا کانٹا ڈیڑھ ہزار عبور کر گیا ہے تو کوئی بہت زیادہ سنجیدہ یا عاجلانہ قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔

ریاست نے تو خیر بہت پہلے اس کے ممکنہ پھیلاؤ کو ناگزیر حقیقت کے طور پر قبول کر لیا تھا لہذا اس سے کبھی بھی توقع نہیں تھی کہ وہ چین سمیت مشرقی ایشیائی ممالک جیسا آہنی ارادہ دکھا پائے گی۔

اس کا تعلق وسائل کے ہونے نہ ہونے سے زیادہ عزم سے ہوتا ہے۔ ورنہ کوئی بھی کمزور آج تک کسی طاقت ور سے نہ جیت پاتا۔

مذہبی و کاروباری طبقات نے روزِ اول سے ہی اس پورے مسئلے کو اپنی مفاداتی عینک سے دیکھا چنانچہ ارادے کی کمزور ریاست کو ان طبقات کے پیچھے بہانہ گیر پناہ لینے کا موقع مل گیا۔

لہذا عام آدمی نے بھی اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا۔

شروع شروع میں جتنے لوگ سینیٹائزر استعمال کر رہے تھے یا ماسک لگا کر باہر نکل رہے تھے آج بھی کم و بیش اتنی ہی تعداد ہے۔

شروع کے دنوں میں سماجی فاصلوں کا چند شہری علاقوں کی حد تک زیادہ خیال رکھا جا رہا تھا مگر عید سے قبل کاروبار جس طرح کھولا گیا اس نے رہی سہی جھجھک بھی من سے نکال دی۔

ویسے انسان کرے بھی تو کیا کرے ؟

ابھی میں اسپتال سے کورونا نیگیٹو کا سرٹیفکیٹ لے کر نکلا ہوں اور ابھی میرے پاس سے گزرتے ہوئے کسی نے کھانس یا چھینک دیا تو کیا میں پھر سے ٹیسٹ کراؤں؟

یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مصدقہ مریض تو ستر ہزار ہیں مگر غیر مصدقہ لاکھوں میں ہیں۔

یہ بھی بتا رہے ہیں کہ اگر آپ میں فلاں فلاں علامات پائی جاتی ہیں تو بہتر ہے آپ ٹیسٹ کروا لیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ضروری نہیں کہ آپ میں کورونا کی بظاہر کوئی بھی مروجہ علامت پائی جاتی ہو۔

اس کے باوجود آپ کورونا وائرس دوسروں تک منتقل کر سکتے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کورونا پازیٹو ہو کر نیگیٹو بھی ہو چکے ہوں اور آپ کو پتہ بھی نہ چلا ہو کہ آپ میں اس وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہو چکی ہے ۔

یہ معلوم کرنے کے لیے ایک اینٹی باڈی ٹیسٹ الگ سے دستیاب ہے۔ ایسے حالات میں عام آدمی کھائے کدھر کی چوٹ، بچائے کدھر کی چوٹ۔

چنانچہ تنگ آمد وہ یہی سوچتا ہے کہ جو ہو کر بھی کورونا ہے اور نہ ہو کر بھی کورونا ہے ۔ تو جہنم میں جائے سب ۔ یہ پڑا ماسک ، یہ رہا تمہارا سینیٹائزر اور صابن ، یہ پکڑو اپنے ایس او پیز ۔

میں تو اب وہی کروں گا جو پہلے سے کرتا آیا ہوں۔ یعنی سنو سب کی کرو اپنی۔ بہت سے بہت کیا ہوگا؟ مر ہی تو جائیں گے نا۔ ویسے کون سے زندہ ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے